مصر کے تیرتے ہوئے ورثے کو انہدام کا خطرہ درپیش

مصر کے دارالحکومت قاہرہ کا تیرتا ہوا ورثہ یعنی دریائے نیل کی سطح پر تیرتی رہائشی کشتیاں یا ہاؤس بوٹس بڑے بڑے منصوبوں کے پیش نظر خطرے سے دوچار ہو گیا ہے۔

دریائے نیل میں مصر کے تیرتے ہوئے ورثے یعنی کشتی گھروں یا ہاؤس بوٹس کو انہدام کا خطرہ درپیش ہے کیوں کہ انتظامیہ نے ان کے لیے سالانہ پارکنگ فیس میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دل آویز رنگوں سے مزین درجنوں تیرتے ہوئے مکان دہائیوں دریائے نیل کے کناروں پر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ مصری دارالحکومت کی چہل پہل سے دور تنہائی کا پرسکون گوشہ فراہم کرتے ہیں۔ لیکن جلد ہی سب کچھ بدلنے والا ہے۔ 30 کے لگ بھگ ہاؤس بوٹس کے مکینوں کو گذشتہ جگہ چھوڑنے کا حکم ملا ہے۔ انہیں دو ہفتے سے بھی کم وقت ملا جس کے بعد ان کے گھروں کو دور لے جا کر توڑ دیا جائے گا۔

معروف مصری نژاد برطانوی خاتون ناول نگار اهداف سويف نے اے ایف پی کو بتایا کہ’یہ ہاؤس بوٹ خریدنا میرا خواب تھا۔ میں نے پوتے پوتیوں اور اپنے آخری دن گزارنے کے لیے اسے آراستہ کیا۔‘

کشتیاں طویل عرصے سے مصر کے اجتماعی سوچ میں خصوصی مقام کی مالک ہیں۔ یہ کشتیاں نوبل انعام یافتہ ناول نگار نجیب محفوظ کے ناول’چِٹ چیٹ آن دا نائل‘میں کرداروں کے درمیان گفتگو کا محور ہیں۔ اس کے ساتھ مصری سینیما کے سنہری دور کی مختلف کلاسیکی فلمز میں بھی یہ بہت نمایاں ہیں۔

ان حالات میں کہ جب بہت سے لوگوں نے تاریخی اہمیت کے پیش نظر ہاؤس بوٹس کے تحفظ کی مہم چلا رکھی ہے، حکام کا کہنا ہے کہ وہ ریاست کے بڑے ترقیاتی منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔

ہاؤس بوٹوس کے موجودہ مکینوں کو رہنے کے لیے کسی متبادل جگہ یا معاوضے کی پیشکش بھی نہیں کی گئی۔ ان دوسرے لوگوں کے برعکس جنہیں اس سے پہلے بے دخلی کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے لوگوں کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

منار 35 سالہ انجینیئر ہیں۔ انہوں نے جمع پونجی خرچ کر کے چار سال پہلے ہاؤس بوٹ خریدی۔ اب ان کے لیے اس کشتی کو چھوڑنا تباہ کن دھچکا ہے۔ اپنے پورا نام بتانے سے گریز کرنے والے منار کے بقول: ’میں نے اپنا اپارٹمنٹ بیچا۔ میرے والد نے کار فروخت کی اور میں والدین کو ریٹائرمنٹ پر ملنے والے رقم کا استعمال کیا۔‘

’کچی آبادیوں کے مکینوں کو رہائش کے لیے متبادل جگہ فراہم کر دی گئی ہے۔ حتیٰ کہ حکومت نے قبرستان سے گزرنے والی سڑک بنانے کے لیے قبریں بھی مسمار کر دیں لیکن ہمارے کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘

بے دخلی کے حکم کے بمشکل ایک ہفتہ بعد کچھ کشتیاں پہلے سے ہی لے جا کر بند کر دی گئی ہیں۔ حالاں کہ حکومت سے اپیلیں کی گئیں اور مہم چلائی گئی حتیٰ کہ حکومت کے حامی ٹیلی ویژن کے بڑوں نے بھی ایسا نہ کرنے کے لیے زور دیا۔

زمالک کے امیرجزیرے کے سامنے اور امبابا کے محنت کش طبقے کے محلے کے کنارے پر دھاتی تختوں پر قائم یہ تیری رہائشی گاہیں جلد ہی ماضی کا قصہ بن جائیں گی۔

ہاؤس بوٹس کو ختم کرنے کا پہلا نوٹس 2020 میں دیا گیا جب قاہرہ کے گورنر نے ان کشتیوں کو کھڑا کرنے کا اجازت نامہ معطل کر دیا گیا۔ قاہرہ میں دریائے نیل کے تحفظ کے لیے ریاست سے منسلک مرکزی انتظامیہ کے سربراہ ایمن انور کہتے ہیں ہاؤس بوٹس کے مکینوں کو واضح وارننگ دی گئی تھی۔

ایک ٹاک شو میں گفتگو کے دوران انور کے بقول: ’2020 میں کشتیوں کے رہائش کے لیے استعمال پر پابندی لگا دی گئی تھی کیوں کہ یہ بڑا غیر مہذب منظر پیش کرتی اور دریائے نیل کو آلودہ کرتی ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی