ہمارا 19واں پناہ گزین کیمپ اور آدمی کے ہزار روپ

کیا یہی وہ لوگ تھے جو اتنی دور ہمارے ملک جنگ کرنے آئے تھے اور وہاں ہزاروں لوگوں کی بلاوجہ جانیں لیں؟

امریکی نیشنل گارڈ کی ایک فوجی خاتون ایک افغان بچے کو پناہ گزین کیمپ میں خوش آمدید کہہ رہی ہے (اے ایف پی)

(ثروت نجیب افغانستان سے نقلِ مکانی کرکے امریکہ کے ایک پناہ گزین کیمپ میں مقیم ہیں، جہاں سے وہ افغانوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی روداد رقم کرتی ہی۔)

ہم ویلج سے اب فورٹ پکٹ کی عمارت میں منتقل ہو گئے ہیں۔ ویلج موبائل سلیپرز کی بستی تھی جہاں عارضی طور پہ جرمنی سے آئے پناہ گزینوں کو جگہ دی گئی تھی۔

آہستہ آہستہ جب فورٹ پکٹ کی عمارتوں میں رہنے والے افغان اپنے اپنے گھروں کو منتقل ہونے لگے تو سیلپیرز بستی کے رہائشیوں کو عمارتوں میں منتقل کر دیا گیا۔ لکڑی سے مزین خوبصورت ہَٹ سلیپیرز کی نسبت کہیں ذیادہ آرام دہ اور کشادہ ہیں۔ یہاں کے اٹیچ باتھ روم اور شاور بھی قدرے بہتر ہیں۔

ہمارے کمرے میں کئی الماریاں، سٹور روم اور نیشنل گارڈ کے عسکری صندوق سمیت دو کھڑکیاں بھی ہیں، جہاں سے باہر کا نظارہ دلفریب منظر پیش کرتا ہے۔ حساب کتاب کرنے لگوں تو یہ کوئی انیسواں کیمپ ہو گا جو ہم نے قطر سے جرمنی اور جرمنی سے ورجینیا تک بدلا۔

فورٹ پکٹ دراصل نیشنل گارڈ کا ٹریننگ سنٹر ہے۔ نیشنل گارڈ یو ایس ملٹری کا ایک خاص حصہ ہے، جس کی چار سو سالہ تاریخ ہے۔ ان کا کام ملک کی اندرونی و بیرونی بدنظمی کو سنبھالنا ہے۔

عام لفظوں میں ملک کے اندر ناگہانی آفات، جلسے،جلوس، فسادات، شہری بدامنی، انتخابات میں تحفظ فراہم کرنا، وبا کی صورت مددگار بننے سمیت قانون کا نفاذ کرنا ہے۔ یعنی وہ تمام مسائل جو پولیس کے کنٹرول سے نکل جاتے ہیں وہاں نیشنل گارڈ کام آتی ہے۔ ملک سے باہر یہی نیشنل گارڈ میرین اور نیٹو افواج کے ساتھ دوسرے ممالک بھی جاتے ہیں۔

پہلی بار کیمپ میں چند نیشنل گارڈز کو روانی سے فارسی اور پشتو بولتے سن کر حیرت ہوئی بعد میں علم ہوا کہ وہ کئی سال افغانستان میں گزار چکے ہیں۔ افغانستان سے انخلا کرنے والوں کے لیے مختلف ریاستوں میں جو عارضی کیمپ لگائے گئے وہ سب نیشنل گارڈز کے ٹریننگ سنٹرز ہیں۔ ورجینیا کے فورٹ پکٹ میں دس ہزار سے زائد افغان پناہ گزینوں کو جگہ دی گئی۔

فورٹ پکٹ کی طرح دیگر ریاستوں میں بھی جہاں نیشنل گارڈ ٹریننگ سنٹرز میں افغان پناہ گزینوں کو جگہ دی گئی وہ سبھی ایک محدود مدت کے لیے ننھے منے افغانستان بن چکے تھے۔ یہاں میگا کچن میں کھانا سرو ہوتا جہاں کم و بیش تین ہزار سے زائد مہمانوں کو دو گھنٹوں میں کھانا فراہم کر دیا جاتا۔ افغان بچے ہر جگہ اودھم مچائے رکھتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عورتیں کبھی دھوپ میں بیٹھی مالٹے کھا رہی ہوتیں کہیں مرد تاش کھیلتے ملتے۔ تاش، موناپلی اور شطرنج بچے، بڑوں کو دی جاتی تاکہ دل بہلا سکیں۔ آخر میں عورتیں بھی تاش کھیلنے لگیں اور بچے انھیں سکھاتے کہ کس پتے کا کیا نام ہے۔

سبھی افغان مہاجرین کے لیے گو کٹھن وقت تھا مگر اس وقت میں جو اچھا تھا وہ تھا امریکن آرمی کا رویہ۔ مجال ہے کہ ماتھے پہ تیوری چڑھائی ہو کسی کو لفظ مہاجر کہہ کر بلایا ہو یا کسی بھی افغان کی ہتک کی ہو۔ ایسا وقت بھی آیا کہ میں نے خود دیکھا بچے کسی سپاہی کی ٹانگوں سے چمٹے ناک میں دم کر رہے ہیں۔ کوئی ان کے کان مروڑ رہا ہے، کہیں سولجر کے دونوں بازوؤں میں دو دو بچے جھول رہے ہیں۔

اور تو اور ایک بچہ فوجی کی ٹانگوں پہ لاتیں گھونسے مار مار کر یہ کہہ رہا تھا کہ میرے ساتھ فٹ بال کیوں نہیں کھیلتے اور وہ ہنس کر کہتا، ’اس وقت میں میں ڈیوٹی پہ ہوں۔‘

جب بچے نے اس کی ٹانگ پہ کاٹ لیا تو مجھے لگا اب یہ عسکری تھپٹر مارے نہ مارے جھڑکی تو ضرور دے گا مگر وہ پھر بھی ہنس کر بولا، یو آر سپر کریزی۔‘

اتنی برداشت تو ہمارے اندر بھی نہیں کہ بچوں کو سر پہ چڑھا دیں اور پھر اتارنا مشکل ہو جائے۔ کبھی کبھی تو میں امریکن میرین کے ملنسار چہروں کو دیکھ کر ورطہ حیرت میں چلی جاتی ہوں۔ سوچتی ہوں، کیا یہی وہ لوگ تھے جو اتنی دور ہمارے ملک جنگ کرنے آئے؟ کیا یہی وہ انسان تھے جنہوں نے وہاں ہزاروں لوگوں کی بلاوجہ جانیں لیں؟

ایک وقت ایسا بھی تھا جب افغانستان میں میرین کے فوجی کسی بھی بس پہ تلاشی کے لیے چڑھتے تو مسافر خوف سے ساکت ہو جایا کرتے، غلطی سے بھی کوئی ہاتھ پاؤں ہلا دیتا تو گولی سیدھی ان کے ماتھے کے وسط میں جا لگتی، اس بات کے قطع نظر کہ وہ بےگناہ تھا یا جنگجو۔ کسی کو قیدی بنا لیتے تو ایسا سلوک کرتے کہ دوزخ کے دروغے بھی پناہ مانگنے لگیں۔ جب ان کی بکتر بند کیموفلاژ گاڑیوں کے قافلے سڑکوں پہ حرکت کرتے تو کوسوں دور تک موبائل نیٹ ورک بند ہو جاتے۔

نائن الیون کے بعد افغانستان میں ہر دن نائن الیون کے حادثے سے بدتر گزرا۔ میرین زمینی خدا کی طرح جس کی چاہے جان لے سکتے تھے جسے چاہے امان دے سکتے تھے۔ یہ تب بھی ڈیوٹی پہ تھے اور اب بھی ڈیوٹی پہ ہیں۔ حضرت انسان بھی کیا چیز ہے۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے انسان خدا کے ہاتھوں سے بنا الیوژن ازم کا ایک شاہکار ہے۔ اکثر ان بھولے بھالے باوردی چہروں میں ایک اور چہرہ دیکھ کر دیکھتی ہی رہ جاتی ہوں اور دماغ میں نظیر اکبر الہٰ آبادی کی نظم ایک فلم کی طرح دماغ میں چلنے لگتی ہے

حیراں ہوں یارو دیکھو تو کیا یہ سوانگ ہے
اور آدمی ہی چور ہے اور آپی تھانگ ہے
ہے چھینا جھپٹی اور بانگ تانگ ہے
دیکھا تو آدمی ہی یہاں مثل رانگ ہے
فولاد سے گڑھا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

یاں آدمی پہ جان کو وارے ہے آدمی
اور آدمی پہ تیغ کو مارے ہے آدمی
پگڑی بھی آدمی کی اتارے ہے آدمی
چلا کے آدمی کو پکارے ہے آدمی
اور سن کے دوڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر