کیا افریقی شیر دنیا سے غائب ہو جائیں گے؟

شواہد بتاتے ہیں کہ ’ٹرافی ہنٹنگ‘ سے شیروں کی آبادی کو خطرہ لاحق ہے، مگر اس کے باوجود یہ کئی افریقی ملکوں میں جاری ہے۔

پچھلے 25 برسوں میں افریقہ بھر میں شیروں کی تعداد میں 43 فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور ان کا علاقہ 90 فیصد سے زیادہ کم ہو گیا ہے (پکسا بے)

گذشتہ 25 برس کے دوران میں نے اپنی ملازمت کی ایک ذمہ داری کے طور پر شیروں کا پیچھا کرنے میں کافی وقت گزارا۔ محض پچھلے مہینے میں نے تین گھنٹے دو نر شیروں کے ساتھ گزار دیے جو ممکنہ طور پر آپس میں بھائی اور ایتھوپیا کے مازے (Maze) نیشنل پارک میں میری کار کے بالکل سامنے موجود تھے۔

شیر رات کو باہر نکل کر ایسے چپکے سے آتے ہیں کہ 150 کلو گرام کے لگ بھگ وزنی ہونے کے باوجود آپ ان کے قدموں کی آواز نہیں سن سکتے۔ آپ کی سماعت سے ان کی سانسوں اور ایک خونخوار حیوان کی آواز ہی ٹکراتی ہے۔

اگر میں فوراً روشنی جلا دیتا تو وہ بھاگ جاتے۔ بھلے انہیں افریقہ کے قومی پارکوں میں ٹرافی ہنٹرز کا خطرہ نہ ہو پھر بھی شیر بہت جلد بدک جاتے ہیں۔ لہٰذا ہم چھوٹی سی سرخ بتی آن کرنے سے پہلے آدھا گھنٹہ گھپ اندھیرے میں گزارتے ہیں تاکہ ان کی آنکھوں کا عکس دیکھ سکیں۔ پھر تھوڑی دیر کا مزید ایک وقفہ جس کے بعد ایک بڑی سرخ روشنی آن کر دیتے ہیں جو ان کی جنس اور عمر کو دیکھنے کے قابل بناتی ہے۔

ہم خوش قسمت ثابت ہوئے کہ بڑی بتی جلتے ہی وہ تھوڑا ہٹ کر کھڑے ہو جاتے ہیں، لیکن ہم چند سو میٹر دور اپنے خیموں میں پلٹنے سے پہلے ایک گھنٹے تک ان کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ شیروں کی ہم میں دلچسپی بالکل بھی نہیں لیکن محکمہ جنگلات کے عملے کا فرد حفاظتی اقدامات کے طور پر کیمپ کے باہر آگ روشن کر دیتا ہے جو ساری رات دھویں کے مرغولے چھوڑتی رہتی ہے۔ اس پارک میں چوکی ہے نہ زائرین کا نام و نشان، اور نہ ہی ہنگامی حالات میں فراہم کی جانے والی سہولیات کا بندوست، سو ایسے رہنے کے لیے ضروری ہے کہ پریشانی کی نوبت ہی نہ آئے۔

ممکن ہے آپ نے چڑیا گھر یا وائلڈ لائف پارک میں شیروں کی گنتی کی ہو: ’میں تین دیکھ رہا ہوں، ایک منٹ، ایک اور کی دم کا کنارہ اور ایک ہلتا ہوا کان نظر آیا، اب چار یا پانچ ہو گئے؟‘

مقبول مقامات پر جہاں شیر گاڑیوں سے مانوس ہو جاتے ہیں وہاں سفاری پر جانے والوں کو بھی ایسا ہی تجربہ ہوتا ہو گا۔ تاہم جنگل میں شیر تلاش کرنا ایک مشکل کام ہے بالخصوص دن کے وقت وہ اپنی کچھاروں سے بہت کم باہر آتے ہیں۔

میں نے ان گنت راتیں اپنی گاڑی کی پشت پر میگافون سے بھینسوں یا وارٹ ہاگ کی آوازیں نکالتے ہوئے شیروں کو متوجہ کرنے کی کوشش میں گزاریں۔ میں قدموں کے نشانات تلاش کرنے یا خود کار کیمرا ٹریپس لگانے کے لیے کئی دن پیدل چلا ہوں۔ فیلڈ ورک کا ہر دن پہلے گرانٹ جاری کرنے کی درخواست اور اگلے دن اس کی رپورٹ لکھنے کا ہوتا ہے لیکن یہ ایک شاندار کام ہے۔

میں نے ایک بار ایتھیوپیا میں ایک جگہ شیر دیکھے جن کا دستاویزی ریکارڈ موجود ہی نہیں۔ بدقسمتی سے گذشتہ 25 سالوں میں ہمارے افریقی لائن ڈیٹا بیس سے شیروں کا ریکارڈ ڈیلیٹ کرنا بہت عام ہو گیا ہے۔

میری تحقیق کے مطابق اس عرصے میں افریقہ کے اندر شیروں کی تعداد میں 43 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے اور ان کے نسلی تنوع میں 90 فیصد کمی آئی ہے۔ اب 60 الگ الگ گروہوں میں  تقریباً 25 ہزار شیر باقی ہیں اور ان گروہوں میں سے نصف سے زائد سو سے بھی کم تعداد میں موجود ہیں۔ بالخصوص افریقہ کے مغربی، وسطی اور مشرقی خطوں میں ان کے وجود کو خطرات لاحق ہیں۔

1992 میں وازا نیشنل پارک میں ماسٹرز پروجیکٹ کرنے کے لیے میں پہلی مرتبہ کیمرون گیا اور تب سے افریقہ کے مختلف حصوں میں کام کر چکا ہوں، جسے مدنظر رکھتے ہوئے برطانیہ کے کل جماعتی پارلیمانی کمیٹی نے ٹرافی ہنٹنگ پر پابندی عائد کرنے کے سلسلے میں مجھ سے ثبوت پیش کرنے کو کہا۔

اس کمیٹی نے 29 جون 1922 کو ماحولیات کے سیکریٹری جارج یوسٹس کو ٹرافی کے شکار کے اثرات پر اپنی رپورٹ جمع کروائی۔ اسے سے پہلے دسمبر 2021 میں برطانیہ کی حکومت اعلان کر چکی تھی کہ وہ شیر، گینڈے، ہاتھی اور برفانی ریچھ سمیت سات ہزار مختلف انواع کے جانوروں کے جسمانی اعضا کی درآمد پر پابندی عائد کر دے گی۔ خطرے سے دوچار جانوروں کی بہت سی دیگر نسلوں کی طرح سالانہ کم و بیش شیر کی اوسطاً دس ’ٹرافیاں‘ برطانیہ میں درآمد کی جاتی ہیں۔

 برطانیہ کی کل جماعتی پارلیمانی کمیٹی کے اندر افریقہ میں ٹرافی ہنٹنگ کا مستقبل زیر بحث نہیں تھا اور اگر ایسا ہوتا تو یہ افریقی سائنس دانوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنی حکومتوں کو اس کے نفع نقصان کے بارے میں تجاویز پیش کریں۔ تاہم میری نظر میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ٹرافی ہنٹنگ نے افریقہ کے بیشتر حصوں میں جنگلی حیات کو فائدہ پہنچایا نہ مقامی برادریوں کے لیے یہ مشق سود مند ثابت ہوئی۔

ٹرافی ہنٹنگ کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتی ہے؟

ٹرافی ہنٹنگ جنگلی حیات کے تحفظ سے وابستہ حلقوں میں ایک متنازع موضوع ہے۔ شیروں کا جنوبی افریقہ کے کچھ حصوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا میرے خیال کے مطابق بعض واقعات میں غلط طور پر پیش کیا گیا ہے۔ لیکن بذات خود ٹرافی ہنٹنگ شیروں کے لیے سب بڑا خطرہ بھی نہیں۔ میری تحقیق کے مطابق وہ زیادہ تر اس وقت مارے جاتے ہیں جب مویشیوں پر حملہ کرتے ہیں یا جب ان کے ٹھکانے اور شکار گاہیں زرعی تجاوزات اور غیر قانونی شکار کے سبب محدود ہو جاتی ہیں۔

افریقہ میں ٹرافی ہنٹنگ کی مقبولیت نوآبادیاتی دور میں بڑھی جب ہر طرح کے مقتول جانوروں کو پیچھے یورپ بھیجا جانے لگا۔ آج کل اس صنعت کی وجہ سے سب سے زیادہ شکار کیے جانے والا جانور ہرن ہے۔ لیکن سب سے زیادہ باوقار اہداف ’پانچ بڑے‘ جانوروں کو سمجھا جاتا ہے: شیر، چیتا، ہاتھی، گینڈا اور بھینس۔ 

ایک گاہک مقامی کاروباری یا شکاری گائیڈ سے شکار کا شیر سمیت پورا پیکیج خریدنے کے لیے دس ہزار سے ایک لاکھ پاؤنڈ کے درمیان رقم  ادا کرتا ہے بلکہ یہاں تک کہ زیادہ مالدار لوگ اس سے بھی بڑی ادائیگی کرتے ہیں۔ چھٹیاں گزارنے کے لیے یہ ایک خطیر رقم ہے اور ٹرافی ہنٹنگ زیادہ تر مغربی ممالک کے مالدار سفید فام ادھیڑ عمر مردوں کا مشغلہ ہے۔

شکاری گائیڈ تاجر ہیں (جو تقریباً سبھی مرد ہوتے ہیں)۔ وہ بالعموم سرکاری زمین لیز پر لیتے ہیں جسے ’پائیدار استعمال‘ سے محفوظ بنانا مقصود ہوتا ہے۔ ٹرافی ہنٹنگ کے نام سے معروف یہ علاقے (کہیں بھی پانچ سو مربع کلومیٹر اور پانچ ہزار مربع کلومیٹر کے درمیان) وسیع رقبے پر پھیلے ہوتے ہیں اور ہر ایک میں مختلف نسلوں کے جانوروں کا سالانہ کوٹا ہوتا ہے جنہیں ٹرافی ہنٹر گولی مار سکتا ہے۔

نظریاتی سطح پر یہ جانوروں کی ہلاکتوں کو اسی سطح تک محدود رکھتا ہے جہاں ان کی آبادی برقرار رکھنا ممکن ہو۔ شکاری گائیڈ اپنے علاقوں میں موجود جنگلی جانوروں کی تعداد برقرار رکھنے کے لیے غیر قانونی شکار کی روک تھام سمیت مختلف اقدامات کرتے ہیں۔

گائیڈز باقاعدہ عملہ بھرتی کرتے ہیں، زمین لیز پر لینے اور ٹرافی ہنٹنگ کی فیس ادا کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ کسی کمپنی کو کھال اور کھوپڑی بیچنے کی بھی فیس ادا کرتے ہیں۔ یہ ایک وسیع صنعت ہے جو جنگلی حیات اور مقامی لوگوں کے لیے سود مند ہونے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن وہ گائیڈز خیراتی کارکن نہیں ہوتے۔ وہ اپنے اخراجات کا دائرہ کم سے کم اور فوائد کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔

ٹرافی ہنٹنگ میں کسی بھی مخصوص علاقے کے اندر بوڑھے کمزور جانوروں کو مارنے (جیسا کہ بعض اوقات دعویٰ کیا جاتا ہے) پر توجہ مرکوز نہیں کی جاتی۔ جنگلی حیات کی آبادی اس وقت تیزی سے بڑھتی ہے جب ان کا تعداد کم ہوتی ہے کیونکہ اس سے خوراک تک رسائی آسان اور جارحیت کم ہو جاتی ہے۔ اس طرح کے کسی بھی خطرے کو کم کرنے، اور سب سے بڑی ٹرافی پیش کرنے کے لیے، ٹرافی ہنٹرز محض بوڑھے اور کمزور جانوروں کو ہی نہیں بلکہ صحت مند جانوروں کا بھی شکار کرتے ہیں۔ 

شیر اور مویشی 

ٹرافی ہنٹنگ کا کوٹا مقرر کرنے کا طریقہ ہر ملک میں مختلف ہے۔ مثال کے طور پر کیمرون میں شیروں کا کوٹا بہت زیادہ مگر سائنسی خطوط پر استوار نہ تھا۔ 2015 میں ہم نے اپنے پہلے سروے کے نتائج شائع کیے جو تین ٹیموں کی طرف سے شیروں کی مختلف اقسام پر کیے گئے مشاہدات پہ مبنی تھے۔

ہر ٹیم نے کیمرون میں ہزاروں کلومیٹر کا سفر کیا۔ ہم بری طرح پھنسے، کسی مخصوص علاقے میں داخلے سے پہلے ٹرافی ہنٹرز کے نکلنے کا انتظار کھینچا کیے، ڈیزل حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کی، گرمی اور مکھیوں کو برداشت کیا۔ شیروں کا پیچھا کرنے کے دوران یہ ہمارا روز مرہ کا معمول رہا۔

بالآخر ہم 250 شیر، 316 چیتے، اور ایک ہزار 376 نشان دار لگڑ بگے دیکھنے میں کامیاب رہے۔ کیمرون چیتے کے لیے ٹرافی کوٹا مقرر نہیں کرتا اور لگڑ بگوں میں شکاریوں کو زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی۔ لیکن ہمارے سروے کے نتیجے میں شیر کا کوٹا 30 سے کم کر کے دس کر دیا گیا۔ آج بھی شمالی کیمرون میں یہ کوٹا برقرار ہے جس کے تین قومی پارکوں میں ٹرافی ہنٹنگ کے 32 بلاکس ہیں۔

تاہم ان 32 بلاکس میں سے دس ایسے ہیں جہاں باقاعدہ رہائش پذیر ایک بھی شیر نہیں۔ جب بلاکس اپنے شیروں سے محروم ہو جائیں تو اس سے قومی پارکوں میں رہنے والوں کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ 250 شیروں کے 30 ہزار کلومیٹر کی متصل رہائش گاہوں اور ہر تین ہزار کلومیٹر کے پارکوں کی 50 الگ تھلگ آبادیوں کے درمیان رہنے میں واضح فرق ہے۔

جب میں نے 2021 میں کیمرون کا دوبارہ دورہ کیا تو جگہ جگہ مویشی نظر آئے جن کا شیروں کی آبادی والے علاقوں میں یوں ہونا کچھ ٹھیک نہیں۔ ان میں سے بہت سے ریوڑ مالی اور نائجیریا جیسے پڑوسی ممالک سے آئے تھے جہاں دہشت گردوں کے حملوں کے بعد چرواہوں نے یہاں کا رخ کیا۔ نتیجتاً انتظامیہ پر دباؤ بڑھ گیا۔ مقامی لوگوں کا خانہ بدوشوں کے ساتھ مل کر حفاظتی بندوبست کرنا ایک دشوار امر ہے۔

جب بھی مویشی کسی ایسے علاقے میں چرتے ہیں جہاں شیر بھی ہوں تو لامحالہ مایوس کن صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شیر کچھ مویشیوں کو مار ڈالتے ہیں اور بدلے میں لوگ ان میں سے کچھ شیروں کو مار ڈالتے ہیں۔ شیروں کے تحفظ کے سلسلے میں شاید یہ سب سے بڑا چیلنج ہے اور میں کئی ایسے پروگراموں کو جانتا ہوں جو اسے کم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

درحقیقت چراگاہوں میں میری جن چرواہوں سے ملاقات ہوئی وہ کافی درگزر کرنے والے تھے، وہ شیروں کو پسند کرتے تھے۔ ایک بار کیمرون میں مجھ سے ایک چرواہے نے کہا ’اگر اس سال شیر ایک گائے پر حملہ کرے تو میں جان جاؤں گا کہ خدا مجھے بھولا نہیں۔‘ ایتھوپیا میں ایک نے کہا ’ہمارا نہیں خیال کہ شیر ہمیں نقصان پہنچانے کی خاطر ہمارے جانوروں کو لے جاتے ہیں۔ نتیجتاً ہم اسے ’حملہ‘ یا ’قتل‘ قرار نہیں دیتے۔‘ وہ محض اپنی ضرورت پوری کر رہے ہوتے ہیں۔

بہرحال کچھ لوگ اور چرواہے شیروں کے ساتھ رہنے کی بھاری قیمت ادا کرتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ شیر کسی اور کے گھر کے پچھواڑے کو ہی حملے کے لیے ترجیح دیں۔

میں نے کئی ممالک میں شیروں کو پکڑا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ شکار کیسی سنسنی خیز چیز ہے۔ یہ بھی نہیں کہ ڈارٹ گن ہلاک ہی کر ڈالتی ہو اور شیر گرفتار کرنے سے آپ کو جو معلومات ملتی ہیں وہ حیران کن ہیں۔ وازا نیشنل پارک میں میں نے شیروں کا پیچھا کیا اور ان میں سے کچھ کا برتاو بہت اچھا تھا۔ لیکن بدترین مجرم نے ہمارے دورے کے دوران ایک لاکھ مالیت ڈالر کے مویشی مارے۔ پارک کے وارڈن نے مجھ سے پوچھا، ’آپ کے خیال میں مقامی لوگ کب تک شیروں کے تحفظ کے لیے یہ قیمت ادا کرتے رہیں گے؟‘

تقریباً افریقہ کے تمام ٹرافی ہنٹنگ زون وسیع ماحولیاتی نظام کا حصہ ہیں جس میں قومی پارک بھی شامل ہیں اور بالعموم کوٹا پارکوں سمیت پورے علاقے میں شیروں کی مجموعی تعداد کے پیش نظر الاٹ کیا جاتا ہے۔ ٹرافی ہنٹرز کی طرف سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ وہ وسیع زمینی ٹکڑے پر اضافی شیروں کا تحفظ یقینی بنا رہے ہیں۔ مگر یہ اتنا بھی سادہ معاملہ نہیں۔

جب شیر پارکوں سے باہر بلاکس کے اندر خالی علاقوں میں چلے جاتے ہیں تو یہ چیز مجموعی آبادی کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔ ایک واقعہ جولائی 2015 میں سیسل کی وجہ سے عالمی خبروں کی زینت بن گیا۔ سیسل ایک سیاہ فام شیر تھا جس کا میرے وائلڈ لائف کنزرویشن ریسرچ یونٹ کے ساتھی سٹیلائٹ کی مدد سے پیچھا کر رہے تھے کہ اچانک وہ ایک امریکی ٹرافی ہنٹر کے ہاتھ مارا گیا۔ یہ ایک معمول کا واقعی تھا جو دنیا بھر کی خبروں کا حصہ بننے پر اہمیت اختیار کر گیا اور برطانیہ کی ٹرافی ہنٹنگ برآمدات پر پابندی کی تجاویز کا ایک سبب بنا۔

ٹرافی ہنٹنگ کا تیزی سے ناکام ہوتا ماڈل

افریقہ کے بیشتر علاقوں میں شیروں کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ اگرچہ ٹرافی ہنٹنگ اس کا واحد سبب نہیں لیکن شواہد واضح طور پر اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ ٹرافی ہنٹنگ جنگلی حیات کے تحفظ میں ناکام رہی ہے۔

میں نے ایک بار غور کیا کہ یہ سود مند بھی ثابت ہو سکتی ہے لیکن اس کے اثرات اور اخراجات کا مطالعہ کرنے کے بعد میں الٹ نتیجے پر پہنچا۔ برکینا فاسو، بینن، سینٹرل افریقن رپبلک، کیمرون، ایتھوپیا، سوڈان اور کانگو سمیت پورے مشرقی، وسطیٰ اور مغربی افریقہ میں ٹرافی ہنٹنگ کی اجازت ہے اور ان تمام ممالک میں شیروں کی تعداد تیزی سے کم ہوئی ہے۔

سینٹرل افریقن ری پبلک اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ تقریباً آدھے ملک کو ہنٹنگ بلاکس کے طور پر نامزد کیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود وہاں کی جنگلی حیات سب غائب ہو چکی ہے۔ محقق اور تحفظ پسند انسان آنجہانی فلپ بوش نے 2012 میں اس پر ’گیم اوور‘ (کھیل ختم ہو گیا) نامی کتاب شائع کی تھی جس کا عنوان ہی سب کچھ بتا رہا ہے۔

زرعی تجاوزات اور غیر قانونی شکار کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے انتظامی اخراجات کی لاگت میں اضافے اور دوسری طرف جنگلی حیات کی مختصر آبادیوں سے معمولی آمدن کے سبب  ٹرافی ہنٹنگ کا مقدمہ روز بروز کمزور ہوا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عملی طور پر سامنے آنے والا عمومی مشاہدہ اس کا پیمانہ ہے، ایک پائیدار سالانہ ’کاشت‘ والے رقبے پر فی دو ہزار کلومیٹر ایک شیر بستا ہے اور ٹرافی ہنٹنگ بلاک کے سالانہ انتظام پر تقریباً ہزار ڈالر فی کلومیٹر لاگت آتی ہے۔ اس کو ملا کر دیکھا جائے تو ایک ’شیر تیار کرنے پر‘ تقریباً 20 لاکھ ڈالر خرچہ آتا ہے۔

علاقوں کے اعتبار سے یہ تعداد مختلف ہو سکتی ہے اور یقیناً ٹرافی ہنٹرز اور بھی جانوروں کا شکار کرتے ہیں لیکن شکاری کمپنیوں کو حساب برابر کرنے کے لیے بہت ہی غیر معمولی حالات کی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ جنگلی حیات کے ساتھ رہنے والی مقامی آبادیاں اپنے منصفانہ حصے کا بھی مطالبہ کر رہی ہیں جو قابل فہم بات ہے۔ سو اس ماڈل کی چولیں ہلتی نظر آتی ہیں اور اس کا انجام اچھا نہیں محسوس ہوتا۔

مثال کے طور پر زیمیا اور تنزانیہ میں بالترتیب 40 اور 72 فیصد ایسے علاقوں سے یہ سلسلہ ختم کر دیا گیا جو پہلے ٹرافی ہنٹنگ کے لیے تھے۔ انتظامی اخراجات بڑھ رہے ہیں اور چند علاقوں کے علاؤہ یہ پرائیوٹ آپریٹرز کو منافع بخش نہیں لگ رہا۔ اس کا سبب کوئی صریح پابندی نہیں بلکہ اخراجات اور فوائد کے توازن میں عدم مساوات ہے۔

افریقہ بھر میں اکثر و بیشتر ٹرافی ہنٹنگ نے شیروں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا چاہے اس کا سبب اقتصادی عدم مساوات، بڑھتی ہوئی دہشت گردی، زمینوں کی بد انتظامی یا مویشیوں کی نقل و حرکت میں اضافے سمیت (یا مجموعی طور پر سب عوامل) کچھ بھی ہو۔

 ٹرافی ہنٹنگ کے ذریعے شیروں کے مسلسل قتل کے پہلے سے زیر بحث جواز کو کسی منفعت کا نہ ہونا اور بھی کمزور کر رہا ہے۔ جیسے جیسے زوال کا سلسلہ جاری ہے بہت سی برادریاں جنگلی حیات کے ورثے سے محروم ہو رہی ہیں جو ممکنہ طور پر کسی اور نقطہ نظر کے تحت کیے گئے اقدامات کے سبب روزگار اور استحکام حاصل کر سکتی تھیں۔

کامیابی کی داستانیں

جنوبی افریقہ میں نمیبیا اور بوٹسوانا کو اکثر ایسے ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جہاں ٹرافی ہنٹنگ سے کامیابی حاصل ہوئی اور اگر وہاں ایسا ممکن ہے تو یہ تجربہ کسی دوسرے مقام پر بھی کامیابی سے ہم کنار ہوسکتا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ زیادہ گنجان آباد علاقوں میں رہنے والے ایک ارب سے زائد دیگر افریقیوں کے لیے 50 لاکھ سے کم آبادی والے دو بڑے ممالک کے تجربات فی الاصل کس قدر سبق آموز ہو سکتے ہیں؟

یقیناً ان دونوں ممالک میں جنگلی حیات کثرت سے موجود ہے لیکن کیا اس کا سبب ٹرافی ہنٹنگ کے اثرات، انسانی آبادیوں کے کم مساکن، متنوع سیاحتی صنعتیں اور جنگلی حیات کے متعلقہ ادارے ہیں؟

بوٹسوانا میں 2014 سے 2020 تک ٹرافی ہنٹنگ پر پابندی رہی لیکن اس کے حامی اور مخالفین دونوں کے دلائل سننے کے باوجود میں اس کے شیر اور ہاتھی کی تعداد پر کسی بھی قسم کے اثرات سے واقف نہیں ہوں۔ مختصراً یہ کہ بوٹسوانا میں جنگلی حیات کے تحفظ کی کوششیں ٹرافی ہنٹنگ پر پابندی یا اجازت کے باوجود کامیاب ہیں۔

اگرچہ جنوبی افریقہ عام طور پر اپنی جنگلی حیات کی نسلوں کو مستحکم رکھنے میں کافی حد تک کامیاب رہا لیکن ہمیشہ یہ قدرتی عمل کے ذریعے نہیں ہوتا آیا۔ اس کے لیے بہت سے رہائشی اور افزائش نسل کے انسانی بندوست کیے گئے جن میں جانور فطری ماحول کی طرح پرورش پاتے اور پھر انہیں نیلام کیا جاتا۔

مثال کے طور پر جنوبی افریقہ میں تقریباً آٹھ ہزار شیر مالدار مالکان کے مناسب ماحول میں رہتے ہیں جنہیں مویشیوں کی طرح پالا گیا۔ 

یہ ماڈل جانوروں کے مساکن یا حیاتیاتی تنوع کی سطح بہتر بنانے کے لیے کارآمد نہیں اور نہ دیہی سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے کارگر ہے۔ ملک کا مجموعی ٹرافی ہنٹنگ کوٹا ہر سال تقریباً پانچ جنگلی شیروں اور پانچ سو ذاتی بندوبست میں تیار کیے گئے شیروں کے شکار کی اجازت دیتا ہے، جبکہ امریکہ نے 2016 میں جنوبی افریقہ سے ٹرافی درآمدات پر پابندی عائد کر دی تھی، برطانیہ میں درآمد کی گئی سب سے زیادہ ٹرافیاں وہیں سے پہنچی ہیں۔

بحثیت مجموعی افریقہ کے ساتھ دوسرا مسئلہ ماہرین حیاتیات کا بوٹسوانا کے علاقے اوکاوانگو ڈیلٹا اور ساؤتھ افریقہ میں کرگر نیشنل پارک جیسے مقامات کی طرف بھاری تعداد میں ہجرت کرنا ہے جہاں انفراسٹرکچر کی حالت بہتر اور  جنگلی حیات کی تعداد کثرت میں ہے۔ نتیجتاً وہاں جنگلی حیات کے تحفظ کی وکالت اور پریکٹس کرنے والی تعداد ضرورت سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے۔ ان میں سے شاید بہت سوں نے کبھی افریقہ سے باہر کام نہیں کیا ہو گا اور ممکن ہے وہ اس بات سے واقف ہی نہ ہوں باقی براعظم میں کیا چل رہا ہے۔

میں اس بات سے قطعاً انکاری نہیں کہ کچھ ممالک تحفظاتی کوششوں میں سرخرو ٹھہرے اور مختلف واقعات میں ٹرافی ہنٹنگ کا اس میں کردار رہا ہے۔ لیکن ٹرافی ہنٹنگ کے حق میں بڑھ چڑھ کر پیش کیے جانے والے نقطہ نظر ’یہ ثروت مند ثابت ہوتا ہے تو چلتا رہے‘ کے تحت بھی اسے دیکھا جائے تو اس کے ماحولیاتی نظام کو نقصانات کا پلندہ بھاری پڑتا ہے۔ یہ افریقہ میں شیروں کی نسلوں کے تنوع اور اس سے بھی کہیں بڑھ کر وہاں کے شہریوں کے لیے نقصان دہ ہے۔

مجھے یقین ہے برطانیہ اور دیگر ممالک میں ٹرافی ہنٹ درآمدات پر پابندی اس کی کمی یا اس کے خاتمے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ برطانیہ میں پابندی کو برطانوی ووٹرز کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ فرانس، نیدر لینڈ اور آسٹریلیا پہلے ہی شیر ٹرافی کی درآمد پر پابندی عائد کر چکا ہے جبکہ امریکہ اور یورپی یونین نے ان کی درآمدات محدود کر دی ہیں۔ کیونکہ زیادہ تر گاہکوں کی خواہش ٹرافی کا حصول ہوتا ہے اس لیے بحیثیت مجموعی گاہوں کی زیادہ تعداد براہ راست افریقہ کی پالیسی پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں کرتی۔

آئندہ کا لائحہ عمل

پورے براعظم میں زیادہ تر پالیسی ساز اس مروجہ بیانیے پر قائم ہیں کہ ٹرافی ہنٹنگ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے مفید ہے۔ اس طرح ایک سفید فام شخص کو ایسے مخصوص علاقوں تک رسائی حاصل ہے جہاں عام فرد کا قدم رکھنا یا سرکاری ایجینسیوں کا سرمایہ کاری کرنا ممکن نہیں۔ ٹرافی ہنٹنگ درکار انتہائی ضروری جدت پسندانہ اقدامات اور سرمایہ کاری کی راہ میں حائل ہو رہی ہے۔

میں ٹرافی ہنٹرز کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ جو زمین ان کے سپرد کی گئی وہ شیروں اور ان کا رزق بننے والے دوسرے جانوروں کے لیے اہم مسکن ہے۔ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ یہ مساکن بکھر جائیں۔ تاہم موجودہ صورتحال ابلتے ہوئے پانی میں مینڈک کی مشہور کہانی جیسی لگتی ہے، افریقی ممالک باہر کودنے سے خوفزدہ ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ جانی ہے کہ پھر وہ کوشش کے باوجود اس سے نکل نہیں سکیں گے۔

مغربی افریقہ میں سب سے بڑا اور سب سے اہم حیاتیاتی تحفظ کا مرکز بینین، برکینا فاسو اور  نیجر کی سرحد پر 25 ہزار کلومیٹر پر مشتمل ڈبلیو آرلی پینجاری کا علاقہ ہے۔ تقریباً 400 شیروں کی موجودگی کے ساتھ یہ مغربی افریقہ میں واحد سہ ہندسی آبادی والا مرکز ہے جہاں ہاتھی اور بھینسوں کی بھی سب سے زیادہ تعداد موجود ہے۔ ڈبلیو آرلی پینجاری کی آدھی اراضی ٹرافی ہنٹنگ کے لیے مختص ہے۔ پھر بھی بیس برسوں میں ان بلاکس نے خطے کے کل تحفظاتی بجٹ میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالا ہے۔

زیادہ تر علاقہ اب دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی دراندازی کی زد پر ہے اور ہنٹنگ بلاکس سمیت بیش تر رقبہ ویسے ہی خالی چھوڑ دیا گیا ہے۔

تاہم بینن میں صورت حال بدل رہی ہے۔ شیروں کی ٹرافی ہنٹنگ روک دی گئی ہے اور ایک ٹرسٹ فنڈ قائم کیا جا چکا ہے جو ملک کی تحفظاتی سرگرمیوں کی خاطر ہمیشہ مالی اعانت کے لیے پرعزم ہے۔ اگرچہ یہ فنڈ بنین اور جرمنی کی حکومتی ایجینسیوں کی جانب سے فراہم کیا جاتا ہے لیکن اس کا ایک آزاد بین الاقوامی ڈھانچہ ہے اور کئی دوسرے عطیہ دہندگان نے اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ پارک کا انتظام ایک غیر منافع بخش تنظیم کے سپرد کیا گیا ہے جو مقامی جنگلی حیات کو نقصان نہ پہنچانے والے کمیونٹی کے اقدامات کی حمایت کر کے روزگار کے مواقع پیدا کرتے ہوئے مقامی معاشی صورتحال بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ 

بلاشبہ جہاں 50 سال کے ترقیاتی منصوبے ناکام رہے وہاں ہمیں جنگلی حیات سے غربت اور عدم استحکام دور کرنے کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن میرا ہر سال بینن چکر لگتا ہے جہاں میری ایک درجن دوستانہ لیکن غیر منظم عملے سے ملاقات ہوتی ہے۔ اب میں سینکڑوں مقامی لوگوں کو ملازمت یافتہ اور مطمئن دیکھتا ہوں۔ زرعی خاندانوں سے تعلق رکھنے والے بچے ممکن ہے ماضی میں اس سے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہوں لیکن اب وہ یہ ہنر سیکھ کر بطور روزگار اس میدان میں اترنا چاہتے ہیں جو ان کا آبائی شعبہ نہیں تھا۔

بہتر مستقبل کی ایک اور جھلک روانڈا کے آکاگیرا نیشنل پارک میں دیکھی جا سکتی ہے جو 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں مکمل تباہ ہو چکا تھا۔ روانڈا افریقہ کا واحد ملک ہے جس کی آبادی کی گنجانیت انڈیا سے زیادہ ہے۔ یہ ان گنت مسائل میں گھرا ہوا ملک ہے لیکن اس کے باوجود آکاگیرا جانوروں کے حیاتیاتی تحفظ کے معاملے میں کامیابی کی داستان ہے۔ علاقے کی بہتری پر ابتدائی سرمایہ کاری کے بعد روانڈا مقامی سیاحوں کی مدد سے ماحولیاتی سیاحت کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ اگرچہ ہر جگہ ایسا نہیں ہوا لیکن اس کے بہت سارے ایسے علاقوں میں یہ کامیاب رہا جہاں توقع بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔

افریقی شیروں، ان کے شکار اور شکار گاہوں کو بچانے کے لیے تخمینے کے مطابق تقریباً ایک ارب ڈالر سالانہ درکار ہوں گے۔ اتنی فنڈنگ سے نئے حفاظتی علاقے بنائے بغیر افریقہ ایک لاکھ تک سالانہ شیر بڑھا سکتا ہے۔ اس وقت شیر اپنے لیے مخصوص علاقوں کے محض ایک چوتھائی حصہ تک محدود ہیں۔ اس میں اضافے کے لیے فنڈنگ اور کمیونٹی کی شمولیت دونوں لازمی ہیں۔

بہرحال بین الاقوامی اتفاق رائے ٹرافی ہنٹنگ کی نسبت فنڈنگ کا کہیں زیادہ پائیدار اور اہم ذریعہ ہے۔ معدومیت کے بحران بارے میں بھی ہمارا نقطہ نظر آب و ہوا کے متعلق ہمارے نقطہ نظر جیسا ہونا چاہیے: موسمیاتی انصاف کے ساتھ ساتھ حیاتیاتی انصاف۔ 2021 میں گلاسکو کے اندر اقوام متحدہ کی منعقد ہونے والے سربراہی اجلاس برائے موسمیاتی تبدیلی میں غریب ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق ڈھلنے اور درجہ حرارت میں مزید اضافے کو روکنے میں تعاون کے لیے 100 ارب ڈالر سالانہ فنڈ کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ عالمی حیاتیاتی تنوع کے فروغ کے لیے ایسی ہی مالی امداد کی تجویز دسمبر 2023 کے مونٹریال میں منعقد ہونے والے COP 15 سربراہی اجلاس میں پیش کی جائے گی۔ افریقہ کے شیروں اور دیگر جنگلی جانوروں کے لیے 1 بلین ڈالر کی رقم ممکن ہے بہت غیر حقیقی محسوس ہو لیکن بین الاقوامی پالیسوں کے میدان میں اس کی فراہمی کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔

افریقی زمینیں خودمختار اور شیروں کے مستقبل کا مرکزی گڑھ ہیں۔ کچھ لوگ ممکن ہے ٹرافی ہنٹنگ برقرار رکھنے کے خواہش مند ہوں لیکن وہ جانتے ہیں کہ یہ مطالبہ اپنا جواز کھو رہا ہے جہاں برطانیہ کے سیاسی حلقوں کی مخالفت تازہ ترین مثال ہے۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ ٹرافی ہنٹنگ کی متضاد آرا سے لتھڑی ہوئی بحث افریقہ اور دنیا بھر کے جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے سرگرم حلقوں کی توانائی کم کارآمد چیز پر خرچ کروا رہی ہے۔ یقیناً یہ مناسب وقت ہے کہ ہم شیر اور خطرے سے دوچار دیگر جانوروں کے تحفظ کے لیے اپنی توجہ کا مرکز کسی بہتر متبادل کو بنائیں۔

 مازے نیشنل پارک کے وہ دو شیر یاد ہیں؟ وہ ایک چھوٹی آبادی کا حصہ ہیں جس کا بنیادی علاقہ پارک ہے لیکن وہ جنوبی ایتھوپیا میں ہر جگہ گھومتے پھرتے ہیں۔ بعض اوقات کچھ شیر اگلے پارک میں خوش آئند جینیاتی تبادلے کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔

مازے پارک کے سربراہ کے ساتھ شیروں کی نگرانی کے لیے عملہ موجود ہے لیکن سواری کے لیے محض ایک موٹر سائیکل۔ کئی کئی گھنٹے کے فاصلے پر کوئی ہوٹل ہے نہ پیٹرول پمپ اور نہ میڈیا کا نام و نشان۔ انہیں ٹرافی ہنٹرز کی نہیں بلکہ ایک گاڑی کی ضرورت ہے۔ 


نوٹ: یہ تحریر پہلے ’دا کنورسیشن‘ پر شائع ہوئی تھی اور کری ایٹیو کامنز لائسنس کے تحت یہاں شائع کی جا رہی ہے۔ اس کے مصنف پروفیسر ڈاکر ہانز باؤر یونیورسٹی آف آکسفورڈ میں ریسرچ فیلو ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات