راولپنڈی کی ’گولیوں والی مسجد‘ کو سکھوں نے کیوں نشانہ بنایا؟

اس مسجد کے دروازے پر سنہِ تعمیر کے مطابق یہ اکبر کے دور میں بنی تھی، تاہم کچھ ماہرین اسے شیر شاہ سوری کے دور کی مسجد مانتے ہیں۔

 نیاریاں محلے میں واقع گولیوں والی مسجد تنگ گلیوں میں گھری ہوئی ہے (سجاد اظہر)

راولپنڈی کی جامع مسجد روڈ پر بائیں جانب پرانا راولپنڈی ہے۔ جہاں گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ بقول مشتاق احمد یوسفی، ’ایک طرف سے مرد آ رہا ہو اور دوسری طرف سے عورت تو درمیان میں صرف نکاح کی گنجائش بچتی ہے۔‘

پرانے دور میں یہ تنگ گلیاں سکیورٹی کو مدِ نظر رکھ کر بنائی جاتی تھیں اور دوسرا اس وقت یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ زمانہ اس تیزی سے بدلے گا کہ گھوڑوں اور گدھوں کی جگہ موٹرکاریں لے لیں گی اور مخالف لشکر شہر کے دروازوں کی بجائے سرحدوں پر ہی روک لیے جائیں گے۔

راولپنڈی کی ان پرانی گلیوں میں وقت اور تاریخ دونوں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ جامع مسجد روڈ پر بائیں جانب کو مڑنے والی گلی چن بازار ہے جس کے بائیں جانب محلہ نیاریاں ہے۔

’نیاری‘ ایک قدیم پیشہ ہے جو دریاؤں کی ریت سے سونا چھاننے والوں کو کہتے ہیں۔ دریائے سواں جب بھرپور طریقے سے بہتا تھا تو یہ نیاری ہی تھے جو اس کے کنارے اکٹھی ہونے والی ریت کو چھان کر اس میں سے سونے کے باریک ذرات الگ کر لیتے تھے جنہیں بعد میں ڈھالا جاتا تھا۔ اسی محلے کے ساتھ صرافہ بازار ہے جہاں اس سونے کو زیورات کی شکل دی جاتی تھی۔

یہ نیاری یہاں پر کب آباد ہوئے اس بارے میں کوئی تاریخ تو نہیں ملتی تاہم راولپنڈی کے بانیان میں دو نام اہم ہیں: ایک پندرہویں صدی کے آخر میں گکھڑ سردار جھنڈے خان کا ہے اور دوسرا نام سردار ملکھا سنگھ تھئے پوریہ کا ہے، جس نے اٹھارویں صدی کی آخری دہائیوں میں اس قصبے کو اتنی ترقی دی کہ ارد گرد سے لوگ آکر یہاں آباد ہونا شروع ہو گئے۔

غالب امکان ہے کہ نیاری بھی اسی دور میں یہاں آ کر آباد ہوئے جن میں بڑی تعداد بھیرہ اور اٹک کے شہر حضرو سے نقل مکانی کرنے والوں کی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جہلم اور سندھ کے دریاؤں میں کوئی خطرناک طغیانی راولپنڈی کی جانب ہجرت کی وجہ بنی۔ ضلع اٹک کے گزیٹیئر 1930 کے مطابق ضلع اٹک میں ایک خطرناک سیلاب 1841 میں آیا جس کے نتیجے میں دریائے سندھ کے ارد گرد دیہات میں کوئی نہیں بچا۔

ایسے ہی ایک خطرناک سیلاب کے آثار ضلع اٹک کے تاریخی قصبوں نیلاب اور مکھڈ میں بکھرے پڑے ہیں۔ نیلاب میں ایسی منقش چٹانیں موجود ہیں جو دیامر بھاشا ڈیم کی سائٹ پر پائی جاتی ہیں۔ کوئی بہت بڑا سیلاب آیا جس نے ان چٹانوں کو وہاں سے اٹھا کر سینکڑوں میل دور لا کر پھینک دیا۔ اسی طرح مکھڈ میں پہاڑوں کے دونوں طرف گول پتھر موجود ہے جو دریا کی تہہ میں ملتا ہے یعنی اتنا پانی آیا کہ جو پہاڑوں کے اوپر سے گزر گیا۔

محلہ نیاریاں میں ایک قدیم مسجد ہے جو گولیوں والی مسجد کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے دروازے پر سنہِ تعمیر 1010 ہجری درج ہے جو عیسوی کیلنڈر کے مطابق 1602 بنتا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب ہندوستان پر مغلِ اعظم اکبر کی حکومت تھی۔

اس مسجد کی دیواریں 10 فٹ تک موٹی ہیں جن میں محرابیں بنی ہوئی ہیں۔ مسجد کی لمبائی 20 فٹ اور چوڑائی 10 فٹ ہے۔ محرابوں پر 2013 میں ملتانی میناکاری کر دی گئی اور سامنے کی محراب کو مغل آرٹ سے مزین کیا گیا ہے اس سے پہلے بھی شیشے اور مغل آرٹ کا ہی کام کیا گیا تھا۔

عبدالقدیر صاحب اس مسجد کے امام و خطیب ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس مسجد کی اصل تاریخ کے بارے میں سنی سنائی روایتیں ہیں جو ہم تک پہنچی ہیں۔ تاہم اس کا اصل نام شاہی مسجد ہے جو راولپنڈی کی سب سے پہلی مسجد ہے جسے شیر شاہ سوری کے عہد میں تعمیر کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ شیر شاہ سوری 1537 سے 1542 تک دہلی کے تخت پر متمکن رہا تھا۔ ہو سکتا ہے مسجد اس دور میں بنی ہو اور اس کا دروازہ 1602 میں تعمیر کیا گیا ہو۔

مسجد کے صحن میں موجود کنواں بھی قدیم ہے۔ البتہ اس کا پانی کھارا تھا، اس لیے اسے قرآن پاک کے شہید اوراق کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ 1985 میں مسجد کی توسیع کے دوران جب اس کی صفائی کی گئی تو کھارے پانی کی جگہ میٹھے پانی نے لے لی۔

خطیب نے بتایا کہ اسے گولیوں والی مسجد اس لیے کہتے ہیں کہ سکھوں کے عہد میں یہاں گولیاں برسائی گئی تھیں جن کے نشانات گنبد پر اب بھی موجود ہیں، جبکہ مسجد کی اندرونی دیواروں پر نشانات 2013 میں ہونے والی توسیع کے دوران مٹا دیے گئے۔

میرے ذہن میں خاصی دیر سے ایک سوال گھوم رہا تھا کہ آخر وہ کون سے حالات و واقعات تھے جن کی بنا پر سکھوں نے اس مسجد کو نشانہ بنایا؟

البتہ حیرت انگیز طور پر جب میں نے خطیب صاحب کے سامنے یہی سوال رکھا تو ان کے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ راولپنڈی کے نزدیک کری گاؤں، جو اب اسلام آباد میں ہے، وہاں بھی ایک قدیم مسجد ہے جو اپنے حجم اور طرز تعمیر کے حوالے سے گولیوں والی مسجد کے مشابہ ہے۔ اس مسجد پر سنہِ تعمیر 198 ہجری یعنی 814 عیسوی لکھا ہوا ہے، لیکن اس پر یقین کرنا خاصا مشکل معلوم ہوتا تھا کیوں کہ اس دور میں اس علاقے میں مسلمانوں کی آمد کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ملتا۔

دوسری بات یہ کہ دونوں مسجدوں کی مشابہت سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ انہیں ایک ہی عہد میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ کری مسجد آج سے ساڑھے 12 سو سال پہلے اور گولیوں والی مسجد ساڑھے چار سو سال پہلے سال بنائی گئی تو پھر یہ بھی سوچنا ہو گا کہ اس دور کی کوئی اور عمارت اب تک کیوں موجود نہیں، بالخصوص جین مت جو راولپنڈی کا سب سے قدیم مذہب ہے اس کا کوئی پرانا مندر کیوں موجود نہیں ہے؟ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر بشیر احمد ملک جو پرانے راولپنڈی کے باسی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ’گولیوں والی مسجد اکبر کے عہد میں تعمیر ہوئی اس لیے اسے شاہی مسجد کہا جاتا ہے۔ اس کا طرز تعمیر بھی مغل ہے جس میں شاہی قلعے کی طرح چھوٹی اینٹ استعمال کی گئی ہے۔ سکھوں کے دور میں اس لیے اس کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا کہ مسلمانوں پر سکھوں کی دھاک بھی بیٹھ جائے اور سکھ فوج کی نشانہ بازی کی تربیت بھی ہو جائے۔

’اس دور کی چوں کہ کوئی تاریخ تو نہیں ملتی تاہم مسجد کے اندر بھی گولیوں کی نشانات یہ واضح کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے مسجد میں پناہ لی ہو اور سکھوں نے انہیں مسجد میں بھی جائے امان نہ بخشی ہو۔ اس واقعے کے بعد عرصہ تک یہ مسجد سکھوں کے اصطبل کے طور پر استعمال ہوتی رہی جیسے لاہور کی شاہی مسجد ہوتی رہی۔ تاہم کچھ عرصہ بعد دو ممتاز کشمیری مسلمانوں نے رنجیت سنگھ کے دربار میں نذرانہ دے کر مسجد کو واگزار کرایا۔ 1901 تک راولپنڈی کی جامع مسجد کے قیام تک یہی ایک مسجد تھی جس میں بمشکل 20 افراد نماز پڑھ سکتے تھے تاہم 1985 میں ساتھ والا مکان خرید کر مسجد کو توسیع دی گئی۔‘

راولپنڈی شہر میں تقسیم کے وقت تک غیر مسلم کل آبادی کا 57 فیصد تھے۔ مسلمانوں کی صرف آبادی ہی کم نہ تھی بلکہ سماجی اور معاشی حوالوں سے بھی وہ پسماندہ تھے، اس لیے شہر میں تقسیم سے پہلے مساجد کم جبکہ مندر اور گردوارے زیادہ تھے۔

پھر تاریخ نے پلٹا کھایا۔ شہر سے ہندو، سکھ، جین اور پارسی بوریا بستر باندھ کر چلے گئے۔ اب راولپنڈی میں مساجد آباد اور غیر مسلموں کی عبادت گاہیں ویران ہیں۔ جین مت، بدھ مت، ہندوؤں اور سکھوں کے بعد مسلمانوں کا عہد زریں چل رہا ہے۔ مستقبل میں یہ شہر شاہراہ ریشم اور دہلی سے وسط ایشیا کو ملانے والی شاہراہوں کا نقطہ اتصال بننے جا رہی ہے۔ معاشی سرگرمیوں سے تکثیری سماج جنم لے گا جہاں عقیدے ایک بار پھر ایک دوسرے کو گلے لگائیں گے۔ تلخ ماضی پر مٹی ڈال دی جائے گی تاکہ ایک نئے کل کی بنیاد رکھی جا سکے۔

کوئی عجب نہیں ہو گا کہ گولیوں والی مسجد کو گلوں والی مسجد پکارا جائے جہاں ہر وقت پھول مہکتے ہوں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ