تیسری دھن: خواجہ سرا کمیونٹی کے مسائل ان کے زاویے سے

خواجہ سراؤں نے اپنی آپ بیتیوں اور دیگر خواجہ سراؤں سے متعلق اس معاشرے میں روا سلوک کو اپنی اداکاری سے پیش کیا۔

لاہور کے سرٹ سٹوڈیو میں اولو موپولومیڈیا کے زیر اہتمام ’تیسری دھن‘ کے نام سے تھیٹر ڈرامہ پیش کیا گیا، جس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں نہ صرف خواجہ سرا کمیونٹی کو درپیش مسائل کو اجاگر کیا گیا بلکہ اس ڈرامے کے تمام کردار بھی خواجہ سرا ہی ہیں۔

ان خواجہ سراؤں نے اپنی آپ بیتیوں اور دیگر خواجہ سراؤں سے متعلق اس معاشرے میں روا سلوک کو اپنی اداکاری سے پیش کیا۔

اولوموپولو کی بانی کنول کھوسٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: 'تیسری دھن تھیٹر ڈرامہ ہے جسے بہت سی تحقیق کے بعد بنایا گیا۔ ہم نے اسے 2015 میں لاہور میں پہلی بار پیش کیا تھا اور اس وقت ہم نے اسے ڈاکیومینٹری تھیٹر کا نام دیا تھا۔ اس بار ہم اسے ڈیوائزڈ تھیٹر پروڈکشن کے طور پر کررہے ہیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ اس تھیٹر کی کہانیاں بہت سے لوگوں کی ذاتی زندگیوں پر مبنی ہیں، یہ ان کے بیانیے کی کڑیاں ہیں۔

’دوسری اس کی مختلف بات یہ ہے کہ 2015 میں ہم نے اس ڈرامے کی ساری کاسٹ خواجہ سراؤں کی رکھی اور آج بھی اس کی کاسٹ خواجہ سراؤں کی ہی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ بہت سے خواجہ سراؤں کو انہوں نے انٹرویو کیا تھا اور ان میں سے چن کر چھ پرفارمرز نکالے، انہیں تربیت دے کر تیار کیا۔ ان کا یہ تھیٹر متعدد بار پاکستان سے باہر جا کر بھی پرفارم کر چکا ہے۔لاہور میں یہ تھیٹر تیسری بار پیش کیا گیا۔

کنول کا کہنا تھا کہ جتنی بار یہ تھیٹر پیش کیا گیا، لوگوں نے نہ صرف اس بیانیے کی داد دی بلکہ خواجہ سرا ایکٹرز کو بھی بےحد سراہا۔

اس سال تیسری دھن کو پیش کرنے کے لیے جسٹس پراجیکٹ پاکستان اور ہوپ بھی اولوموپولو کے ساتھ اشتراک میں تھے۔ 

تیسری دھن کی ہدایت کار ڈاکٹر کلئیرپیمنٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'میں 15 سال سے پاکستان میں مقیم ہوں اور مختلف تعلیمی اداروں جیسے این سی اے اور بی این یو میں کام کرتی آئی ہوں۔ تیسری دھن پر کام ہم نے 2014 میں شروع کیا تھا۔ اس کا آغاز ہم نے ایک ریسرچ گرانٹ کے تحت ہوا۔ ہم نے بہت سے خواجہ سراؤں کو انٹرویو کر رہے تھے ان کی زندگی اور ان کے حقوق کے حوالے سے۔ مجھے پرفارمنس اور ایکٹیوازم میں دلچسپی تھی اس لیے سوچا کہ بجائے کتابیں لکنے کہ ہم ایک تھیٹر پلے کیوں نہ بنائیں جس میں اسی کمیونٹی کو شامل کیا جائے اور وہ پرفارمنس کے ذریعے اپنی اپنی کہانیاں بیان کریں۔'

انہوں نے بتایا: ' ہم نے اس تھیٹر کو لوگوں کے سامنے لانے سے پہلے کئی مہینوں کی ریہرسل کی اور پھر 2015 میں پہلا ڈرامہ ہم نے الحمرا میں پیش کیا۔ 2016 میں بھی ہم نے اسے عوام کے لیے پیش کیا اور اس کے بعد اب ہم اس تھیٹر کو لائے۔ ہم نے یہ تھیٹر امریکہ میں بھی پیش کیا۔'

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند برسوں میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے مثبت تبدیلیاں دیکھی گئیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا اس تھیٹر ڈرامے کی کاسٹ بہت ٹیلنٹڈ ہے لیکن ان کے لیے اداکاری میں مواقع نہیں ہیں یا بہت کم ہیں۔ ڈاکٹر کلئیرپیمنٹ کے خیال میں جب خواجہ سراوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو ہمیں آرٹ اور کلچر کی بات بھی کرنی چاہیے جس میں اس سوسائٹی کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اور سب کو ان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس ڈرامے کی ہدایت کار ڈاکٹر کلئیر پیمنٹ اور ارم ثنا ہیں جبکہ اس کی پروڈیوسر اور آرٹ ڈائریکٹر کنول کھوسٹ ہیں۔ اس ڈرامے کو دیکھنے کے لیے حاضرین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔

معروف اداکارہ سیمی راحیل نے تیسری دھن کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: 'ایسے موضوعات کو ہم قالین کے نیچے پھینکتے رہتے ہیں۔ نہ ہم بات کرتے ہیں نہ کرنا چاہتے ہیں حالانکہ یہ ہماری اور ہر معاشرے کی حقیقت ہے۔ اس کو ماننا اور اسے حقیقت کا رخ دینا ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ ایک بہت اہم اور گیم چینجنگ پرفارمنس تھی۔'

معروف ایکٹر عرفان کھوسٹ کا تیسری دھن کے حوالے سے کہنا تھا: 'ایک ہوتی ہے ایکٹنگ جو کرنی پڑتی ہے جبکہ یہ سچ ہے اور سچ کسی گواہی کا محتاج نہیں ہوتا۔ سچ کامیاب اور کامران ہوتا ہے۔ خاص  طور پر یہ خواجہ سراؤن کے دل کی آواز تھی۔ انہوں نے اپنے دکھ بیان کیے اور جب دکھ بیان کیا جاتا ہے تو وہ دیکھنے والوں پر اور سننے والوں پراپنا اثر رکھتا ہے۔ اور جو چیزاثر رکھتی ہے وہ کامیاب ترین ہوتی ہے۔'

عرفان کھوسٹ کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں جہاں لاہور میں روزانہ آٹھ دس کمرشل ڈرامے ہو رہے ہوتے ہیں وہاں ایک ایسا ڈارمہ لگاتار چلنا چاہیے تاکہ جو لوگ باہر سے آئے ہیں وہ بھی اسے دیکھیں اور جو لوگ تھیٹر سے دور ہو گئے ہیں وہ بھی اسے دیکھیں تاکہ ایک دوسرے کے دکھ کو محسوس کر سکیں۔ 

اس ڈرامے کی ایک کردار نیلی رانا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: 'میری اپنی زندگی کی کہانی تھی جس میں تشدد تھا، میرے چیلے کے چیلے کا قتل ہوا جسے میں نے یہاں سنایا۔ یہ کہانیاں ایک کلچر سے شروع ہوتی ہیں اور پھر کہانی میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ ہم نے ان اشوز کو سامنے لانے کی کوشش کی جو ہماری کمیونٹی کے ساتھ بیتتی ہیں۔'

انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ڈاکٹر معیز نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: 'اس پلے نے  خصوصی طور پر روشنی ڈالی ہے خواجہ سراؤں کے استحصال پر اور اس کے اندر پولیس کا کیا رول ہے۔ انگریز کے دور سے اب تک پہلے کلونیل پولیس فورس پھر اپمیریل پولیس فورس اور اب ہماری صوبائی پولیس فورس کیسے منظم طریقے سے خواجہ سراؤن کے حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور ان کو تشدد کا نشانہ بناتی ہیں۔ اور یہ وقت کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں پولیس کے تشدد کو کرمنلائز کیا جائے۔'

تیسری دھن کی ایک اور اداکار جنت علی نے اپنے احساسات بتاتے ہوئے کہا: 'پرفارم کرتے ہوئے ہم نے اپنی حقیقی کہانیاں بیان کیں جو کہ بہت تکلیف دہ مرحلہ تھا۔ ہم ہنسے بھی، روئے بھی اور لوگوں کے ساتھ ناچے بھی۔ انہیں بتایا کہ حقیقت کیا ہے اور ایک جنس کو قبول کرنا کتنا ضروری ہے۔'

ڈرامہ اداکار دانیال راحیل کے مطابق: 'اس طرح کی پرفارمنس سے ان مسائل کا انکشاف ہوتا ہے۔ ان انکشافات سے لوگوں کے خیالات تبدیل ہوتے ہیں جس سے ہمارے نظریات میں تبدیلی آتی ہے جو کہ تبدیلی کے لیے بہت ضروری ہے۔'

بعض تکنیکی مسائل کی وجہ سے ہماری ویب سائٹ پر کچھ لفظ درست طریقے سے دکھائی نہیں دے رہے۔ ہم اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔  

ادارہ اس کے لیے آپ سے معذرت خواہ ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فن