خواجہ سرا یا ٹرانس جینڈر پرسن: ’ہم سے ہی پوچھ لیں کہ مخاطب کیسے کرنا ہے؟'

بیریسٹر احمد پنسوٹا نے کہا کہ ٹرانس جینڈر افراد کو توہین آمیز انداز میں مخاطب نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اب ایک تیسری جنس کے طور پر پہچانے جاتے ہیں ان کے حقوق ہیں۔

پشاور میں خواجہ سراؤں کی ایک محفل(اے ایف پی/ فائل)

’اگر کسی بچے کو باہر کوئی مارتا ہے تو اس کے والدین اس کے لیے کھڑے ہوتے ہیں جو اس کے لیے جا کر لڑتے ہیں۔ لیکن ہم لوگوں کے لیے ایسا نہیں ہوتا۔ نہ معاشرہ ہمارے حق میں کھڑا ہوتا ہے نہ حکومت ہمارے لیے کھڑی ہوتی ہے حالانکہ حکومت تو سب کے لیے ماں کی طرح ہوتی ہے۔‘

یہ کہنا ہے زعنایہ چوہدری کا جو ایک خواجہ سرا ہیں اور اپنی کمیونٹی کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن  بھی ہیں۔ زعنایہ نے چند روز قبل لاہور ہائی کورٹ میں کراچی کے ایک نجی پروڈکشن ہاؤس کے خلاف ایک پٹیشن دائر کی جس میں انہوں نے موقف اپنایا کہ اس پروڈکشن ہاؤس نے اپنی نئی فلم ’دم مستم‘ کا ٹریلر جاری کیا جس میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے لیے ’کھسرے‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے وزارت اطلاعات و نشریات اور وزارت انسانی حقوق و اقلیتی امور کو درخواست پر نوٹس جاری کر دیا ہے۔

زعنایہ نے بیرسٹر احمد پنسوٹا کے ذریعے یہ درخواست دائر کی۔ جس میں عدالت سے یہ درخواست کی گئی کہ وہ جواب دہندگان کو خواجہ سراؤں کے بنیادی حقوق کو یقینی بنانے والے موجودہ قوانین کی خلاف ورزی کرنے کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت کرے۔

بیریسٹر احمد پنسوٹا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’دم مستم فلم آرہی ہے جس کا ٹریلر جاری کیا گیا اس میں  ایک مکالمہ ہے کھسروں کو کب بلانا ہے کیا وہ امید سے ہیں؟ وہ نچانے کے لیے نہیں رکھے ہوئے؟'  

ان کے مطابق اس مکالمے میں خواجہ سراؤں کو بہت توہین آمیز انداز میں مخاطب کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے موجود ہیں جن کے مطابق خواجہ سراؤں کے لیے ’کھسرے‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

بیریسٹر احمد پنسوٹا نے کہا کہ ٹرانس جینڈر افراد کو توہین آمیز انداز میں مخاطب نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اب ایک تیسری جنس کے طور پر پہچانے جاتے ہیں ان کے حقوق ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فلم کا یہ خاص مکالمہ آئین کے آرٹیکل 4، 9، 14 اور 25 اے کے تحت بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے اور اسی کی بنیاد پر انہوں نے استدعا کی ہے کہ فلم کو اس مکالمے کے بغیر ریلیزکیا جائے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد وحید نے فریقین سے اس حوالے سے 15 روز میں جواب طلب کیا ہے۔

زعنایہ چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ہم لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ کھسرا کا لفظ استعمال کر کے ہم لوگوں کو ایک طرح سے گالی دی جارہی ہے۔ دراصل ہمارے معاشرے کے لوگ اس بات کے عادی ہو گئے ہیں کہ ہماری کمیونٹی کی حق تلفی اور ہم پر تشدد ایک معمول کی بات ہے۔‘

زعنایہ کا کہنا ہے: ’میڈیا تو ایجوکیٹ کرنے کے لیے ہوتا ہے اور اگر یہ سب میڈیا پر چلے گا تو آپ معاشرے میں بدلاؤ کی امید کیسے کر سکتے ہیں؟‘

زعنایہ کے مطابق وہ اور ان کی کمیونٹی اس مائنڈ سیٹ کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، سوسائٹی میں تبدیلی لانے کے لیے ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں مگر پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔ اگر فلم کا کلپ دیکھیں اور پورا جملہ سنیں تو اس میں کہا گیا ہے 'وہ جو کھسرے بلائے ہیں وہ کیا امید سے ہیں۔‘

زعنایہ کہتی ہیں: ’ہم بچے پیدا نہیں کر سکتے چاہے ہماری خواہش ہی کیوں نہ ہو لیکن اللہ کی طرف سے ہمارا نظام ایسا نہیں ہے۔ اس مکالمے میں  ہمیں اپنی اس کمی کا احساس دلانے کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔ اس سے پہلے بھی ایک پروگرام میں ہمیں ہائے کھسرے کہا گیا اور تالیاں پیٹ کر مزاح کا نشانہ بنایا گیا تھا۔‘

کون سے الفاظ مناسب ہیں؟

سینئیر صحافی اور خواجہ سراؤں کے حوالے سے 'تیسری جنس' کے نام سے کتاب تحریر کرنے والے مصنف اختر بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کمیونٹی کے لیے جو مناسب نام ہے وہ خواجہ سرا ہے جو وہ خود بھی اپنے آپ کو کہلواتے ہیں۔

اختر بلوچ نے کہا کہ سندھ میں انہیں ’کھدڑا فقیر‘ کہتے ہیں اورفقیر کا مطلب یہاں بھیک مانگنے والا نہیں ہے بلکہ یہاں فقیر کا مطلب ہے پہنچا ہوا، بزرگ یا قابل احترام۔  

انہوں نے کہا، ’میں نے اس کمیونٹی پر کتاب بھی لکھی ہے اور میں انہیں فقیر صاحب ہی کہتا ہوں تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔ کھدڑا فقیر ان کے لیے بھی قابل قبول ہے اس میں وہ توہین محسوس نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ مخنث، ہیجڑا، مورت، خواجہ سرا جیسے الفاظ بھی ان کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔‘

لیکن ان کے بقول لفظ ’کھسرا‘ پر یہ برا مناتے ہیں کیونکہ یہ لفظ فرسودہ ہو گیا اپنی افادیت کھو بیٹھا ہے۔ اس لیے سب سے مناسب نام خواجہ سرا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زعنایہ چوہدری کہتی ہیں: 'ہم پہلے بھی دیکھتے ہیں کہ اکثر کسی بھی انسان کے لیے ’کھسرے‘ کے لفظ کو ایک گالی کے طور پر استعمال کیا جارہا ہوتا ہے۔ ہم نے حکومتی سطح پر تحریری دستاویزات میں بھی اس لفظ کو تبدیل کروایا ہے۔

’ہمارے لیے باعزت لفظ خواجہ سرا یا ٹرانس جینڈر پرسن استعمال کیا جائے۔ اور اخلاقاً تو یہ ہے کہ آپ ہم سے مخاطب ہوتے ہوئے پوچھ لیں کہ ہمیں کس طرح  مخاطب کیا جائے؟ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ہمیں مونث سے مذکر یا مذکر سے مونث بلایا جاتا ہے اس لیے بہتر ہے کہ پوچھ لیا جائے۔‘

تبدیلی کیسے لائی جائے؟

زعنایہ نے بتایا: ’یہاں بچوں کو ہماری کمیونٹی سے ڈرایا جاتا ہے۔ کہیں بچے سگنل پر ہمیں دیکھ لیں تو والدین کہتے ہیں یہ اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ بھکاری بنا دیتے ہیں۔‘ ان کے خیال میں اس کی بجائے اب وقت ہے کہ والدین اپنے بچوں کو تیسری صنف/جنس کے بارے میں بھی سمجھائیں کہ وہ بھی اس دنیا میں موجود ہیں۔ اس کے لیے ایجوکیشن سسٹم میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

’ہمارے لیے اب یونیوسرٹیز میں تو مواقع فراہم کیے جارہے ہیں لیکن سکولوں کا کیا۔ وہاں ضرورت ہے کیونکہ ہماری کمیونٹی میں تعلیم کی کمی ہے اور سکول وہ لیول ہے جہاں ہمیں بھی ہونا چاہیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان