’زخمی خواجہ سراؤں کے آپریشن فارم پر کوئی دستخط کو تیار نہیں تھا‘

سماجی کارکن اور خواجہ سرا نایاب علی نے بتایا کہ مانسہرہ میں فائرنگ سے زخمی ہونے والے پانچ خواجہ سراؤں کے لیے ہسپتال میں دوائیاں اور دیگر سہولیات نہیں تھیں۔

25 جون، 2014 کی اس تصویر میں ایک ایمبولنس پشاور کے ہوائی اڈے کے باہر نظر آ رہی ہے (اے ایف پی)

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں 13 مارچ کو پانچ خواجہ سراؤں کو گھر میں گھس کر فائرنگ سے زخمی کرنے والے ملزم کے بارے میں پولیس نے بتایا کہ اس نے ذاتی رنجش میں فائرنگ کی۔

مانسہرہ کے ضلعی پولیس افسر سجاد خان نے بتایا کہ ملزم سبطین ’امیر گھرانے کا ایک بگڑا ہوا نوجوان ہے۔‘

سجاد خان کے مطابق: ’ملزم کے والدین میں طلاق ہوچکی ہے۔ ملزم کی خواجہ سراؤں کے ساتھ دوستیاں تھیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ملزم کو اسی رات گرفتار کر کے مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔

سماجی کارکن اور خواجہ سرا نایاب علی نے بتایا کہ ہسپتال میں داخل زخمی خواجہ سراؤں کے لیے کوئی سہولیات نہیں جس کی وجہ سے انہیں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

’اطلاع ملتے ہی میں اسلام آباد سے ایبٹ آباد پہنچی۔ وہاں کوئی خوف کے مارے زخمی خواجہ سراؤں کے آپریشن فارم پر دستخط کرنے کو تیار نہیں تھا۔

’اس لیے میں نے پہنچتے ہی فارم پر دستخط کیے اور پھر آپریشن شروع ہوا۔‘

نایاب علی کا کہنا تھا کہ آپریشن کے‘رضامندی فارم’ پر خواجہ سرا اس لیے دستخط کرنے کو تیار نہیں ہوتے کیونکہ جن خواجہ سراؤں کو ان کی زندگی میں کوئی اپنانے کو تیار نہیں ہوتا جب وہ مرجاتے ہیں تو ان کے خاندان والے دیت مانگتے ہیں اور یہ رقم فارم پر دستخط کرنے والے کو دینی پڑتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 80 فیصد خواجہ سراؤں کو ان پر ہونے والے مظالم اور قتل کے کیسز میں کوئی انصاف نہیں ملا۔

’تھانوں میں خواجہ سراؤں کی مدعیت میں ایف آئی آر درج نہیں ہوتی۔ جب ایف آئی آر درج ہو جاتی ہے اور ملزم پکڑ لیے جاتے ہیں تو ان کے خاندان والے اپنا اثررسوخ استعمال کرکے انہیں ضمانت پر رہا کروا لیتے ہیں۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ ایف آئی آر درج کرنا اور ملزم پکڑنا کافی نہیں۔’

انہوں نے الزام عائد کیا کہ اس کیس میں بھی ملزم کا خاندان اپنا اثر رسوخ استعمال کر رہا ہے۔

نایاب علی نے کہا کہ ایسے حالات میں متاثرہ خواجہ سراؤں کے پاس یہی راستہ بچتا ہے کہ وہ اپنا آپ بچانے کی فکر کرتے ہیں اور مجبور ہوکر صلح کرلیتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اگر کچھ پیسے اس صلح سے مل جائیں تو اس سے اپنے لیے ادویات خرید لیتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں خواجہ سراؤں کے لیے قائم کرائم رپورٹنگ سینٹرز کا قیام پورے ملک میں ہونا چاہیے اور ایک ایسا نظام اور طریقہ وضع کیا جانا چاہیے جو خواجہ سراؤں کو اعتماد دے کہ وہ بے خوف وخطر اپنے ساتھ پیش آنے والے چھوٹے سے چھوٹے واقعے کو تھانے میں رپورٹ کرسکیں۔

ہزارہ ٹرانسجینڈرز ایسوسی ایشن کی سربراہ نادرہ خان نے بتایا کہ فائرنگ سے زخمی ہونے والے خواجہ سراؤں کو ایبٹ آباد میڈیکل کمپلیکس منتقل کرنا پڑا جن میں سے دو کی حالت تشویش ناک ہے۔ ’ایک خواجہ سرا کا گردہ اور دوسرے کی آنت متاثر ہوئی ہے۔‘

نادرہ خان کے مطابق: ’قانون پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ اور اکاؤنٹس کھولنے میں اب بھی مشکلات درپیش ہیں۔

’خواجہ سراؤں کی جن مردوں کے ساتھ دوستی ہوتی ہے وہ ان کے نام پر مکان کرائے پر حاصل کرتے ہیں اور بینک اکاؤنٹ کھولتے ہیں اسی پر بعدازاں اختلاف سامنے آتا ہے۔’

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان