جون 2019: اب تک کا گرم ترین مہینہ

100 سال پہلے شدید گرم موسم کی ایسی ہی لہرکے دوران گرمی کی شدت چار درجے کم تھی۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے مستقبل میں بھی ایسی ہی صورت حال کے سامنے کا امکان ہے، ماہرین

ویانا کے ایک چڑیا گھر میں موجود بندر نے گرمی سے بچانے کے لیے خود کو کپڑے سے ڈھانپ رکھا ہے (اے پی)

یورپ کی سیٹلائٹ ایجنسی نے اعلان کیا ہے کہ رواں برس جون کا مہینہ اب تک کے ریکارڈ کے مطابق گرم ترین رہا۔

موسمیاتی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والی ’کوپرنیکس کلائیمیٹ چینج سروس‘ (سی 3 ایس) کے فراہم کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں محدود سطح پر موسم کی پیش گوئی کرنے والے یورپی ادارے نے یورپ کے آدھے حصے کے موسم کا جائزہ لیا ہے۔ ان اعداد و شمار سے پتہ چلا ہے کہ ریکارڈ کے مطابق اوسط عالمی درجہ حرارت کے اعتبار سے 2019 کا جون سب سے زیادہ گرم مہینہ تھا۔

اعداد و شمار کے مطابق جون میں یورپ کا اوسط درجہ حرارت سیلسیئس پیمانے پر معمول سے دو درجے زیادہ رہا جبکہ مہینے کے آخری دنوں میں فرانس، جرمنی اور شمالی سپین کا درجہ حرارت معمول سے 6 سے 10 درجے زیادہ تھا۔

’کوپرنیکس کلائیمیٹ چینج سروس‘ کے اعداد و شمار کے مطابق 2016 کے گرم ترین جون کے بعد اوسط عالمی درجہ حرارت میں 0.1  درجے سیلسیئس اضافہ ہوا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ گذشتہ ہفتے یورپ میں ریکارڈ توڑ شدید گرمی کی لہر موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ تھی اور ایک تازہ تجزیئے کے مطابق گرمی کی شدت اندازوں سے کم از کم پانچ گنا زیادہ تھی۔

عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں کا جائزہ لینے والے ادارے ’ورلڈ ویدر ایٹری بیوشن گروپ‘ کے ماہرین کے مطابق فرانس میں 26 سے 28 جون تک کے درجہ حرارت کا تیزی سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ گرمی کی شدت کا امکان بڑی حد تک بڑھ گیا ہے جو عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا نتیجہ ہے، جس کا سبب انسانی سرگرمیاں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فرانس میں شدید گرمی کی حالیہ لہر کے دوران جو درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا وہ ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ یعنی 45.9 درجے سیلسیئس تھا۔ درجہ حرارت میں 40  درجے سیلسیئس سے زیادہ کا اضافہ سپین بھر میں جنگلات میں آگ لگنے کا سبب بھی بنا۔

جون کے آخری ہفتے میں جرمنی، پولینڈ اور جمہوریہ چیک میں بھی ریکارڈ کے اعتبار سے گرمی کی شدت میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔

کوپرنیکس کلائیمیٹ چینج سروس نے تسلیم کیا ہے کہ شدید گرمی کی لہر کو موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ براہ راست جوڑنا مشکل ہے لیکن ادارے کا کہنا ہے کہ توقع ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے مستقبل میں اس طرح کی موسمی شدت عام ہو جائے گی۔

ادارے کے سربراہ ژاں نوئل تھیپو نے کہا: ’اگرچہ مقامی درجہ حرارت پیش گوئی سے کم یا زیادہ ہو سکتا ہے، لیکن ہمارے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جون کے آخری ہفتے میں جنوب مشرقی یورپ میں درجہ حرارت معمول سے زیادہ رہا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اگرچہ یہ غیرمعمولی بات تھی، لیکن اس بات کا امکان ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہمیں مستقبل میں بھی موسم کی ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے۔‘

یورپی محکمہ موسمیات میں موسم کی شدت میں موسمیاتی تبدیلی کے کردار کا جائزہ لینے والے ماہر پیٹرسکاٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ ’100 سال پہلے شدید گرم موسم کی ایسی ہی لہرکے دوران گرمی کی شدت چار درجے کم تھی۔‘

یورپ کے اوسط درجہ حرارت میں 1917 اور 1999 میں بھی معمول سے ایک درجہ سیلسیئس زیادہ کا اضافہ ہوا تھا لیکن کوپرنیکس کلائیمیٹ چینج سروس نے کہا ہے کہ شدید گرمی کی حالیہ لہر قابل ذکر ہے کیونکہ درجہ حرارت میں اچانک ہونے والا اضافہ گذشتہ 100 برس کے دوران یورپ کے درجہ حرارت میں 1.5 درجے سیلسیئس کے لگ بھگ عمومی اضافے سے زیادہ تھا۔

درجہ حرارت میں ریکارڈ توڑ اضافے کی وجہ بتاتے ہوئے یونیورسٹی آف ریڈنگ میں قدرتی آفات پر تحقیق کرنے والی پروفیسر ہنہ کلوک کہتی ہیں: ’ہمیں علم ہے کہ یورپ میں جون کے مہینے میں گرمی پڑی لیکن اس تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ درجہ حرارت کا ریکارڈ صرف ٹوٹا نہیں بلکہ تباہ وبرباد ہو کر رہ گیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’ ریکارڈ کے مطابق جون کے دوران یورپ میں سب سے زیادہ گرمی پڑی جبکہ عالمی سطح پر بھی جون سب سے زیادہ گرم تھا۔‘

پروفیسر ہنہ کے مطابق: ’شدید گرمی کی لہر کہیں بھی آ سکتی ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے شدید گرمی کی لہروں کا امکان بڑھ گیا ہے۔ عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بڑھ گیا ہے۔ سائنسدان کئی دہائیوں سے اس صورت حال کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اور شدید گرمی کی لہر کے درمیان تعلق فوری طور پر تلاش کرنا ممکن ہے لیکن اکثر اس حوالے سے کئی طرح کی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ موسمی شدت کے اسباب سے متعلق تحقیق کے نتائج پر نظر دوڑانے کے دوران ہمیں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات