خواجہ سراؤں میں 'چٹائی' کی رسم

’گرو تسلیم کرنے کا مقصد اپنا ایک سرپرست منتخب کرنا ہے جو ہر قدم پر آپ کی سربراہی کرے اور آپ کا خیال رکھے۔ اس طرح جیسے ماں باپ اپنی اولاد کی سرپرستی کرتے ہیں۔ یہ رسم خواجہ سرا کلچر میں عقیقے کی طرح ہے۔‘

اسلام آباد کی خواجہ سرا کمیونٹی نے کل اپنی ایک سہیلی کا اہم جشن منایا۔ جشن میں ریم شریف کی ’چٹائی‘ نامی رسم کی گئی۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ سراؤں کے حقوق پر کام کرنے والی کارکن نایاب علی نے بتایا کہ چٹائی نامی رسم میں ایک خواجہ سرا دوسرے خواجہ سرا کو باقاعدہ طور پر (آفیشلی) اپنا ’گرو‘ تسلیم کرتی ہیں۔

’گرو تسلیم کرنے کا مقصد اپنا ایک سرپرست منتخب کرنا ہے جو ہر قدم پر آپ کی سربراہی کرے اور آپ کا خیال رکھے۔ اس طرح جیسے ماں باپ اپنی اولاد کی سرپرستی کرتے ہیں۔ یہ رسم خواجہ سرا کلچر میں عقیقے کی طرح ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں خواجہ سراؤں کے چار بڑے ’شریک‘ گھر ہیں۔ ان گھروں کے جو ’چودھری‘ یعنی بڑے ہوتے ہیں، وہ اس رسم میں اپنے چیلوں پر دوپٹہ ڈالتے ہیں۔

نایاب نے مزید بتایا، ’ہم چاندنی گھر سے ہیں اور میں اس گھر کی بڑی ہوں۔ آج ریم نے مجھے اپنا گرو مانا ہے اور مجھے بے حد خوشی ہے کہ وہ میری زندگی کا حصہ ہے۔‘

اس رسم کو اسی طرح منایا جاتا ہے جیسے معاشرے کے باقی لوگ شادی کی تقریب مناتے ہیں۔

نایاب نے بتایا، ’چیلے کے لیے خاص دلہن کے جیسا دوپٹہ بنایا جاتا ہے۔ اس پر گوٹا لگا ہوتا ہے۔'

’خواجہ سراؤں کی شادیاں تو ہوتی نہیں، تو ہم یہی چھوٹی چھوٹی تقریبات سے اپنی خوشیاں مناتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوپٹہ ڈالنے کی رسم کے بعد مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں اور تحفے تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے۔ ڈھولک پر گانے گائے جاتے ہیں اور رقص بھی کیا جاتا ہے۔

اس دفعہ چٹائی رسم کی تقریب میں چند ایسے لوگ بھی شریک ہوئے جو خواجہ سرا نہیں تھے۔

نایاب نے بتایا، ’آپ نے دیکھا ہوگا کہ اکثر خواجہ سرا لوگوں کی تقریبات میں ناچنے گانے جاتے ہیں لیکن خواجہ سرا کی تقریبات میں عام لوگ شریک نہیں ہوتے۔

’میں نے اپنی سی ایک کوشش کی اور کچھ گنے چنے افراد کو دعوت دی تاکہ وہ دیکھیں کہ خواجہ سرا کلچر میں کچھ شرمناک نہیں ہے۔ ہم بھی باقی لوگوں کی طرح اپنی خوشیاں مناتے ہیں۔‘

نایاب کی طرح سب ہی خواجہ سراؤں کی یہ خواہش ہے کہ معاشرے کے باقی لوگ اپنے خواجہ سرا بہن بھائیوں کو قبول کریں اور والدین انہیں وہی پیار اور عزت دیں جو اپنی باقی اولادوں کو دیتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا