پشاور چڑیا گھر:جانور جھولوں سے’پریشان‘، عدالتی حکم پر تعمیل کیوں نہیں؟

پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کا سول سوسائٹی کے افراد نے خیر مقدم کیا ہے، تاہم چڑیا گھر کے ٹھیکے دار کے مطابق جانور ان جھولوں کی وجہ سے بیمار یا ہلاک نہیں ہوئے۔

 2020 میں سول سوسائٹی کے 24 ارکان نے پشاور چڑیا گھر کے جانوروں کی ہلاکتوں پر خدشہ ظاہر کرتے ہوئے عدالت میں رٹ پیٹیشن دائر کی تھی (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو/ انیلا خالد)

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قیصر رشید نے پشاور چڑیا گھر کی انتظامیہ کو حکم دے رکھا ہے کہ امیوزمنٹ پارک میں موجود جھولوں کو ہٹایا جائے کیونکہ ان کی وجہ سے جانور پریشان ہوتے ہیں، تاہم چڑیا گھر کے ٹھیکے دار کے مطابق جانور ان جھولوں کی وجہ سے بیمار یا ہلاک نہیں ہوئے۔

چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ چڑیا گھر کے جانوروں کی ذہنی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے سنایا ہے۔ رواں ہفتے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’جانور پہلے ہی قید میں ہیں، انہیں جھولوں کے شور سے مزید پریشان نہیں کرنا چاہیے۔‘

ان کے اس فیصلے کا سول سوسائٹی کے افراد نے خیر مقدم کیا ہے۔

2020 میں سول سوسائٹی کے 24 ارکان نے پشاور چڑیا گھر کے جانوروں کی ہلاکتوں پر خدشہ ظاہر کرتے ہوئے عدالت میں رٹ پیٹیشن دائر کی تھی۔

جس کے بعد عدالت نے درخواست گزاروں کے وکیل علی گوہر درانی کو چڑیا گھر کا دورہ کرنے اور وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر ایک رپورٹ جمع کروانے کے احکامات صادر کیے تھے۔

علی درانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چڑیا گھر کا دورہ کرتے وقت ان کے مشاہدے میں آیا کہ وہاں بچوں کے امیوزمنٹ پارک میں لگے جھولے، جو انجن کو ایکسیلیٹر دے کر چلائے جاتے ہیں، اس قدر شور کرتے ہیں کہ اس سے جانور بدک جاتے ہیں اور مسلسل بے قرار رہتے ہیں۔‘

علی درانی نے کہا: ’راولپنڈی، اسلام آباد، پشاور، سوات کے مختلف علاقوں کے پٹیشنرز نے ابتدائی طور پر پشاور چڑیا گھر میں جانوروں کی ہلاکتوں کے بعد ان کے لیے بین الاقوامی معیار کے رہنما اصول وضع کرنے کے لیے رٹ پٹیشن دائر کی تھی، لیکن جب میں نے وہاں کا دورہ کیا تو دیگر تجاویز میں امیوزمنٹ پارک کو ہٹانے کی استدعا بھی کی۔‘

 مارچ 2022 میں چیف جسٹس قیصر رشید نے درخواست گزاروں کے ان بیانات کی روشنی میں چڑیا گھر کے جانوروں کے مفاد میں فیصلہ سنایا۔

1: امیوزمنٹ پارک کو فوری طور پر چڑیا گھر سے ختم کیا جائے۔ ایک پی ایچ ڈی ایتھولوجسٹ کو مقرر کیا جائے۔ چڑیا گھر کے عملے کو قومی اور بین الاقوامی اداروں سے وقتاً فوقتاً تربیت دلوائی جائے۔ علاوہ ازیں ویٹرینری عملہ بھی اعلیٰ کوالیفائیڈ ہو۔ ایک جدید لیبارٹری اور اینیمل ریسکیو سینٹر بھی لازماً چڑیا گھر کے اندر ہونے چاہییں۔

2: پشاور چڑیا گھر کی انتظامیہ کو بین الاقوامی رہنما اصولوں کی پیروی کرنی چاہیے، مزید برآں انہیں ایسے شہریوں کو اپنے ساتھ شامل کرنا چاہیے، جو جانوروں کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں اور ان میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عدالتی فیصلے کے حوالے سے ولایت نامی ٹھیکے دار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جانوروں کی ہلاکتوں کا سارا ملبہ ان پر آگیا ہے، جبکہ اس کے ذمہ دار دوسرے لوگ اور عوامل تھے۔‘

انہوں نے کہا: ’نیلامی جیتنے کے بعد حکومت کی اجازت کے بعد وہ تقریباً چھ کروڑ کی لاگت سے پارک کے لیے پائیریٹ بوٹس اور ٹرین خرید کرلائے۔‘

ان کے مطابق: ’تمام سامان پاکستان کے مختلف شہروں سے منگوایا گیا۔ چڑیا گھر میں پارک کے لیے ملنے والی جگہ سطح زمین سے کافی نیچے تھی، اس پر بہت سارا پیسہ لگایا۔ اب میں کہاں جاؤں۔ یہ سامان مجھ سے کون خریدے گا۔‘

ولایت کے مطابق انہوں نے درخواست کی ہے کہ یا تو انہیں اپنے معاہدے کا وقت پورا کرنے دیا جائے، جو ایک سال بعد پورا ہوگا، یا انہیں چڑیا گھر سے ملحقہ کوئی جگہ دی جائے۔

ولایت حسین کا کہنا ہے کہ ’ایک اعتراض بچوں کی ٹرین پر بھی ہے، ایسی ٹرین تو لاہور کے چڑیا گھر میں بھی ہے، وہاں بھی پارک ہے، لیکن وہاں کے جانور تو نہیں مرے۔ دراصل یہاں وجہ کچھ اور ہے، جس کا تفصیلی جائزہ نہیں لیا گیا ہے۔‘

دوسری جانب پشاور چڑیا گھر کی انتظامی عہدیدار حسینہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے ٹینڈر دیتے وقت واضح الفاظ میں کہا تھا کہ صرف مکینیکل جھولے لگائے جائیں گے۔

بقول حسینہ: ’ٹھیکے دار نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور انجن والے بوٹس لے آیا۔ اب وہ بہانے بہانے سے وقت ضائع کررہے ہیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسے کماسکے۔‘

 ٹھیکے دار ولایت کے وکیل تیمورعلی شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چڑیا گھر کی انتظامیہ سے بھی بازپرس ہونی چاہیے کہ جانور کیوں ہلاک ہوتے ہیں۔‘

’چڑیا گھر کی انتظامیہ ٹھیکے دار سے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ رقم لیتی تھی اسی لیے وہ عدالت کا فیصلہ آنے تک خاموش رہی، ورنہ انہیں کیوں معلوم نہ ہوسکا کہ یہ جھولے کس نوعیت کے ہیں۔‘

 درخواست گزار اور وکیل علی گوہر درانی نے عدالت کے فیصلے پر ریمارکس دیتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ یہ فیصلہ گذشتہ سال سنایا جاچکا تھا، لیکن ٹھیکے دار ولایت حسین کئی نوٹسز کے باوجود جھولے نہیں ہٹا سکے تھے، تاہم انہوں نے کہا کہ اب ٹھیکے دار کے پاس دو ماہ کا وقت ہے، کہ وہ یہ جھولے ہٹا لیں۔

انہوں نے دوران گفتگو بتایا کہ اکثر جانوروں کے ہمدرد انہیں واپس اپنے مسکن بھیجنے کا آئیڈیا بھی پیش کرتے رہتے ہیں، تاہم انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے کا اختیار پاکستان کی کسی عدالت کے پاس نہیں ہے۔

’اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جانور دوسرے ممالک سے وہاں کے قوانین کے مطابق لائے جاتے ہیں، لہذا ان قوانین کے مطابق، ایک دفعہ جب جانوروں کو ان کے مسکن سے نکال لیا جائے تو انہیں دوبارہ واپس نہیں بھیجا جا سکتا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات