بلوچستان: لنگی پہننے کا رواج ختم ہونے لگا

نوجوان نسل نے لنگی یعنی پگڑی پہننا چھوڑ دی ہے اور اب یہ صرف بزرگ اور بڑی عمر کے لوگ ہی استعمال کرتے ہیں۔

پشتون اور بلوچ قبائل میں پگڑی پہننے کا رواج زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے، جو ابتدا میں لوگ جنگوں کے دوران سر کو ضرب سے بچانے اور موسمی حالات سے بچنے کے لیے استعمال کرتے تھے اور بعد میں یہ ایک رواج بن گیا۔

تاہم اب اس رواج کو جدت سے خطرہ لاحق ہے۔ نوجوان نسل نے لنگی یعنی پگڑی پہننا چھوڑ دی ہے اور اب یہ صرف بزرگ اور بڑی عمر کے لوگ ہی استعمال کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ کوئٹہ میں اس کی دکانیں بھی ختم ہو رہی ہیں۔

بچپن سے لنگی کی دکان میں کام کرنے والے سید لال محمد آغا بھی کہتے ہیں کہ اس کا رواج ختم ہو رہا ہے۔

لال محمد آغا نے بتایا کہ روایتی لنگی اور پگڑی اب معدومی کی طرف گامزن ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں پہلے اس کا رواج بہت تھا اور سب پہنتے تھے، مگر اب یہ صرف بڑی عمر کے قبائلی لوگ ہی پہنتے ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’شہر میں تو یہ بہت محدود ہوگیا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت لنگی پہننے والے 100 میں سے صرف 30 فیصد لوگ رہ گئے ہیں۔ وہ بھی بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے قبائلی ہیں۔‘

لال محمد نے بتایا کہ کوئٹہ سے شمال کی جانب جائیں تو قلعہ سیف اللہ، ژوب، لورالائی، پشین اور دوسرے علاقوں میں جو قبائلی لوگ ہیں، وہ پگڑی کا استعمال کرتے ہیں۔

اسی طرح بلوچ اکثریتی علاقوں میں بھی بڑی عمر کے قبائلیوں کے علاوہ دوسرے نوجوان اسے نہیں پہنتے۔

انہوں نے بتایا کہ جہاں اس کا رواج ختم ہو رہا ہے، وہیں اس کا کاروبار کرنے والے بھی کم ہوگئے ہیں۔ ’کسی زمانے میں کوئٹہ کے اس بازار میں صرف آپ کو لنگی فروخت کرنے والے نظر آتے تھے۔‘

لال محمد نے بتایا کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اس بازار میں صرف چار سے پانچ دکانیں رہ گئی ہیں۔ باقی سب نے دوسرا کاروبار شروع کردیا ہے۔

لال محمد کو بھی اپنی دکان چھوٹی کر کے اس میں ٹوپیاں رکھنی پڑیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ روایتی لنگی کی قیمتیں اب بھی زیادہ ہیں، ان میں کمی نہیں ہوئی ہے۔ ’ریشمی لنگی جو پہلے پانچ چھ ہزار سے لے کر آٹھ ہزار میں مل جاتی تھی، اب وہ 18 سے 20 ہزار روپے تک جا پہنچی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ لنگی کی قیمتوں میں اضافہ تو ہو رہا ہے، لیکن رواج کم ہونے کی وجہ سے خریدار کم ہوگئے ہیں۔

لنگیوں کی اقسام کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ لورالائی اور قلعہ سیف اللہ کے لوگ بڑی لنگی پہنتے ہیں، جو آٹھ سے نو ہزار روپے تک کی ہے۔ یہ خالص ریشم کی بنی ہوتی ہے، جسے پانی سے نہیں بلکہ پیٹرول اور مٹی کے تیل سے دھویا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ نوجوانوں نے اب لنگی کی بجائے ٹوپی پہننا شروع کر دی ہے، جسے وہ آن لائن فیس بک یا وٹس ایپ کے ذریعے فروخت کرتے ہیں۔ ’ہم تصویر اپ لوڈ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وٹس ایپ پر لوگ تصویر منگواتے ہیں اور پسند کرکے آرڈر دیتے ہیں۔‘

لال محمد نے بتایا کہ آرڈر دینے والا لورالائی، چمن یا چاہے جس علاقے میں ہو، ہم اسے یہاں سے بھیج دیتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان