بھارت: مشہور ترین شیروں میں سے ایک کی گمشدگی کا معمہ

شاہی نسل سے تعلق رکھنے والے شیر ایس ٹی 13 نے درجنوں بچوں کو جنم دیا اور ایک وسیع علاقے پر حکومت کی۔ اس کی گمشدگی سے دوبارہ غیر قانونی شکار کے خدشات اور ریزرو کی طرف سے معاملے کی پردہ پوشی پر متضاد آرا جنم لے رہی ہیں۔

بھارتی شہر ممبئی میں 10 فروری 2022 کی تصویر میں بنگالی ٹائیگر شکتی ایک چڑیا گھر میں (اے ایف پی)

رواں برس جنوری میں موسم سرما کی ایک یک بستہ صبح محکمہ جنگلات کا ہر دستیاب رینجر اپنی جیپ میں سوار گھاس کے کھلے میدانوں اور مغربی بھارت کی ریاست راجستھان میں سارسکا ٹائیگر ریزرو کی وادیوں میں جا چکا تھا۔

پڑوس کے تین علاقوں سے بلائے گئے عملے سمیت مجموعی طور پر 35 کے قریب متلاشی ٹیمیں ریزرو کے شیروں کی رہائش گاہ کے کانٹے دار گھنے جنگل میں داخل ہوئیں۔ ان کا مشترکہ مقصد سارسکا کے بہترین رائل بنگال نر شیر کی تلاش تھی جو کوئی نشان چھوڑے بغیر پانچ دنوں سے غائب تھا۔

سارسکا کے عملے کی متلاشی ٹیم کے سربراہ دی انڈپینڈنٹ کو بتاتے ہیں کہ پہلے سے ہی ایسے کسی خدشے کا احساس موجود تھا کیونکہ شیر کا پانچ روز تک نظر نہ آنا معمولی بات نہیں۔ یہاں تک کہ اگر شیر خود نظر نہ آئیں تب بھی وہ اپنے پنجوں کے نشانات سے لے کر درختوں پر تازہ خراشیں اور حتی کہ پیشاب کے چھینٹے تک اپنی موجودگی کے سراغ کے طور پر چھوڑ جاتے ہیں جنہیں جنگل کے مقامی ملازمین کسی مخصوص انفرادی جانور سے جوڑ سکتے ہیں۔

ایس ٹی 13 کے کوڈ نام والا یہ جانور کوئی عام شیر نہیں تھا جو بھارت کی مشہور ترین بڑی بلی کے طور پر جانا جاتا ہے، اس کی ماں رنتھم بورے نیشنل پارک سے تعلق رکھنے والی ’مچھلی‘ کی اولاد تھی جسے دنیا کی سب سے مشہور اور تصویروں میں چھپنے جانے والی شیرنی کہا جاتا ہے۔

اس نے اپنے مخصوص علاقے کو حملہ آوروں سے بچانے کے لیے جارحانہ انداز اپناتے ہوئے اپنا غلبہ برقرار رکھا اور پارک ریزرو میں محض 27  شیروں کی مختصر آبادی کو برقرار رکھنے میں اس کی جنسی زرخیزی انتہائی اہمیت کی حامل تھی، جہاں اندازے کے مطابق دو درجن بچے اس سے ہوئے۔

تلاش کا سفر دنوں سے ہفتوں میں تبدیل ہوا اور 90 روز کی لاحاصل تگ و دو کے بعد ایس ٹی 13 کو 16 اپریل کے دن باضابطہ طور پر لاپتہ قرار دے دیا گیا۔ اس کی گمشدگی قومی خبروں کی شہ سرخیوں کی زینت بن گئی، ایک ایسے ملک میں جس نے شیروں کی آبادی بڑھانے کے لیے کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت زیادہ بھرپور کوششیں کیں لیکن اس کے باوجود 2019 کے جائزے کے مطابق مجموعی تعداد تین ہزار کا ہندسہ بھی نہ چھو سکی تھی۔

 یہ نقصان سارسکا کے لیے خاص طور پر تشویش ناک تھا جو بھارت کی آزادی کے بعد 2004 میں یہ پہچان والا پہلا ٹائیگرز ریزرو بن گیا جس کے پاس ایک بھی شیر نہ تھا۔ رنتھم بورے اور دیگر وافر تعداد میں جانور رکھنے والے ریزرو سے حاصل کیے گئے جنسی طور پر فعال جانوروں کو دوبارہ مناسب ماحول فراہم کرنا اور ان کی نسلوں کو محفوظ کرنا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ 

سارسکا کے دورے کے دوران حکام نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ایس ٹی 13 کو اس کے علاقے میں آخری بار کیمرے کے ذریعے 14 جنوری کو دیکھا گیا تھا اور پھر اس کے پنجوں کے نشانات 15 جنوری کو نظر آئے جنہیں اسی رات بارش بہا لے گئی۔ اس کے بعد شیر کہاں گیا یہ ایک معمہ تھا جس کے متعلق ممکنہ غیر قانونی شکار، مقامی سطح پر بدعنوانی اور معاملے کو داخل دفتر کرنے جیسے خوفناک دعوے کیے گئے۔

 ایس ٹی 13 جیسے اہم شیروں کی لوکیشن معلوم کرنے کے لیے ان پر جی پی ایس کالر لگے ہوتے ہیں لیکن مصیبت یہ کہ یہیں سے متضاد رپورٹس کا آغاز ہوا۔ ایس ٹی 13 کا باقاعدگی سے پیچھا کرنے والے محکمہ جنگلات کے عملے میں سے ایک کے مطابق کالر 14 جنوری تک سگنل غائب ہونے سے پہلے صحیح کام کر رہا تھا۔

ریزرو حکام نے ایک اور ہی قصہ سنایا کہ کالر اس رات سے کئی ماہ پہلے کام کرنا چھوڑ چکا تھا اور اسے تبدیل کرنے کی درخواست نیشنل ٹائیگر کنزرویشن اتھارٹی کے پاس زیر التوا تھی۔

 تلاش میں کسی خاص پیش رفت نہ ہونے اور ایس ٹی 13 کے غائب ہونے کے بارے میں ملی جلی اطلاعات سے مایوس ہو کر اپریل کے اوائل میں سارسکا کے عملے کے کچھ ارکان نے وزارت ماحولیات کو ایک خفیہ خط بھیجا جس میں شیر کو مار ڈالنے، لاش ریزرو سے 46 کلومیٹر دور سرواس کے گاؤں میں ٹھکانے لگانے اور ریزرو انتظامیہ کو یہ سب معلوم ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

 دی انڈپینڈنٹ نے اس خط کی ایک نقل دیکھی جو اس طرح سے شروع ہوتا ہے ’ہم آپ کو شیر ایس ٹی 13 کے بارے میں بتانا چاہتے ہیں جو سارسکا کے جنگلات سے غائب ہے اور اسے مار کر دفنا دیا گیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس میں لکھا تھا: ’الیکڑیکل شاک لگنے سے ٹائیگر کی موت واقع ہوئی اور اس کی اطلاع محکمہ جنگلات کے ڈپٹی فیلڈ ڈائریکٹر اور فیلڈ ڈائریکٹر کو ایک ماہ قبل دی گئی تھی۔‘

عملہ بتاتا ہے کہ شیر سرواس کے علاقے میں گھومتا پھرتا تھا اور یہیں انسانی آبادی کے ساتھ ربط ہونے کے بعد الیکٹرک شاک لگنے سے اس کی موت واقع ہو گئی۔

خط میں کہا گیا تھا: ’جیسے ہی اہلکاروں کو معلوم ہوا انہوں نے شیر کی لاش چھپانے اور اس کا کالر اتار کر قریبی کنویں میں پھینکے کا فیصلہ کیا۔ شیر کو سرواس کے کھیتوں میں دفن کر دیا گیا جس کی باقیات تلاش کرنے پر مل سکتی ہیں۔‘

خط میں الزام عائد کیا گیا کہ حکام نے کوئی کارروائی نہیں کی ’کیونکہ واقعے کا ملزم ایک جانی پہچانی شخصیت اور سابق مقامی سرپنچ (گاؤں کے سربراہ) کا بیٹا ہے جس کے فیلڈ ڈائریکٹر سے تعلقات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ عملے نے وزارت کو بتایا کہ ان کا خیال ہے شیر کی موت چھپانے اور معاملے کو جلد از جلد داخل دفتر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

 دی انڈپینڈنٹ نے وزارت ماحولیات سے رابطہ کیا لیکن تادم تحریر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

 ایک مقامی این جی او وائلڈ کیٹس کنزرویشن سوسائٹی کے چئیرمن نریندر سنگھ راٹھور نے دی انڈیپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس واقعے پر کوئی کارروائی نہ کی گئی تو ایس ٹی 13 کی اچانک موت سارسکا میں غیر قانونی شکار کی واپسی کا باعث بن سکتی ہے۔

سارسکا میں تین دہائیوں تک کام کرنے والے ایک ریٹائرڈ فارسٹ گارڈ نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ محکمہ جنگلات کے مقامی اہلکار لاش کو تلاش کرنے کی خاص کوشش کیے بغیر اس کی موت پر پردہ ڈالنے میں کامیاب رہے ہیں۔

 سارسکا کے بہترین فارسٹ گائیڈز میں شمار ہوتے نرنجن سنگھ راجپوت کہتے ہیں کہ ہر کوئی واقعات کی صحیح ترتیب اور جن حالات میں شیر کی موت ہوئی انہیں چھپانے کے لیے مقامی اور  سیاسی دباؤ سے واقف ہے کیونکہ وہ زبان کھولنے کے دور رس نتائج سے خوفزدہ ہیں۔  محکمہ جنگلات کے مقامی عملے یا رہائشیوں میں سے جن سے بھی دی انڈپینڈنٹ نے بات کی ان میں سے کسی نے بھی دعوؤں کے بااثر مرکزی کردار کا کھل کر نام نہیں لیا۔

ایک انٹرویو میں محکمہ جنگلات کے ایک سینیئر اہلکار نے ان الزامات سے واقف ہونے کا اقرار کیا لیکن اس بات سے انکار کیا کہ کوئی پردہ پوشی کی گئی ہے۔

تحقیقات کے سربراہ ڈویژنل فارسٹ آفیسر سدرشن شرما نے بتایا: ’ہم تب تک اسے (ایس ٹی 13 کو) گمشدگی سے تعبیر کریں گے جب تک غیر قانونی شکار کا کوئی ثبوت نہ ملا۔‘

شرما کے کا کہنا تھا کہ 15 جنوری کے بعد سے شیر کا کوئی نام و نشان نہیں اور نہ ہی لاش دفن کیے جانے کا کوئی ثبوت ہے جیسا کہ خط میں دعوے کیے گئے۔

 ان کے بقول: ’ہم مجوزہ علاقے گئے لیکن (مقامی لوگوں سے) تین سے چار دن کی پوچھ گچھ کے باوجود کچھ نہیں ملا۔‘

انہوں نے دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہا: ’اس معاملے کے پس پردہ سرواس کے جس شخص کا نام لیا جا رہا تھا اس سے جانچ پرکھ کی گئی۔ اس کا ایک وسیع زرعی فارم ہے۔ شیر کوئی چھوٹا سا جانور نہیں، اسے ٹھکانے لگانے کے لیے ایک سے زیادہ لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ارد گرد کے لوگوں اور مقامی افراد کے لیے ناممکن ہے کہ اس طرح کوئی فعل خاموشی سے ان کی نظروں سے چھپ کر سرزد ہو جائے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ ایس ٹی 13 غیرقانونی شکار کے بجائے حادثاتی موت کا بھی شکار ہو سکتا ہے تو انہوں نے کہا ایسا ’ممکن‘ ہے۔ ’ریزرو کی طرف جانے والی سڑک شیروں کے گھومنے کے لیے میسر ہوتی ہے۔ اس کی موت  سڑک حادثے میں یا پھسل کر کنویں میں گرنے سے ہو سکتی ہے، کچھ بھی ممکن ہے۔‘

ان کے بقول ایسی صورت میں یہ سوچنا غلط ہے کہ حکام کو شیر کی لاش مل جائے گی۔ ان کے بقول: ’آپ کو لگتا ہے کہ میں 12 سو مربع کلومیٹر کے علاقے میں شیر کی مردہ باقیات تلاش کرنے کے قابل ہو جاؤں گا؟ آپ اسے نہیں ڈھونڈ سکتے ہیں۔‘

شرما کہتے ہیں: ’یہ فطری خصوصیات کی حامل وسیع لینڈ سکیپ ہے۔ اگر یہ قدرتی موت ہے اور شیر جانتا ہے کہ اس کا آخری وقت آ پہنچا تو وہ اپنے آخری ایام کسی غار یا محفوظ مقام پر گزارتا ہے تاکہ سکون کی موت مرے۔ آپ کے خیال کے مطابق ان قدرتی موت مرنے والوں میں کتنوں کی لاشیں برآمد ہوتی ہیں؟ ایک فیصد بھی نہیں۔

 ایس ٹی 13 کو ’گمشدہ‘ لکھنا یا قدرتی وجوہات کی بنا پر اسے مردہ قیاس کرنا ایک ایسا نتیجہ ہے جو راجپوت جیسے گائیڈوں کے لیے ہضم کرنا مشکل ہے جو شیر کو اس کے عروج کے دنوں سے ایک شاندار جانور کے طور پر جانتے تھے جسے بہت کم کسی خطرے یا علاقائی تنازع کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ 

راجپوت پوچھتے ہیں: ’راتوں رات ایک شیر غائب ہو گیا اور حکام نے یہ معمہ حل کرنے کے لیے فوری اقدامات نہیں اٹھائے۔ کیا اس سے شکاریوں کی حوصلہ افزائی نہیں ہو گی؟ کیوں کہ عملی طور پر ہمارے شیروں کے غائب ہونے کی کوئی اور وجہ نہیں ہے۔‘

مقامی آبادی کو خدشہ ہے کہ غیر قانونی شکار کو سارسکا میں دوبارہ پنپنے کا موقع دیا گیا تو سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے، جو 18 سال قبل یہاں شیروں کے خاتمے کی بنیادی وجہ تھی۔ لیکن مزید انسانی مداخلت کے بغیر بھی ایس ٹی 13 کی گمشدگی نے یہاں شیروں کی آبادی کو ایک غیر یقینی صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔

ریزرو میں اب محض تین بالغ نر رہ گئے ہیں جن میں سے کوئی بھی ابھی تک پیچھے رہ جانے والے خلا کو اپنی طاقت سے پُر نہیں کر سکا۔

ایس ٹی 13 کی غصیلی دھاڑ اب اس کے وسیع علاقے میں شاید کبھی سنائی نہ دے لیکن جنگل کے اندر بے اطمینانی کی آوازیں مزید بلند ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا