’گلی گرل‘: ممبئی کی کچی آبادی میں رہنے والی باحجاب ریپر

ممبئی کی کچی آبادی میں رہنے والی ثانیہ مستری اپنے گانوں کے ذریعے سماجی مسائل کو اجاگر کرتی ہیں۔

ثانیہ مستری ہپ ہاپ موسیقی کی دنیا میں اپنی شناخت بنانا چاہتی ہیں (سکرین گریب/ انڈپینڈنٹ اردو)

بھارت کے جنوبی شہر ممبئی کی کچی آبادی شیواجی نگر میں پلنے بڑھنے والی ریپر ثانیہ مستری دنیا کو اپنی آواز کے جادو سے مسحور کر رہی ہیں۔

'گلی گرل' کے نام سے مشہور 17 سالہ ثانیہ حجاب کے ساتھ مغربی انداز میں ریپ گاتی ہیں۔

انہوں نے 10 برس کی عمر سے اپنے جذبات کو شاعری کی شکل دینا شروع کی۔

ثانیہ کے بقول انہیں بچپن میں شاعری کا شوق تھا اور اس وقت انہیں ریپ موسیقی کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا۔

’جب میں آٹھویں جماعت میں تھی تب مجھے دوستوں نے ریپ موسیقی کے بارے میں بتایا کہ یہ ایک الگ طرح کا میوزک ہے جس میں ہم اپنی باتیں لوگوں کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔ میں نے یہاں کی گلیوں میں ہی اپنے دوستوں سے ریپ میوزک سیکھا۔‘

گونڈی کی گلیوں میں پلی بڑھی ثانیہ اپنی منفرد گلوکاری کے ذریعے علاقے کے سماجی مسائل کو دنیا کے سامنے لانا چاہتی ہیں۔

’میں ان مسائل کے بارے میں لکھتی ہوں جو میرے لیے سب سے اہم ہیں۔ میں نے جو پہلا ریپ گانا لکھا وہ بھی ایک سماجی مسئلے سے متعلق تھا۔ گونڈی کی کچی آبادی کے بارے میں لکھا کہ یہاں کے لوگ کیا سوچتے ہیں، چیزیں ہم پر کیسے اثر انداز ہوتی ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں چھوٹی تھی تب سے مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ یہاں لڑکیوں کو اپنی مرضی کے مطابق کچھ کرنے کی آزادی نہیں، چاہے وہ تعلیم ہو یا شادی۔ میں نے اسی وقت ارادہ کر لیا کہ مجھے ان کی آواز بننا ہے۔‘

ثانیہ کے مطابق ’ہمارا تعلق ایک کچی آبادی سے ہے اور یہاں پر جب کوئی کچھ کرتا ہے تو پہلے سوال کیے جاتے ہیں کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ ضرورت کیا ہے یہ سب کچھ کرنے کی؟ اس سے کیا ملے گا؟‘

ثانیہ حجاب میں خود کو پرسکون اور محفوظ تصور کرتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ کہتی ہیں ’مجھے گھر سے اجازت ملی تھی کہ اگر ریپ میوزک کرنا ہے تو حجاب میں رہنا ہوگا۔ مجھے اس میں کوئی اعتراض نہیں تھا کیوں کہ میں جو چاہتی تھی وہ مجھے مل رہا ہے۔‘

ثانیہ کے اب تک درجنوں گانے ریلیز ہو چکے ہیں۔ انہوں نے بھارت کے مشہور رئیلٹی شو ’ہنرباز‘ میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔

’میں نے پیسہ کمانے یا شہرت پانے کے لیے ریپ موسیقی کا انتخاب نہیں کیا بلکہ میں سماج میں تبدیلی چاہتی ہوں۔ اپنے علاقے کے لیے رول ماڈل بننا چاہتی ہوں اور دکھانا چاہتی ہوں کہ ہم لڑکیاں کیا کر سکتی ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کہاں سے ہیں، کون ہیں اور ہماری جنس کیا ہے۔‘

ثانیہ کا تعلق انتہائی غریب خاندان سے ہے۔ ان کے والد رکشہ ڈائیور ہیں جبکہ والدہ گھریلو خاتون ہیں۔

جب انہوں نے ریپ میوزک شروع کیا تو ان کے پاس فون تک نہیں تھا۔ وہ اپنے دوستوں کی مدد سے ویڈیوز ریکارڈ کرتی تھیں۔

لیکن لوگوں نے کچھ عرصے بعد ان کی صلاحیتوں کو پہچان لیا اور سب تعریفوں کے پل باندھنے لگے۔

ثانیہ ہپ ہاپ موسیقی کی دنیا میں اپنی شناخت بنانا چاہتی ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ انہیں ان کے نام اور کام سے جانا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی موسیقی