یٰسین ملک: آزادی کا جنون جیل میں

جیل اب یٰسین ملک کے اصلی گھر کی طرح ہے، لیکن اس پر میری طرح بہت سے کشمیریوں کو اچنبھا نہیں ہوا۔ اچنبھا تب ہوتا تھا جب وہ جیل میں نہیں ہوتے تھے۔

25 مئی 2022 کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں یٰسین ملک کے حق میں ایک مظاہرہ (فوٹو: اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے:

 

چند برس قبل میں نے جیل سے رہائی پانے والے لبریشن فرنٹ کے رہنما محمد یٰسین ملک سے پوچھا کہ بار بار جیل اور بار بار رہائی کے بعد کیا آپ کو یہ خیال نہیں آتا کہ اس جدوجہد کو چھوڑ کر کچھ دیر کے لیے زندگی کو بھی جینا چاہیے؟

اس کے جواب میں وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے بعد کہنے لگے، ’میری جدوجہد میرا جنون ہے، میرا خواب میرے وطن کی آزادی ہے اور میرا گھر ہندوستان کی جیل ہے، اس کے علاوہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے؟‘

میں نے پوچھا، ’پھر شادی کیوں کی، کیا آپ کی اہلیہ کو ہمیشہ آپ سے جیل میں ہی ملنا ہوگا؟‘

انہوں نے کہا، ’مشال کو میرے جنون کا علم تھا اور اسی لیے میرے نصیب کے ساتھ جڑ گئی، آزادی میرا جنون ہے اور میں اس کا جنون بن گیا ہوں۔‘

یٰسین ملک کے ساتھ کشمیر کے مسئلے پر میری اکثر بحث ہوا کرتی تھی جو ہمیشہ تکرار پر ختم ہو جاتی۔ بندوق اٹھانے سے لے کر بندوق چھوڑنے اور پھر پرامن تحریک کی اس جدوجہد کے دوران میں نے بی بی سی کے لیے متعدد بار ان سے انٹرویو کیے، جن کے دوران ان کی باتوں سے ان کا جذبہ آزادی ظاہر ہو جاتا لیکن ساتھ ہی لبریشن فرنٹ کے حصے بخرے ہونے سے وہ اپنی تکلیف کا اظہار کرتے وقت آبدیدہ ہو جاتے تھے۔

یٰسین جیل آتے جاتے رہتے تھے۔ اب جیل ان کے اصلی گھر کی طرح ہے، لیکن اس پر میری طرح بہت سے کشمیریوں کو اچنبھا نہیں ہوا۔ اچنبھا تب ہوتا جب وہ جیل میں نہیں ہوتے تھے۔

ان کا آبائی علاقہ مائسمہ تحریک کے ہر چھوٹے بڑے واقعے کے لیے مشہور رہا ہے، بلکہ ایک زمانے میں کوئی بھی کشمیری جب رشتہ ازدواج کے لیے مائسمہ جاتا تھا تو مذاقاً کہا جاتا کہ دلہن جہیز کے بجائے پتھروں سے بھرے ٹرنک لے کے آئے گی۔

یہ ہر ایک کی دانست میں ہے کہ ہندوتوا کے ریڈار پر کشمیر کے تمام آزادی پسند رہنما ہیں جنہیں سیاسی منظر نامے سے غائب کر دیا گیا ہے مگر یہ کسی کے گمان میں نہیں تھا کہ مین سٹریم لیڈروں کے لیے بھی کشمیر کی سر زمین تنگ کی جائے گی حتیٰ کہ الحاق ہندوستان کے حامی مقبول ترین رہنما شیخ محمد عبداللہ بھی اب متنازع بن گئے ہیں، جن کا نام تاریخ کی کتابوں سے حذف کرنے کا اقدام بھی اٹھایا جارہا ہے۔

بھارت کی مختلف جیلوں میں یٰسین ملک سمیت درجنوں آزادی پسند رہنما اسیر ہیں جن میں شبیر شاہ، نعیم خان، انجینیئر عبدالرشید، مسرت عالم وغیرہ شامل ہیں۔

سنگ باز کہلانے والے نوجوانوں کی ایک بھاری تعداد بھی مختلف جیلوں میں کئی برسوں سے محبوس ہیں، جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

یٰسین ملک پر الزام ہے کہ انہوں نے پاکستان سے لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین کی مالی معاونت سے کشمیر میں 2016 میں برہان وانی کی ہلاکت کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف عوام کو اکسایا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

واضح رہے برہان وانی کی بھارتی فوج کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد کشمیر میں سخت تشدد بھڑک اٹھا تھا اور جلسے جلوس نکالے گئے تھے، جنہیں منتشر کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز نے پیلٹ گنوں کا استعمال کرکے 10 ہزار کے قریب افراد کو بینائی سے محروم کردیا تھا۔

یٰسین ملک پر ٹیرر فنڈنگ کے علاوہ ملک سے غداری کرنے اور بھارت کے خلاف عوام کو بھڑکانے کا الزام بھی عائد ہے۔

ان کے وکیل نے کئی بار شکایت کی کہ عدالت میں انہیں دلائل پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔

یٰسین ملک نے جج سے کئی بار کہا کہ انہیں اپنا کیس خود لڑنے کی اجازت دی جائے لیکن بقول ان کی بہن کے، ’عدالت نے اس کی بھی اجازت نہیں دی۔‘

جب یٰسین ملک کو احساس ہوا کہ عدالت میں انہیں اپنا موقف بیان کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جا رہا ہے تو انہوں نے کہا کہ آپ نے جو بھی الزامات لگائے ہیں میں ان سب کا اعتراف کرتا ہوں۔ اس کے بعد 25 مئی کو انہیں عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔

بیشتر کشمیریوں کو پکا یقین ہے کہ بھارت کی موجودہ حکومت یٰسین ملک کو افضل گورو بنانا چاہتی ہے، جنہیں کانگریس حکومت نے پھانسی پر چڑھایا تھا۔

انسانی حقوق کے کارکن محمد حفیظ کہتے ہیں، ’بی جے پی نے یٰسین ملک کو افضل گورو بنانے کا سکرپٹ کافی عرصہ پہلے لکھ کے رکھا ہے اور جس کی تخلیق میں بعض کشمیری پنڈتوں نے اہم کردار نبھایا ہے جو آزادی پسند لیڈرشپ کو ختم کرنے کی ایک منظم مہم چلا رہے ہیں۔‘

کشمیری پنڈت کہتے ہیں کہ یٰسین ملک کی پارٹی لبریشن فرنٹ سے وابست کارکن بٹّہ کراٹے نے قومی ٹیلی ویژن پر 32 پنڈتوں کے قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے جس کی ذمہ داری یٰسین ملک پر براہ راست عائد ہوتی ہے۔

ظاہر ہے کہ کشمیری اس وقت شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، انہیں بات کرنے کی اجازت نہیں، انتظامیہ سے لاتعلق ہیں اور ان زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات نہیں کر پارہے ہیں۔

پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے یٰسین ملک کی سزا پر روایتی بیانات جاری کیے ہیں مگر پاکستان نواز کشمیریوں کو جو امید حکومت پاکستان سے تھی وہ پوری نہیں ہوئی اور وہ برہم نظر آ رہے ہیں۔

پاکستان کی اندرونی سیاسی افراتفری کا اثر کشمیر اور کشمیر کی تحریک کے لیے ہمیشہ سم قاتل ثابت ہوا ہے۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ کشمیر سے پہلے اب جو خطرہ پاکستان کی سالمیت کے لیے پیدا ہوا ہے یا جان بوجھ کر پیدا کیا گیا ہے اس کے اثرات پورے برصغیر کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ اس خطرناک صورت حال میں کشمیر کا نام لینے کے لیے شاید ہی کوئی بچے گا اور یٰسین ملک کا جنون بھی شاید جیل کی سلاخوں کو ہی چیرتا رہے گا۔


نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ