چولستان اور بلوچستان میں شدید گرمی اور پانی کی قلت

مقامی صحافی جواد بلوچ کے بقول چولستان میں ہر سال جیپ ریلی پر کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں مگر اس علاقے میں شہریوں کےمسائل حل کرنے کا کوئی جامع منصوبہ تیار نہیں کیاگیا۔

پنجاب کے جنوبی علاقہ چولستان میں ویسے ہی سہولیات اور بنیادی ضروریات زندگی مکمل میسر نہیں ایسے حالات میں شدید گرمی، ہیٹ سٹروک کی وجہ سے پانی کو سٹور کرنے والے متعدد تالاب خشک ہونے کے بعد لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس گئے۔

مقامی صحافی جواد بلوچ کے مطابق اس علاقے میں انسانوں جانوروں اور فصلوں کا دارومدار بارش پر ہے لیکن بارش نہ ہونے سے مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ چولستان کی جانب آنے والی نہریں بھی بند ہیں شدید گرمی اور خشک سالی کی وجہ سے جانوروں کے کھانے کا سامان ختم ہو چکا ہے اور پینے کا پانی بھی میسر نہیں۔ ایسی صورتحال میں چولستان کے دوردراز علاقوں میں حالات شدید خطرناک شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں چولستان کےرہائشیوں کا حکومت وقت  سے چولستان بھر میں ایمرجنسی نافذ کرنےکا مطالبہ کیا ہے۔

ایم ڈی چولستان اتھارٹی مہر محمد خالد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے خشک سالی کے دوران چولستان کے رہائشیوں کی امداد کا کام جاری ہے۔ مختلف علاقوں میں 11امدادی کیمپ لگا دیے گئے جہاں طبی امداد کے ساتھ پانی کے ٹینکروں سے دور دراز پانی پہنچایاجارہاہے جب کہ جانوروں کو بھی آبادیوں کے قریب منتقل کیا جارہاہے اب تک 70بھیڑیں خوراک اور پانی نہ ملنے پر ہلاکتیں ہوئیں اور متعدد بڑے مویشی بھی مرے ہیں۔

ایسے حالات میں حکومتی عملہ متاثرین کی مدد کے لیے موجود ہے لیکن بارش ہونے تک صورتحال ایسے ہی رہے گی اورمحکمہ موسمیات کے مطابق آئندہ ہفتے بھی بارش کا امکان نہیں ہے۔

سماجی تنظیموں کی جانب سے بھی امدادی کیمپ لگانے کا سلسلہ جاری ہے جب کہ متاثرین گھروں سے بے گھر اورخشک سالی سے بچوں سمیت پریشان ہیں۔

ترجمان ضلعی انتظامیہ بہاولپور کے مطابق چولستان کی ہنگامی صورتحال  سے نمٹنے کے لیے مختلف محکمہ جات کی کمیٹیاں تشکیل دے دی گئیں ہیں جن کا مقصد فوری طور پر ہنگامی صورتحال سے نمٹنا ہے۔

ترجمان کے بقول دور دراز علاقوں میں رہنے والی آبادی اور ان کے مویشیوں کو فوری میٹھے پانی کی پائپ لائنز تک منتقل کیا جارہاہے۔ چولستانیوں کو فوری لائیو سٹاک اور زرعی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں اور موجود گرمی کی لہر اور اس سےبچاؤ کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جارہی ہے۔ کمشنر آفس بہاولپور میں چولستان کی ہنگامی صورتحال کے لیے کنٹرول روم قائم کردیا گیاہے۔ میڈیکل اور ویٹرنری ٹیم کوہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوری متاثرہ علاقوں میں پہنچنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔

جواد بلوچ کے بقول چولستان میں ہر سال جیپ ریلی پر کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں مگر اس علاقے میں شہریوں کےمسائل حل کرنے کا کوئی جامع منصوبہ تیار نہیں کیاگیا۔

واضح رہے کہ اس صورتحال میں وزیر اعلی حمزہ شہباز نے نوٹس لیا اور دوسرے شہروں سے امدادی ٹیموں کوچولستان بھجوایا گیا جو امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہیں۔

دوسری جانب بلوچستان کے باسیوں کے لیے خشک سالی نئی بات نہیں ہے لیکن وہ اس کے تباہ کن دیرپا اثرات سے بخوبی واقف ہیں۔ 

قلات کےایک دور افتادہ علاقے گزگ کے قریب جہاں تک رسائی بھی جان جوکھم  کا کام ہے وہاں پر دو اطراف سے گھرے پہاڑوں کے بیچ کچھ لوگ زمینداری کرتے ہیں جن میں طالب نامی شخص بھی ہے۔ 

طالب گندم کی فصل تیار ہونے پر اس کے کٹائی کےلیے انتظامات تیاری کررہا ہے تاہم اس بار وہ اس فصل سےمطلوبہ پیدوار اٹھانے سے قاصرہے اس کی وجہ یہ ہےکہ شدید گرمی اور تیز  ہواؤں کے باعث اس کو شدید نقصان پہنچا ہے۔  طالب نے بتایا کہ یہی حال ہمارے سبزیوں اور دوسرے فصلوں کا ہے۔ اس کےعلاوہ بارشیں نہ ہونے کے باعث زیر زمین پانی کی سطح بھی روز بروز نیچے جارہی ہے۔ اس نے خدشہ ظاہر کیا کہ جلد یہاں سے زمینداری کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس علاقے میں ایک بار خشک سالی کے سائے منڈلاتےدیکھ رہا ہوں۔ 

حکومت کی طرف  سے 16 مئی کوجاری ہونے والے ہفتہ وارخشک سالی کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ ہفتے بلوچستان اور سندھ میں کسی علاقےمیں بارش ریکارڈ نہیں ہوئی۔  

رپورٹ میں مزید پیش گوئی کی گئی ہے کہ اگلے ہفتے بھی کسی خاص بارش کا امکان نہیں ہے۔ دونوں صوبوں میں ہلکی اور متعدل خشک سالی بدستور برقرار رہے گی۔ 

رپورٹ میں ایک چارٹ دیا گیا ہے جس میں ملک بھر میں بارشوں کا ڈٰیٹا دکھایا گیا ہے جس کے مطابق ملک بھر میں بارشیں جنوری سے اپریل 2022 تک انتہائی کم منفی 21۔ 6 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ 

رپورٹ میں بتایا گیا کہ بلوچستان میں ضلع چاغی، خاران، نوشکی اور واشک کے اضلاع میں متعدل خشک سالی کے اثرات ہیں۔  

ادھر بلوچستان کے موسمیاتی حالات اور قحط سالی پر نظر رکھنے اور تحقیق کرنے والے ڈاکٹر شریف بزدار سجھتےہیں کہ حالیہ قحط سالی کی لہربھی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ ہے۔  

ڈاکٹرشریف بزدار جو اس وقت ایگری کلچر کالج کوئٹہ میں چئیرمین شعبہ سوائل سائنس میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’ہم جانتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث کبھی بہت بارشیں اور کھبی سیلاب وغیرہ آتے ہیں۔ اس کو ہم غیر یقینی صورتحال کہتے ہیں۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ بدقسمتی سے گذشتہ سال جو بارشیں ہوئیں ہم نے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی کہ اس کو ذخیرہ کیا جائے۔ جس کی وجہ سے یہ سارا پانی دریاؤں اور سمندر برد ہوگیا۔ 

شریف بزدار کا کہنا تھا کہ میں صورتحال کو اس سے بھی خطرناک دیکھ رہا ہوں۔ مستقبل میں ہمیں اس سےبھی خطرناک ماحول کا سامنا  ہوگا۔ اگر ہم پاکستان میں ایوریج گرمی کی حدت کو دیکھیں تو ہم دنیا کے باقی ممالک سے 1۔15 ڈگری آگے ہیں۔  

انہوں نے بتایا کہ اس صورتحال کی خرابی میں ایک بڑا کردار میں سولر سسٹم کے تحت لگائے گئے زراعت کے لیے ٹیوب ویل کا بے دریغ استعمال ہے۔ انرجی کی سہولت تو اچھی ہے لیکن جب سارا دن پانی چلتا ہے، جب تک سورج کی روشنی ہے، اور کسی کو اس کی فکر نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پانی پر بھی ٹیکس لگایا جاتا اس کے چارجز ہوتے۔ 

ڈاکٹر شریف نے کہتےہیں کہ میرا تعلق بھی چونکہ کوہ سلیمان سے ہے۔ وہاں ایک وقت میں بہت سبزہ، قدرتی چشمے تھے۔ ٹھیک ٹھاک بارشیں ہوتی تھیں۔ لیکن سولر سسٹم نے اس کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ جنگلات کی کٹائی بے دریغ ہورہی ہے۔ پہلے ہمارے لوگوں کے پاس کلہاڑی ہوتے تھے۔ وہ چند ایک ہی درخت کاٹ سکتےتھے۔ اب چین کی بنی مشینیں آتی ہیں جو راتوں رات جنگلات کا صفایا کردیتی ہیں۔ 

وہ مزید کہتے ہیں کہ ضلع شیرانی جوہمارے کوہ سلیمان سے متصل ہے۔ وہاں میں دیکھ رہا ہوں کہ ایک ہفتے سے جنگلات میں آگ لگی ہے۔ لیکن اس کو بجھانے اور باقی درختوں کو بچانے کے لیےکوئی منصوبہ بندی نہیں کی جارہی ہے۔ لوگ روایتی طریقے سے  ہاتھ سے اس کو بجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ 

’قدرتی وسائل کے حوالے سے ہماری کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ ہم درخت لگانے کا بولتے ہیں لیکن عملاً کچھ بھی کام نہیں ہوتاہے۔ بلوچستان اور پاکستان میں کون سا بڑا ڈیم ان سالوں میں بنایا گیا ہے۔ کوہ سلیمان قدرتی بناوٹ کی وجہ سے ڈیم بنانے کےلیے موزوں علاقہ ہے۔‘

شریف بزدار سمجھتے ہیں کہ اگر ہماری موسمیاتی تبدیلی اور اس سے نمٹنے کے لیے کوششیں نہیں کی گئی تو ہمیں مستقبل میں قحط سالی سمیت بہت سے قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 

انہوں نے بتایا کہ ہم زراعت میں بے تحاشا کیمیکلز کا استعمال کرتے ہیں۔ جس کے باعث ہماری فضا میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے اور اوزون کی لہر کو بھی نقصان پہنچ رہاہے۔ جس کا نتیجہ ہمارے سامنے آج کی صورتحال کی شکل میں آ رہا ہے۔  

بلوچستان میں حالیہ کچھ دنوں میں بارشوں کی کمی اور ڈٰیرہ بگٹی میں ہیضے کی وبا زیر مین پانی کی کمی اور جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا