بھوک کی فصل اور ہجرت کی پگڈنڈیاں

جنگ ایک ایسی چڑیل ہے جو انسانوں کو زندہ نگل لیتی ہے اور جو براہ راست اس کی خوراک بننے سے بچ جاتے ہیں ان کی ساری خوشیاں اور خوشحالی چاٹ کر کنارے لگ جاتی ہے۔

16  دسمبر 2021 کی اس تصویر میں امریکی ریاست  ورجینیا    کی کاؤنٹی نوٹووے  کے علاقے بلیک سٹون میں واقع فورٹ پکٹ کیمپ میں مقیم ایک افغان خاتون  عطیات میں ملنے  والے کپڑے دیکھ رہی ہیں (فائل فوٹو:  جون چیری/گیٹی امیجز/اے ایف پی)

ثروت نجیب گذشتہ برس افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد امریکہ چلی گئی تھیں اور وہاں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں مقیم ہیں۔


اُس دن کھِلی کھِلی دھوپ تھی۔ سرما کی دھوپ تو ویسے بھی تجوری میں رکھی سونے کی ڈلیوں جیسی ہوتی ہے، جسے دیکھ کر آنکھیں چمکنے لگتی ہیں۔ امریکہ میں ہم سامان کے بجائے سورج، چاند ستارے ہی تو ساتھ لائے ہیں جو ہمارے ساتھ چلتے چلتے امریکہ آ گئے۔

انہیں دیکھ کر ’کلی وال‘ والا احساس ہوتا ہے جو پردیس میں اچانک مل جاتا ہے۔ چمن میں بچھی لکڑی کی بینچ پہ بیٹھ کر مجھے لگتا ہے میں کسی ریلوے سٹیشن پہ بیٹھی ہوں۔ سورج کو ڈوبتے ابھرتے دیکھ کر میں خوش ہوتی ہوں کہ یہ کابل جا رہا ہے یا کابل سے آ رہا ہے۔ بھلے حقیقت اس ساری کہانی اور میرے خیالات کے بالکل برعکس ہی کیوں نہ ہو۔ ہر روز اس کی تھوڑی تھوڑی حدت سینکنے کا مطلب تھوڑا تھوڑا کابل اپنے اندر اتارنا۔ کچھ دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ دھوپ اپنی ہے مگر ہوائیں امریکی نکلیں۔ ایک دم ان کا موڈ بدل جاتا ہے پتہ بھی نہیں چلتا۔ دھوپ اور میں اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں۔

اس دن بھی یک دم تیز برفیلی ہواؤں نے مجھے چمن بدر کر دیا۔ میں اپنے سلیپر کی جانب جانے لگی تو مجھے ایک خاتون دکھائی دی جو اپنا کھانا پھینک رہی تھی۔ بہت عجیب لگا۔ اندر کا تجسس کلبلانے لگا کہ بالکل اَن پیک لنچ اس نے کوڑے میں کیوں پھینکا ہوگا۔ میں اس خاتون کے پاس گئی اور سلام کے بعد پوچھا کہ کیا ہوا طبعیت ٹھیک نہیں ہے کیا؟

وہ افسردہ تھی۔ جیسے صدیوں سے منتظر تھی کہ کوئی اُسے سنے۔ کہنے لگی: ’دو مہینے ہوگئے ہیں یہاں آئے ہوئے، ابھی تک گھر ملنے کی کوئی امید ہی نہیں ہے۔‘

میں نے کہا کہ ’جب سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہاں آ ہی گئے تو گزارہ کرو، گھر بھی مل ہی جائے گا۔ ٹینشن لینے سے صحت خراب ہوتی حالات ٹھیک نہیں ہوتے۔‘

گھر کا نام سنتے ہی آنسو اس کی آنکھوں سے رواں ہو گئے۔ میرا بازو پکڑ کر بولی: ’تمھیں کیا لگتا ہے مجھے گھر اس لیے چاہیے کہ میں آرام سے رہ سکوں؟ نہیں، میں اب بھی آرام سے ہوں۔ پکا پکایا ملتا ہے۔ سسرال میں تو 16 لوگوں کا کھانا خود پکاتی تھی۔ یہاں دھلے دھلائے کپڑے ملتے ہیں، وہاں روز ہاتھ سے کپڑے دھویا کرتی تھی۔ یہاں مفت کپڑے بھی مل گئے۔ ایک جوڑے میں کابل سے نکلی تھی۔ چپل تو ایئرپورٹ پہ ہی گھِس گئے تھے۔‘

اس نے پاؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’دیکھو، اب پاؤں میں جوگرز ہیں بالکل نئے۔ مگر سنو، کیا ہم یہاں خیراتیں کھانے آئے ہیں؟ آخر کب تک؟ کابل میں میری بھاوج حاملہ ہے اور بھائی کے پاس خوراک کے پیسے تک نہیں۔ ماں شوگر کی مریض ہے، خوراک تو چھوڑو وہ تو دوا بھی نہیں لے سکتے۔ بھائی کہتا ہے باسی روٹیاں سستی ملتی ہیں وہ نانبائی سے لاتا ہوں، چائے میں ڈبونے سے نرم ہو جاتی ہیں، وہی بچوں کو کھلاتا ہوں۔ کابل میں دو وقت کی روٹی پیدا کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ یہی حال میرے سسرال کا ہے۔ کابل بھوک سے مر رہا ہے اور ہم یہاں کوفتے کھا رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میرا دل پھٹنے لگا۔ میرا وجود سرد ہواؤں سے بے پروا ہو چکا تھا۔ میری آنکھیں اس کے چہرے پہ گڑی تھیں، جس کے تاثرات جلدی جلدی تبدیل ہو رہے تھے اور سبھی بھیانک حد تک افسردگی میں رچے بسے تھے۔ وہ کہہ رہی تھی: ’یہاں تو ہاتھ پاؤں بند ہیں، ہمیں گھر ملے گا تو کام دھندہ کریں گے، کچھ پیسہ وطن بھیجیں۔ یہی سوچ کر ہم گھر سے نکلے تھے کہ امریکہ جا کر اپنے گھر والوں کی مدد کر سکیں گے۔‘

میں نے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا: ’کہتی تو سچ ہو، ہم کابل سے ہزار غم ساتھ لائے ہیں۔‘

وہ بتا رہی تھی: ’میری ماں کہتی ہے کابل میں جو پہلے پیسہ دار لوگ جمعہ جمعرات کے دن خیر خیرات کیا کرتے تھے، اب وہ بھی نہیں کرتے۔ میں ہر جمعرات کو انتظار کرتی ہوں کہ شاید آج کوئی حلوہ بھیج دے گا۔ کہیں سے کھچڑی آ جائے گی۔ شاید کوئی شیر برنج بنائے مگر پتہ نہیں وہ لوگ کہاں ہجرت کر گئے یا ان کے بھی ہاتھ تنگ ہو گئے ہیں۔‘

اس خاتون کا بھائی سقوط سے پہلے کسی کمپنی میں گارڈ تھا، اچھا گزارہ ہوتا تھا لیکن طالبان کی آمد کے بعد اس کی وردی اتر گئی۔ نوکری جاتی رہی۔ خوش قسمتی سے اس عورت کا شوہر امریکی کمپنی میں چپڑاسی تھا۔ وہ خود کپڑے سیا کرتی تھی، اچھا کھایا پیا کرتے۔ کبھی قرض کی نوبت نہ آئی۔ امریکیوں کا بھلا ہو کہ جاتے جاتے انہیں بھی پیچھے نہیں چھوڑا۔ یوں یہ اپنے بال بچوں سمیت امریکہ آ گئے۔

یہ انسانی خصلت ہے کہ ناگہانی حالت میں پہلے بندہ اپنی زندگی کے لیے ہاتھ پاؤں چلاتا ہے اور جب وہ کنارے لگ جاتا ہے تو اسے اپنے پیاروں کی فکر ہونے لگتی ہے۔ وہ بھی انہی فکروں میں غلطاں تھی۔ میں نے سوچا آخر کب تک بھوکی رہے گی۔ پیٹ بہت بےغیرت ہوتا ہے۔ سگے رشتے دار کی لاش سامنے پڑی ہوتی ہے اور پیٹ میں گُڑ گُڑ شروع ہو جاتی ہے۔ بندہ دفنا کر واپس آتے ہی دیگیں کھلنے لگ جاتی ہیں۔ یہ تو پھر ہجرت ہے۔ شام ہوتے ہی بھوک لگے گی تو کھانا کھا لے گی۔ ویسے بھی اس کے دل کا سارا بوجھ تو میں اٹھا کر ساتھ لے آئی۔

دھوپ ڈھل رہی تھی اور درد طلوع ہو رہا تھا، جس نے رات بھر مجھے سونے نہیں دیا۔ میں سوچنے لگی کہ افغانستان سے جتنے لوگ آئے اتنا ہی زرمبادلہ وطن واپس جائے گا۔ اتنی ہی خوشحالی کے امکانات روشن ہوں گے۔ اتنی ہی مفلسی کم ہو گی۔ امریکہ آنے والے ہر ایک افغان کے ساتھ کئی پیٹ لگے ہیں، جن کی کفالت نے انہیں ہجرت پہ مجبور کیا۔

جنگ ایک ایسی چڑیل ہے جو انسانوں کو زندہ نگل لیتی ہے اور جو براہ راست اس کی خوراک بننے سے بچ جاتے ہیں، ان کی ساری خوشیاں اور خوشحالی چاٹ کر کنارے لگ جاتی ہے۔

آج کل افغانستان کی جنگ زدہ دھرتی پہ بھوک کی فصل لہلہا رہی ہے اور ہجرت کی پگڈنڈیاں ہموار ہو رہی ہیں۔ حکمران اس عظیم فتح پہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ