چولستان کا پیاسا صحرا اور ’موڑ مہاراں‘

ٹی وی ون کے ڈرامے ’موڑ مہاراں‘ میں سسکتی زندگی کو رنگین رنگوں سے ہی دکھایا گیا ہے۔ موسم کی مناسبت سے ریشم کے لباس صحرا میں پہن کے پھرنا کافی بیوقوفی کی نشانی لگتی ہے حالانکہ یہی لباس سوت میں بھی ملتے ہیں۔

ڈراما ’موڑ مہاراں‘ میں سونیا حسین اور زاہد احمد نے مرکزی کردار ادا کیا ہے (فوٹو: ٹی وی ون آفیشل فیس بک پیج)

عجیب داستاں ہے یہ کہ ادھر روہی ہمیشہ کی طرح پیاس سے تڑپ رہا ہے  اور ’روہی کو پانی دو‘ کی بات ہو رہی ہے۔ دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں سے لڑنے کی تیاری کی جا رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان تبدیلیوں کے جواز تلاشے جا رہے ہیں۔

عین اس وقت ٹی وی ون سے ڈراما ’موڑ مہاراں‘ شروع ہوا ہے جس کی کہانی بنیادی طور پہ صحرائے چولستان سے اٹھائی گئی۔ چونکہ مصنف علی معین کا اپنا تعلق اس مٹی سے ہے اس لیے کہانی میں شاید وہ حقائق منظر عام آئیں جو اس پیاس کی بنیاد ہیں۔

وہی دھرتی جس کی پہچان ایک طرف تو محل مینارے ہیں، وہیں دوسری جانب پیاس ہے، خشک سالی ہے۔ یہ تضاد بذات خود کسی ظلم کی نشانی ہے۔ جس طرف نگاہ یار اٹھانے والے کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر دی جاتی ہوں گی۔

کہانی کے آغاز سے ہی پیاسا روہی دکھایا گیا ہے جبکہ روہی کی ہیروئن ماحولیات کا مضمون لاہور سے پڑھ کر واپس اپنےصحرائی قصبے کی حویلی میں آتی ہے اور یہاں کی خواتین کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے تاکہ ان کو میلوں دور تک  پانی بھرنے نہ آنا  پڑے اور ان کو گھر کی دہلیز پہ پانی مل جائے، مگر وہ عشق ہی کیا جو روح نہ نکال لے۔

ڈرامے میں سسکتی زندگی کو رنگین رنگوں سے ہی دکھایا گیا ہے۔ موسم کی مناسبت سے ریشم کے لباس صحرا میں پہن کے پھرنا کافی بیوقوفی کی نشانی لگتی ہے حالانکہ یہی لباس سوت میں بھی ملتے ہیں۔

اداکاروں پہ ادکاری چھائی ہوئی سی لگ رہی ہے، جیسے کسی زمین پہ جاکے اس کا کیف طاری ہو جاتا ہے۔ وہ رچ بس جانے والی کیفیت دکھائی نہیں دے رہی۔رچاؤ کے رنگ ہی اور ہوتے ہیں۔

 نہ ہی یہ چولستانی حسن ہے۔ کم از کم مرکزی کردار کو تو چولستانی لگنا چاہیے تھا لیکن صاف لگ رہا ہے کہ اداکاری ہو رہی ہے۔

حسن کی اپنی ادا ہوتی ہے۔ اسے اداکاری کی ضرورت نہیں ہوتی۔کہانی اچھی تھی۔ موضوع بہت جاندار تھا مگر تکنیکی کمزوریاں بہت زیادہ ہیں۔

مثلاً دوسری قسط کے ایک مکالمے سے پتہ چلتا ہے کہ بیٹی روہی لمز یونیورسٹی لاہور سے پڑھ کر آئی ہے۔ پہلی قسط میں اورینٹل کالج دکھایا گیا ہے جہاں لسانیات اور ادبیات کے علاوہ کوئی شعبہ نہیں ہے۔ پنجاب یونیورسٹی نیوکیمپس بھی ہوتا تو بات سمجھ آتی تھی۔ خیر وہ زمانے گئے جب لال رنگ دکھا کر شربت کا بجٹ بچ جاتا تھا۔ ڈرامے کے ایک منظر نے کافی زور سے روکا ہے۔

شہر کی لڑکیاں جس طرح ناپی تولی جاتی ہیں، یہ یونہی ہے جیسے ہم یہاں بیٹھ کر کہیں کہ مغرب میں تو بہت بے حیائی ہے اور دلی خواہش ہو کہ کسی طرح اس بے حیائی کی دوزخ کا ویزا مل جائے۔

یہی ویزا ان قصبات سے پڑھنے آئی لڑکیوں کو لگا ہوتا ہے۔ اکثر لڑکیاں اپنی تمنائیں اس جنون میں پورا کر رہی ہوتی ہیں کہ انہیں علم ہوتا ہے واپسی پہ وہی چادر اور چار دیواری ہوگی۔ جتنا جینا ہے یہیں جی کر جانا ہے اور جنونیت کا کیا ہے، طاری ہوئی تو عقل سے پیدل کر دیتی ہے۔

ایسا ہی ایک منظر سمجھنے والوں کے لیے کافی تھا جب وہ یونیورسٹی میں بغیر چادر اور دوپٹے شہر کے روایتی یونیورسٹی ماحول میں ایک مرد کلاس فیلو کو کہتی ہے کہ اس کے والد کا فون ہے۔گویا خاموشی واجبات اور سمجھیات میں شامل ہو جاتی ہے۔ ایک طرف احترام ہے دوسری طرف پیغام ہے۔

روہی واپسی پہ وہی اپنا روایتی لباس اور چادر اوڑھے دکھائی گئی ہے جبکہ دوسری طرف ہیرو صاحب تو ولایتی پڑھے ہیں تو وہ ولایتی ہی آتے ہیں۔

اس منفاقت کو ختم کرنا ہو گا کہ بیٹا پڑھ کے آئے تو اس کی تبدیلی قبول کرلی جاتی ہے جبکہ بیٹی واپس دیسی ہی چاہیے۔

زندگی کے نارمل سے منظر کو فلمی سین بنا دیا گیا ہے۔ جب کہانی کا موضوع بڑا ہو تو زندگی سے ایسے منظر کاٹنے پڑتے ہیں، لیکن یہ تو رومانوی ڈراما ہے اور محبت جوانی میں دیوانی ہی ہوتی ہے۔

اڑتے دوپٹے کا ہیرو کے چہرے کو چھو جانا پہلی نظر میں محبت ہو جاتا، ابھی تو ڈراما روایتی محبت کی پینگیں جھول رہا ہے اور موضوع ماحولیاتی تبدیلیاں اور پیاسا چولستان کافی ناپختہ لگ رہا ہے، جس پہ تاحال پڑھنے والی کی گرفت بھی دکھائی نہیں دے رہی اور دکھانے والوں کا خلوص اور پیاس بھی نظر نہیں رہا۔

پریزنٹیشن کے بعد تعیلم مکمل دکھائی گئی ہے۔ مقالہ اور وائیوا کی کوئی ترتیب نہیں ہے۔

روہی کی شاعری ہو یا موسیقی کی بات ہو، چولستان دیکھ کر جس دل و روح کو چھو لینے والی موسیقی کی توقع کی جا رہی تھی۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ موسیقی نے کافی مایوس کیا۔

استاد امانت علی خان کا ’وے سانول موڑ مہاراں‘ ہی ہوتا تو روہی کا کیف آ جاتا، مگر ڈراما موسیقی، کہانی اور موضوع کی رنگین تجربہ گاہ سے آگے تا حال متاثر نہیں کرسکا۔

مکالموں کا انگریزی ترجمہ نیچے بے ترتیب لکھا ہوا آ رہا ہے۔ جملے کہیں بہت پہلے گزر چکے ہیں، کہیں لکھے بہت بعد میں گئے ہیں۔

چونکہ ڈرامے کے عنوان کے نیچے شہ سرخی ہے : ’زمین کے مدھم پڑتے رنگوں میں تازگی جگاتی محبت کی کہانی،‘ تو ہر غلطی کو محبت اندھی ہوتی ہے سمجھ کر برداشت کیا جا سکتا ہے لیکن سمجھ دار اور باذوق ناظر اندھا نہیں ہوتا۔ یہاں کی یہ حقیقت کافی کڑوی گولی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیاست ہے، جاگیر داری نظام ہے، سو کالڈ آزادی ہے، ان سب کا متضاد غربت ہے، پیاس ہے، محرومیاں ہیں۔

ایک مکالمہ ہے ’چولستان کے پانی پہ ان جاگیر داروں اور سرداروں  نے ہی قبضہ کر رکھا ہے۔‘ کہانی اور موجودہ حالات کا خلاصہ بس اتنا سا ہی ہے۔

ہمارے ہیش ٹیگ اور حکومتوں کو گالیاں کسی کام نہیں آنے والی لہذا ’روہی پیاسا ہے، روہی کو پانی دو‘ یہ آواز روہی سے نہیں آنی۔ اس پیاس پہ محلوں کی بنیادیں کھڑی ہیں۔نوابوں کی نوابی سانس لے رہی ہے۔

ہاں روہی کی ثقافت کے رنگ کسی طور کم نہیں ہونے، اس ثقافت کے رنگ تو ہر برانڈ نے مہنگے داموں زندہ رکھے ہوئے ہیں، گویا ایک اور سرمایہ دار ان رنگوں سے کل کا سردار بننے والا ہے۔

لہذا سنجیدہ گفتگو سے بہتر ہے کہ اسے بس داستان عشق روہی سمجھ کر دیکھا جائے تو لطف آسکتا ہے،کیونکہ پہلی ہی قسط سے سکندر اور روہی کی داستان عشق دوسری قسط میں جھوم رہی تھی۔ لہذا عشق کی بازی گری کے معرکے ہونے ہیں اور عشق مشک چھپائے کب چھپے ہیں جو یہ چھپ جائے گا۔

تتی ! رورو ! واٹ نہاں

وے سانول ! موڑ مہاراں

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی