اسلام آباد میں پانچ صدیاں پرانی مسجد جس کا محکمہ آثار قدیمہ کو پتہ ہی نہیں

اسلام آباد میں لوک ورثہ کے پیچھے جنگل میں پارک کی تعمیر کے دوران ایک قدیم مسجد کے آثار دریافت ہوئے ہیں، لیکن اس کی کھدائی محکمہ آثارِ قدیمہ کی بجائے سی ڈی اے کے مزدور کر رہے ہیں۔

اسلام آباد میں حال ہی میں دریافت ہونے والی پانچ سو سال پرانی ایک مسجد کے آثار کی کھدائی کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی بجائے مزدوروں کے ذمے لگا رکھی ہے۔

ماہرِ آثارِ قدیمہ انصار احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عام دیہاڑی مزدوروں کے ذریعے شیر شاہ سوری کے دور کے اس بیش قیمت تاریخی اثاثے کی کھدائی کروانے سے اسے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

انہوں نے محکمۂ آثارِ قدیمہ کے اعلیٰ عہدے داروں اور حکومت پر زور دیا کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لے کر اس کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔

جب انڈپینڈنٹ اردو نے محکمہ آثارِ قدیمہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں تو اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے اور سی ڈی اے نے انہیں اعتماد میں نہیں لیا۔

ڈیپارٹمنٹ آف آرکیالوجی اینڈ میوزیمز کے افسر محمود الحسن نے بتایا کہ اس علاقے میں پرانے دیہات تھے، ہو سکتا ہے ان میں سے کسی کی مسجد ہو، لیکن جب ان سے کہا گیا کہ یہ مسجد سیمنٹ سے نہیں بلکہ قدیم چونے سے تعمیر کی گئی ہے تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جرنیلی سڑک کا حصہ

اسلام آباد کے بارے میں عام تاثر ہے کہ یہ جدید شہر ہے، لیکن یہاں بھی سینکڑوں سال پرانے آثار کی کمی نہیں۔

حال ہی میں لوک ورثہ کے مقام پر ایک پارک کی تعمیر کے دوران جھاڑیوں اور درختوں کے بیچ میں پارک کی تعمیر کے دوران ایک شکستہ مسجد کے آثار ملے، جس کے بارے میں ماہرینِ آثارِ قدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ شیر شاہ سوری کے دور سے تعلق رکھتی ہے۔

شیر شاہ سوری نے 1540 سے 1545 تک حکومت کی تھی، اس طرح یہ مسجد پونے پانچ سو سال پرانی ہے۔

شیر شاہ سوری نے جرنیلی سڑک بناتے ہوئے جگہ جگہ سرائیں اور مسجدیں تعمیر کروائی تھیں اور یہ مسجد اسی سڑک کا حصہ ہے کیوں کہ ٹیکسلا سے ہوتے ہوئے اسلام آباد کے علاقے سے گزر کر پنجاب کے میدانوں تک جاتی تھی۔

انصار احمد نے بتایا کہ مسجد کی تعمیر میں چونے کے استعمال اور اس کے مخصوص طرزِ تعمیر کے لحاظ سے یہ مسجد شیر شاہ سوری کے دور کی دوسری مسجدوں سے ملتی جلتی ہے، جس کی بنا پر یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اس کا تعلق اسی دور سے ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ اس مسجد کے ساتھ باؤلی بھی ہے جو اس وقت مٹی کے نیچے دفن ہے لیکن اگر اس کی کھدائی کی جائے تو برآمد ہو سکتی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اگر تربیت یافتہ ماہرین کی نگرانی میں احتیاط سے کھدائی کی جائے تو ممکن ہے یہاں سے کچھ برتن اور آرائش کی چیزیں بھی برآمد ہو جائیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ محکمہ آثارِ قدیمہ اسے اپنی نگرانی میں لے لے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ