گذشتہ برس انہی دنوں طالبان کے افغانستان پر دوبارہ قبضے کی خبریں دنیا بھر کے میڈیا سے نشر ہوئی تھیں۔ ہم نے ایسے لوگوں کے واقعات سنے اور پڑھے جو آنے والی اس ظالم حکومت سے بچ کر کہیں دور بھاگ جانا چاہتے تھے جس کی بیخ کنی کے لیے افغانستان نے پچھلے 20 سال ناقابل یقین حد تک سخت محنت کی تھی۔
ہنگامی ردعمل کے طور پر برطانوی حکومت نے پانچ سال کے دوران 20 ہزار سے زائد افغان مہاجرین کو لے جانے کا وعدہ کیا جس کا آغاز افغان شہریوں کی آبادکاری سکیم ACRS کے تحت رواں برس چھ جنوری کو پانچ ہزار افغانیوں کی سال کے اندر اندر آبادکاری سے ہوا۔ ACRS کے تحت آباد ہونے والے کسی بھی افغانی کو برطانیہ میں غیر معینہ مدت تک رہنے کی اجازت اور پانچ برس بعد برطانوی شہریت کی درخواست دینے کی اہلیت کا وعدہ کیا جاتا ہے۔
آنے والے دنوں میں اس سکیم نے خواتین، بچوں، اقلیتوں اور خاص طور پر طالبان کے خطرے سے دوچار افراد کو افغانستان سے نکالنے اور برطانیہ میں منتقل کرنے پر توجہ مرکوز رکھی۔
آبادکاری کونسل برائے مہاجرین کے سربراہ ڈنکن ویلز بتاتے ہیں کہ ’ابتدائی طور پر یہ بہت غیر منظم کوشش تھی کیونکہ سب کچھ آخری لمحات میں ہنگامی ردعمل کے طور پر کیا گیا تھا۔ لوگوں کے پاس پیسے تھے نہ ان کی شناخت کسی ترتیب میں تھی۔ واقعی ایسا تھا کہ لوگوں کے پاس کاغذ کے ٹکڑے تھے جن پر صرف ان کا نام لکھا ہوتا۔ فرد اور اس کے خاندان کی شناخت کے لیے شروع میں بہت محنت کرنا پڑی۔ کسی تیاری یا ادراک کے بغیر کہ برطانیہ میں زندگی کیسی ہے لوگوں کو افغانستان سے نکال کر ایک ہوٹل میں رکھا گیا۔ لوگوں کی اکثریت گہرے صدمے کا شکار تھی۔‘
افغان مہاجرین کے برطانیہ میں داخلے سے پیدا ہونے والی ابتدائی غیر منظم صورت حال کے بعد حکومت نے یہ بات یقینی بنانے کے لیے اقدامات کا آغاز کیا کہ فرار ہونے والے لوگوں کو وہ ملے جس کی انہیں ضرورت ہے۔ ویلز کہتے ہیں ’آہستہ آہستہ مگر یقینی طور پر سب کچھ حل ہو گیا۔ ڈی ڈبلیو پی (ڈیپارٹمنٹ فار ورک اینڈ پینشن) نے آگے بڑھ کر ہوم آفس کے ساتھ لوگوں کی شناخت کا تعین کیا، ہم نے یقینی بنایا کہ لوگ اپنی دستاویزات مکمل کریں، اگرچہ کچھ لوگ ابھی تک منتظر ہیں لیکن بالآخر بچوں کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ آہستہ آہستہ ہم یہاں تک پہنچ ہی گئے۔‘
اگرچہ افغان پناہ گزینوں کی مدد کے لیے پیش رفت ہوئی لیکن اب بھی لوگ ہوٹلوں میں بیٹھے انتظار کر رہے ہیں۔ ویلز اعتراف کرتے ہیں کہ ’میری آخری معلومات کے مطابق ابھی تک بھی 60 سے 70 ہوٹل اس کام کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ لوگ اتنے طویل عرصے تک ہوٹلوں میں رہیں گے۔ لوگوں کی ذہنی صحت واقعی متاثر ہو رہی ہے۔ کچھ ہوٹل دوسروں کی نسبت بہتر جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر شہر میں ایک ایسا ہوٹل ہے جہاں ہم اچھی طرح تعاون کر پا رہے اور وہاں لوگ کافی خوش نظر آتے ہیں۔ جبکہ کچھ ایسے الگ تھلگ ہوٹل ہیں جہاں مستقل سہولیات نہیں ہیں، کچھ لوگوں کو کوئی سہولت نہیں مل رہی اور اس طرح ایسے ہوٹلوں میں لوگ واقعی مشکل زندگی گزار رہے ہیں۔‘
چونکہ افغان پناہ گزینوں کی از سر نو آبادکاری کے لیے درکار رہائش کا کافی بندوست نہیں سو ہوٹلوں کا استعمال جاری ہے۔
خکلہ شہرزاد
خکلہ شہرزاد نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا ان کی زندگی ویسی ہو گی جیسی آج ہے۔ محض ایک سال پہلے وہ کابل میں بی بی سی کے ساتھ بطور صحافی کام کر رہی تھیں۔ صبح اپنے گھر سے نکلتیں، دن بھر میں دفتری کام اور پھر اپنی ماں، تین بہنوں اور شوہر کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے گھر لوٹ آتیں۔ تاہم جیسے ہی کابل پر طالبانی قبضے کے خطرے کی افواہیں گردش کرنے لگیں وہ گھبرا گئیں۔
26 سالہ خکلہ مجھے بتاتی ہیں کہ ’طالبان ہمیشہ میرے لیے خوف کا باعث رہے۔ لیکن ایک طویل عرصے تک ہم نے طالبان کو محض ٹی وی پر دیکھا، کابل کے اندر اپنی اصل حالت میں نہیں۔‘ 15 اگست 2021 کو جب طالبان کے نمائندے انتقال اقتدار کے لیے صدارتی محل پہنچے تو خکلہکو خبروں سے پتہ چلا کہ حالات سازگار نہیں۔ ’مجھے بتایا گیا کہ آج دفتر نہیں آؤ بلکہ گھر پر ہی قیام کرو۔‘
اب بھی طالبان کے دور حکومت میں افغانستان میں بین الاقوامی میڈیا کے ادارے کے ساتھ کام کرنے والے صحافی ناپسندیدہ سمجھے جاتے ہیں۔ خاص طور پر خکلہ جیسی خواتین صحافیوں کو مسلسل خطرے کا خدشہ اور سامنا رہتا ہے۔
ایک ماہ تک اپنے گھر میں روپوش رہنے کے بعد خکلہ کو بتایا گیا کہ انہیں بی بی سی کی طرف سے ویزے کی درخواست دینے اور کابل سے نکلنے میں مدد فراہم کی جائے گی۔ 25 ستمبر کو خکلہ اور ان کے شوہر کو پاکستان اور ایک ماہ بعد وہاں سے برطانیہ لے جایا گیا۔
اپنی ماں اور بہنوں کو یاد کرتے ہوئے خکلہ کہتی ہیں، ’اپنے خاندان کو الوداع کہنا بہت مشکل مرحلہ تھا۔ میں انہیں ایسے حالات میں چھوڑنے سے خوفزدہ تھی جہاں خواتین کے حقوق چھینے جا رہے ہیں۔ اب وہ وہاں تنہا ہیں۔‘
ہیتھرو ائیرپورٹ اترنے کے بعد خکلہ کو دس دن کے قرنطینہ کے لیے ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ وہ کہتی ہیں، ’میں خوش تھی کہ برطانیہ میں محفوظ ہوں لیکن مجھے افغانستان کے سیاہ دن بھی یاد آتے رہے۔‘ ان کے بقول ’ان دس دنوں مجھے شدید ذہنی دباؤ کا سامنا رہا۔ میں روزانہ نیند سے روتے ہوئے بیدار ہوتی تھی۔‘
قرنطینہ کا وقت ختم ہوتے ہی خکلہ کو ان کے شوہر اور افغانستان سے راہ فرار اختیار کرنے والے دوسرے افغان خاندانوں کے ساتھ کینٹ کے ایک ہوٹل منتقل کر دیا گیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’ہم ابھی بھی اس ہوٹل میں ہیں۔ آٹھ ماہ سے ہوٹل میں رہنا ہمارے لیے بہت بورنگ ہے۔ لیکن میں خود کو انگریزی کورسز اور ٹریننگ میں مصروف رکھتی ہوں۔ میں سیاسیات سے متعلق کسی کورس میں ماسٹرز کی ڈگری کرنا چاہتی ہوں اور دوبارہ میڈیا یا شاید انتظامی امور میں ملازمت کرنے کی خواہش مند ہوں۔ خکلہ کے شوہر بین الاقوامی تجارتی قانون میں اپنی ماسٹرز کی دوسری ڈگری جلد شروع کرنے کے لیے پرامید ہیں جبکہ سر دست وہ بطور ترجمان اپنے کام کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
چند ہفتوں میں خکلہ اپنے پہلے بچے کو جنم دینے والی ہیں، وہ جس طرح کے حالات سے گزریں ان میں یہ ایک پراذیت خوشی ہے۔ خکلہ کہتی ہیں، ’جب میری ماں نے میرے حمل کے بارے میں سنا تو وہ بہت خوش ہوئیں مگر پھر رونے لگیں۔ میں یہاں اکیلی ہوں اور مجھے بچوں کا کوئی تجربہ بھی نہیں، یہ میرے لیے مشکل مرحلہ ہے۔ میں کسی کے بغیر اپنے بچے کی دیکھ بھال کیسے کروں گی؟‘
اگرچہ خکلہ ہوٹل میں پیش کیے جانے والے کھانوں سے کافی مطمئن ہیں لیکن کبھی کبھار ان کے دل میں روایتی افغانی کھانوں کی اشتہا بیدار ہوتی ہے اور وہ مقامی دکانوں سے اپنی پسند کی چیزیں خریدنے کے لیے چلی جاتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خکلہ اپنے کورسز یا ٹریننگ سے فرصت کے اوقات افغانستان میں اپنے خاندان کے افراد سے بات چیت، بعض اوقات دن میں تین تین مرتبہ، اور ہوٹل میں دوسرے لوگوں سے دوستی گانٹھنے میں گزارتی ہیں۔ وہ مسکراتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’میرے اب بہت سے دوست ہیں۔ ان میں دو تین انگریز لڑکیاں بھی شامل ہیں جو ریسیپشن ڈیسک پر کام کرتی ہیں۔ یہ بہت اچھا ہے۔ میں ان سے اپنے مستقبل اور زندگی کے منصوبوں کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ میں تعلیم کیسے حاصل کر سکتی ہوں اور اپنی صلاحیتوں کو کیسے مانجھ سکتی ہوں۔‘
اگرچہ خکلہ جون میں اپنی برٹش ریزیڈنسی حاصل کر چکی ہیں تاہم انہیں اب بھی رہائش گاہ کا انتظار ہے، جب تک گھر نہیں ملتا ہوٹل کی چار دیواری ہی ان کا ٹھکانہ ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’ہم اس ہوٹل میں بہت سے افغان لوگوں کے ساتھ ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ہم افغانستان کی صورت حال کے بارے میں بات کرتے اور اپنی کہانیاں آپس میں شئیر کرتے ہیں۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے جب میں کسی گھر منتقل ہو گئی تو تنہا محسوس کروں گی۔‘
اگرچہ خکلہ ایک طرح سے غیر یقینی صورت حال میں انتظار کھینچ رہی ہیں لیکن ان کی ایسے ملک میں محفوظ زندگی گزارنے کی خوشی بیان سے باہر ہے جہاں وہ اپنے بچے کی پرورش اور بغیر خوف کام کاج کر سکتی ہیں۔
اگست 2021 سے ہزاروں قابل افغان مہاجرین برطانیہ میں داخل ہو چکے ہیں جو اپنی برادریوں میں ضم ہونے اور اپنی مہارتیں پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی کے برطانوی پروگرام کے سربراہ جینویو کیسٹن کہتی ہیں ’ہم نے ملازمتوں کے حصول کے لیے افغان کلائنٹس میں زبردست جذبہ دیکھا ہے، ہمارے ملازمتوں کے پروگرام میں 42 فیصد افغان امیدوار پہلے ہی کام حاصل کر چکے ہیں جس میں صحافت، ترجمانی، زراعت، ٹی وی پروڈکشن/ٹی وی پریزنٹیشن، تعلیم، استقبالیہ، اور گوداموں میں ملازمت شامل ہے۔‘
پھر بھی بہت سے لوگوں کو آبادکاری کے بعد ملازمتوں کے حصول میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ کیسٹن اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہتی ہیں ’مثال کے طور پر ایک سال پہلے پہنچنے والے یہاں ہمارے کچھ افغان کلائنٹس کو اپنے بائیو میٹرک رہائشی اجازت نامے حاصل کرنے میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑا جو ملازمت کی پیشکش قبول کرنے کے لیے لازمی ہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ برطانوی حکومت افغان مہاجرین کو زبان کے معاملے میں تعاون فراہم کرے تاکہ ان کے لیے برطانوی ملازمتوں میں بہتر مواقع اور سماجی زندگی میں بھرپور شرکت ممکن ہو سکے۔
محمد ناصر الدین
محمد ناصر الدین کو اپنی حاملہ بیوی اور دو بچوں کے ساتھ کابل کے ہوائی اڈے پر دو دن انتظار کرنا پڑا جس کے بعد انہیں 27 اگست کو فوجی طیارے کے ذریعے افغانستان سے نکالا گیا۔
اس وقت کو یاد کرتے ہوئے ناصر کہتے ہیں بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی۔ ہمیں ایک وقت میں چار پانچ گھنٹے کھڑا رہنا پڑا تھا جہاں ذرا سا ہلنے کی بھی گنجائش نہیں تھی۔ ہمارے پاس کھانے پینے کا کوئی سامان نہیں تھا۔ مجھے ائیرپورٹ پر طالبان نے مارا۔ یہ بہت سخت لمحات تھے۔ وہ بندوقیں چلا رہے تھے اور میری بیٹی چیخ رہی تھی ’گولی مت چلاؤ، گولی مت چلاؤ۔‘ وہ دو دن میرے زندگی کے بدترین باب تھے۔
ناصر کے وہاں سے فرار اختیار کرنے سے چند روز قبل جب طالبان نے کابل پر حملہ کیا تو وہ نیشنل کرائم ایجینسی NCA میں معمول کے مطابق لاجسٹک آفیسر کے طور پر اپنا کام کر رہے تھے۔
ناصر کے بقول ’مجھے ایک دوست کا فون آیا جس نے ہمیں بتایا کہ طالبان کابل شہر کے قریب ہیں اور لڑ رہے ہیں۔ بتدریج صورت حال مزید خراب ہوئی اور ہمارے دفتر میں سکیورٹی نے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے ہمیں فوری طور پر دفتر چھوڑنے کا کہا۔‘
اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان نے بہت سے قیدیوں کو رہا کیا جن میں سے بہت سے لوگ ناصر لودین کی سرگرمیوں سے آگاہ ہوں گے۔
ناصر تیزی سے اپنی بیوی اور بچوں کے پاس پہنچا جن میں سے ایک کی عمر سات اور دوسرے کی پانچ برس تھی۔ ناصر بتاتے ہیں ’اس کے بعد افراتفری شروع ہو گئی۔ میں نے سنا کہ لوگ فرار ہو رہے ہیں۔ سب ائیرپورٹ جا رہے تھے۔ کابل گہرے صدمے میں تھا۔‘
ناصر جانتے تھے کہ حقیقی کیس یا باقاعدہ ویزا کے بغیر انہیں وہاں سے باہر نکالنے کے لیے کسی کا تعاون ملنے کا امکان نہیں۔
اگرچہ ناصر نے برطانوی ویزا حاصل کرنے کے لیے آن لائن درخواست جمع کروا رکھی تھی لیکن انہیں یقین نہیں تھا کہ ویزا ملے گا۔ وہ کہتے ہیں، ’مجھے ہرگز گمان نہ تھا کہ ملک سے نکل پاؤں گا۔‘
ایک شام ناصر انٹرنیٹ استعمال کرنے اور اپنی درخواست دوبارہ جمع کروانے کے لیے اپنے دوست کے گھر گئے۔ ’ایک چوکی پر طالبان نے مجھے روکا۔ انہوں نے مجھ سے میرا موبائل لیا۔ میری تمام تفصیلات فون میں تھیں کیونکہ میں انہیں این سی اے کو بھیج رہا تھا۔ میں پکڑا گیا، مار پڑی، سڑک پر محض اس لیے گھسیٹا گیا کہ میری گاڑی میں انگریزی کی دستاویزات پڑی تھیں۔ گھر پہنچا تو گہرا خوف طاری تھا۔‘
اگلے دن ناصر کو ایک ای میل موصول ہو چکی تھی کہ وہ جلد از جلد ہوائی اڈے پر پہنچیں تاکہ اسے افغانستان سے باہر منتقل کیا جائے۔
27 اگست کو ہیتھرو ائیرپورٹ پہنچنے کے بعد ناصر اور ان کے خاندان کو کراؤن پلازہ ہوٹل میں قرنطینہ کے لیے چودہ دن ٹھہرایا گیا جس کے بعد وہ ساؤتھیمپٹن کے ہالیڈے اِن ایکسپرس ہوٹل منتقل کر دیے گئے۔ ناصر اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’اس ہوٹل میں میری بیوی کا خون بہنے لگا۔ ایمبولینس انہیں ہسپتال لے گئی اور ہمیں بتایا گیا کہ بچہ ضائع ہو گیا ہے۔ ان کا حمل چودہ ہفتوں کا تھا۔ مجھے لگتا ہے ایسا ائیرپورٹ پر ہمیں درپیش تناؤ کے سبب ہوا۔‘
اگرچہ بچے کو کھونا خاندان کے ان مصائب میں ایک اور اضافہ تھا جو پہلے ہی وہ جھیل رہے تھے لیکن ناصر کے لیے ساؤتھیمپٹن میں رہتے ہوئے بہت سے خوشی کے لمحات بھی آئے۔ وہ کہتے ہیں ’لوگ بہت دوستانہ تھے۔ مجھے بتایا گیا تھا کیونکہ میں مسلمان ہوں اس لیے برطانیہ میں لوگ مجھے پسند نہیں کریں گے۔ سو میں سوچ رہا تھا کہ لوگ ہم سے کھنچے کھنچے رہیں گے۔ یہ میرے لیے ایک گہری پریشانی تھی۔ لیکن جب میں یہاں آیا تو میں نے دیکھا کہ لوگوں کا رویہ بہت دوستانہ ہے۔ میں حیران رہ گیا۔‘
جب ناصر نے ہالیڈے اِن ایکسپرس چھوڑنے کی تیاری پکڑی تو انہیں لگا جیسے وہ ایک اور خاندان سے بچھڑ رہے ہوں۔ ’ہوٹل کے عملے، کونسل کے کارکنوں اور رضاکاروں پر مشتمل یہ لوگوں کی ایک زبردست ٹیم تھی۔ میں آج بھی ان میں سے کچھ لوگوں سے رابطے میں ہوں۔‘
ناصر اور ان کے اہل خانہ کو نومبر 2021 میں ہمپشائر کے ایک گھر منتقل کر دیا گیا جس پر ان کے خاص طور پر ایسے دوستوں کو بہت حیرت ہوئی جو دراصل لندن رہنا چاہتے تھے۔ ’میں نے ان سے کہا میں اپنا سب کچھ پیچھے افغانستان میں چھوڑ آیا ہوں۔ اب میں جب برطانیہ میں آ گیا ہوں تو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ میں کہاں رہتا ہوں میں اپنی زندگی دوبارہ صفر سے شروع کر رہا ہوں۔‘
وہ گھر پہنچے تو وہ روزمرہ ضرورت کی تمام بنیادی چیزیں پہلے سے موجود تھیں، شکر ہے یہ سب کچھ مہیا ہو گیا ورنہ پورے خاندان کے پاس تن پر پہنے ہوئے کپڑوں کے سوا کچھ نہ تھا۔
اب باقاعدہ رہائش پذیر اور یونیورسل کریڈٹ وصول کرنے والے ناصر اور ان کا خاندان اپنی زندگیوں کو از سر نو تشکیل دینے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ ان کی اہلیہ اور وہ دونوں دوستوں کا ایک مختصر حلقہ بنا چکے ہیں مگر ان کے بچوں کو زبان کی رکاوٹ کے سبب ہم آہنگ ہونے میں زیادہ وقت لگا۔ ’بعض اوقات وہ اس دعوے کے ساتھ گھر میں قدم رکھتے ہیں کہ دوبارہ سکول نہیں جانا چاہتے۔ لیکن سکول کا عملہ بہت شاندار رہا جنہوں نے میرے بچوں کی بہت مدد کی۔‘
اس کے دونوں بچے، خاص طور پر بیٹا، افغانستان میں جو کچھ دیکھ کر آئے اس کے اثرات سے خود کو نہیں نکال سکے۔ ’میرے بچے ابھی تک تکلیف میں ہیں۔ ایک دن ہم سکول جا رہے تھے اور بارش بہت تیز تھی۔ میں نے اپنی بیٹی کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اور بیٹے سے کہا کہ رکے نہیں بھاگے۔ لیکن کیا دیکھتا ہوں وہ رو رہا ہے اور اس نے پوچھا کہ کیا طالبان آ رہے ہیں۔‘
ایک اور موقع پر جب ناصر کے خاندان کے قریب ایک پارٹی میں آتش بازی کی جا رہی تھی تو اس کے بیٹے نے سوچا کہ طالبان فائرنگ کر رہے ہیں اور ابھی پولیس افسران آئیں گے۔ ’میں نے اس سے کہا وہ محفوظ ہے یہاں طالبان نہیں پہنچ سکتے۔ وہ صدمات بدترین چیزیں ہیں جن کا ہمیں سامنا کرنا پڑا۔ میں انہیں کبھی نہیں بھول سکتا۔‘
صدمے کے باوجود ناصر کے زیادہ تر لمحات اچھے گزرتے ’مجھے خود کو خوش رکھنا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں محفوظ اور جنگی حالات میں نہیں ہوں جیسے پیچھے افغانستان میں دوسرے لوگ ہیں۔ لیکن میں اپنے لیے ملازمت تلاش کرنا چاہتا ہوں۔
اگرچہ گذشتہ برس وسیع پیمانے پر خبروں کا حصہ بننے کے بعد افغانستان کو خاطر خواہ بین الاقوامی توجہ اور مدد ملی ہے لیکن لوگوں کو وہاں سے نکال کر ان کی زندگیاں محفوظ بنانے کا کام ابھی باقی ہے۔
کیسٹن کہتی ہیں ’حالیہ تصادم اور حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ 27 برسوں میں بدترین خشک سالی نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ معاشی تباہی سے خوراک کی قیمتوں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ اگر موجودہ انسانی بحران کی طرف دھیان نہ دیا گیا تو بیس سالہ جنگ کی نسبت یہ زیادہ اموات کا سبب بن سکتا ہے۔‘
کیسٹن افغان شہریوں کی آبادکاری سکیم کے قیام کا خیر مقدم کرتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اور آئی آر سی اس کے اجرا کے بارے میں فکرمند ہیں۔ کیسٹن کہتی ہیں ’اگرچہ برطانوی حکومت نے اگلے پانچ برس کے دوران ضرورت مند افغانیوں کے لیے 20 ہزار رہائش گاہوں کا وعدہ کیا ہے جن میں سے تقریباً 6 ہزار 500 رہائشی ٹھکانے پہلے سے برطانیہ میں موجود پناہ گزینوں کی طرف جانے والے ہیں، سو باقی ماندہ جگہیں اتنی بڑی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بہت کم ہیں۔‘
ابھی وہاں سے لوگوں کو نکالنے کی ضرورت ہے لیکن جو افغانی برطانیہ میں پہنچ چکے ہیں ان کی مدد اور تعاون کا موجودہ سلسلہ جاری رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ کیسٹن کہتی ہیں ’برطانیہ میں پہلے سے موجود افغان مہاجرین اور آئندہ مہینوں اور برسوں میں نئے آنے والوں سمیت تمام مہاجرین کے بروقت اور مناسب انضمام کے لیے برطانوی حکومت کو مستقل رہائش، زبان کے معاملے میں تعاون اور لیبر مارکیٹ تک رسائی فراہم کرنے کی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔ بائیو میٹرک رہائشی اجازت نامے افغان پناہ گزینوں کو جلد از جلد فراہم کیے جانے چاہئیں تاکہ نہ صرف وہ ملازمتوں کی پیش کش قبول کر سکیں بلکہ کرایے پر نجی رہائش گاہیں لینے اور ڈرائیونگ لائسنس کے حصول جیسے دیگر طریقوں سے اپنی نئی برادریوں میں جگہ بنا سکیں۔‘
عبدل
عبدل، جن کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے، کہتے ہیں ’میری زندگی آخر میں شدید اذیت ناک تھی۔ اور میری وجہ سے میرا پورا خاندان اذیت میں مبتلا تھا۔‘
جلد ہی 30 برس کے ہو جانے والے عبدل اس سے پہلے افغانستان میں برطانوی فوج کے ساتھ کام کر چکے تھے اور طالبان کے ملک پر قبضے کے بعد انہیں برطانیہ سے اپنے سابقہ تعلقات کے سبب ’خطوط، ڈراوے اور جان سے مار ڈالنے کی دھمکیاں‘ موصول ہوئیں۔ وہ جانتے تھے کہ انہیں اپنی حاملہ بیوی اور دو چھوٹے بچوں کی حفاظت کے لیے اپنے عزیز گھر سے بھاگنا پڑے گا۔ انہیں پہلے ہی برطانیہ آنے کی منظوری مل چکی تھی، وہ تیزی سے ہوائی اڈے کی جانب روانہ ہوئے تاکہ ایسے ملک سے جلد از جلد نکل سکیں جہاں ان کی زندگی خطرے کی زد میں تھی۔
اس وقت کو یاد کرتے ہوئے عبدل بتاتے ہیں ’میں اپنے خاندان سمیت 21 اگست کو ہوائی اڈے پر پہنچے میں کامیاب ہوا جہاں ہم دو راتیں اور تین دن رہے۔‘ انخلا کے بعد برطانیہ پہنچتے ہی عبدل کو مانچسٹر میں قرنطینہ کرنا پڑا اور پھر لندن کے ایک ہوٹل میں منتقل کر دیا گیا جہاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ دو ماہ تک رہے۔
وہ کہتے ہیں ’پہلے میرے لیے دن اور رات میں فرق کرنا ممکن نہ رہا تھا۔ ہم دن رات سوئے رہتے تھے۔‘
لندن میں ابتدائی دو ماہ خاص طور پر غیر یقینی صورتحال سے لتھڑے ہوئے تھے کیونکہ وہ اپنے خاندان کو یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے تھے کہ وہ کہاں جائیں گے۔ وہ کہتے ہیں ’ہماری آمد کے تین ہفتوں بعد ہوم آفس کا ایک اہلکار نمودار ہوا اور ہم نے سکون کا سانس لیا کہ کم از کم کوئی خبر گیری کرنے کے لیے تو آیا۔ لندن میں ہوٹل کے اندر پھنس کر رہ جانے والے بچے رو رہے تھے۔‘
عبدل کا کہنا ہے کہ جب خاندان نے ہوٹل کے ڈائننگ روم میں کھانا کھایا تو وہ اور ان کے بچے اکثر اپنی ثقافت سے بالکل الگ طرح کی چیز کرنے پر شرمندگی محسوس کرتے تھے۔
اکتوبر 2021 کے اختتام کے قریب عبدل کو بکنگھم میں ایک گھر دیا گیا اور انہیں امید تھی کہ گذشتہ چند مہینوں کی پراذیت صورتحال کے بعد یہ وہ آغاز ہو گا جس کی ان کے خاندان کو ضرورت تھی۔ عبدل کہتے ہیں ’لیکن وہاں کوئی کمیونٹی نہیں تھی۔ کوئی حلال دکان نہیں تھی۔ میرے لیے نماز پڑھنے کو مسجد نہ تھی۔‘
برطانیہ میں اپنے پہلے رمضان کے دوران عبدل نے دن میں اپنے خاندان کے ساتھ اکیلے ہی روزے رکھے لیکن غروب آفتاب کے وقت انہیں کھانے کے لیے روایتی افغانی کھانے نہیں ملے۔ خاندان کے دوسرے افراد، دوستوں اور جشن کے گمشدہ عناصر سے باخبر عبدل رمضان کے اختتام کو منانے کے لیے تنہا اپنے بچوں کو پارک لے گئے۔ ’ہمارے ساتھ جشن میں شریک ہونے والا کوئی نہیں تھا۔‘
عبدل کے بقول ان آٹھ ماہ کے دوران ان کا خاندان خود کو الگ تھلگ اور تنہا محسوس کرتا تھا۔ اگرچہ ہم تحفظ فراہم کیے جانے پر شکر گزار تھے لیکن اپنے خاندان کو نہ دیکھ سکنا جو ابھی تک افغانستان میں خطرات کا سامنا کر رہا ہے ایک سوگوار احساس تھا۔
’ہم نے اپنی جان بچا لی تھی لیکن اپنے خاندان کو پیچھے چھوڑ آئے۔ اگر میں نے غلط قدم اٹھایا ہے تو میرا خاندان میری وجہ سے خطرے کا شکار ہے۔ وہ کسی بھی وقت کسی بھی لمحے مارے جا سکتے ہیں۔ یہ خیالات ہر وقت ہمارے ذہنوں میں گردش کرتے رہتے۔‘
بکنگھم میں آٹھ ماہ گزارنے کے بعد عبدل کا ونڈسر میں گھر منظور ہو گیا جہاں وہ اور ان کا خاندان افغانی کھانوں، نماز کے لیے مسجد اور نشست و برخاست کے لیے ایک کمیونٹی تک رسائی حاصل کر سکتے تھے۔
تفریح کے لیے عبدل اپنے بچوں کو مقامی پارک میں لے جاتے ہیں، گھر سے باہر نکلنے کے لیے ایک ایسی سرگرمی جس پر کوئی لاگت نہیں۔ عبدل کہتے ہیں ’ابھی بل کافی زیادہ ہیں۔‘ وہ فی الحال یونیورسل کریڈٹ کا دعوی کر رہے ہیں مگر وہ آمدن اور معاشرے میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے کام کر سکنے کے خواہشمند ہیں۔ ’میں ایک گریجویٹ، پیشہ ور شخص ہوں، میں ملازمت حاصل کرنا پسند کروں گا۔‘
’اب یہ ہمارا گھر ہے اور ہم خود کو اس کے مطابق ڈھال کر کمیونٹی میں گھل مل جائیں گے۔‘
© The Independent