افغانی نان اور کیموفلاج پیزا

مفتا تو بنی اسرائیل سے بھی ہضم نہیں ہوسکا تھا، انہوں نے بھی من و سلویٰ کی جگہ پیاز اور لہسن مانگے تھے جسے وہ خود اگا کر کھا سکیں۔ ہم کیسے ہضم کر سکتے ہیں؟ یہاں ہر کوئی اب اپنے گھر کا منتظر ہے، جہاں قرار ہو اور اس کا اپنا اختیار ہو۔

چار  نومبر 2021 کی اس تصویر میں  نیو میکسیکو کے ہولومن ایئر فورس بیس میں افغان مہاجرین کے کیمپ میں  حلال کھانا پیش کیا گیا ہے (فائل تصویر:  اے ایف پی)

گذشتہ برس اگست میں افغانستان سے ترک وطن کرنے والے ہزاروں افراد میں ثروت نجیب بھی شامل ہیں۔ وہ امریکی کیمپ سے انڈپینڈنٹ اردو کے لیے خصوصی تحریریں لکھ رہی ہیں۔


آج کل افغانستان کے حالات ایسے ہیں کہ وہاں جس کسی سے پوچھو: ’یک یک چند میشہ‘ (ایک اور ایک کتنے ہوتے ہیں) تو وہ جواب دیتا ہے: ’دو تا نان میشہ‘ (دو روٹیاں ہوتی ہیں)۔

وہاں مفلسی روٹیوں کو کھا گئی اور یہاں غریب الوطنی۔ پلاؤ، قیمہ، مچھلی، چکن، لوبیا، نخود، دال، سبزی، سوپ اور سلاد کے ساتھ ڈبل روٹی کے دو سلائس افغانوں کے لیے ایسے ہیں جیسے لومڑی نے سارس کو دعوت پر بلایا ہو اور پلیٹ میں کھانا پیش کر دیا ہو۔

افغان کہتے ہیں بندہ بھلے جتنی بار چاول کھا لے مگر پیٹ میں نان کی اپنی جگہ ہوتی ہے۔ وہی نان کیمپ میں ناپید ہے۔ عورتیں اب ترس گئی ہیں کہ کب گھر ملے گا اور وہ تھپا تھپ تھپا تھپ روٹیاں بنائیں گی۔

کابل تو نانبائیوں اور خبازوں کا شہر تھا۔ ہر دوسری گلی کے بعد نانبائی کی دکان پہ روٹی کا سائز اور ڈیزائن بدل جاتا ہے۔ گز بھر لمبے نان سے دو انچ موٹی روٹی اور روٹی سے روٹ تک کی اپنی لذت ہوا کرتی تھی۔ وہاں روٹیوں کی اتنی قسمیں تھیں جتنی امریکہ میں نسلیں ہیں۔

یہاں بڑے تو پھر پیٹ پہ تسلیوں کا پتھر باندھ لیتے ہیں مگر بچوں کو سمجھانا آسان نہیں۔ اپنے وطن میں ان کے اپنے چونچلے ہوا کرتے تھے۔ یہاں انہیں وہی کھانے کو ملتا ہے جو پکا ہوتا ہے۔ گھر کے ساتھ والے کھوکھے سے چوپڑی، چپس کے چسکے بند ہونے کی انہیں بھی ٹیشن ہے۔

ایک بار میرے پانچ سالہ بیٹے نے لنچ کے وقت کہا: ’مورے کتنا عرصہ ہوگیا تم نے نوڈلز بنا کر نہیں دیے۔‘ میں نے شوہر سے کہا یہ تو وہی والی بات ہوگئی کہ ایک شخص نے اپنے دوست کو ساری رات زلیخا کے عشق کی داستان سنائی جب صبح ہونے لگی تو دوست بولا :’زلیخا عورت تھی یا مرد؟‘

بڑے بیٹے نے کہا: ’بھائی ٹھیک کہتا ہے چار مہینوں سے آپ نے کچھ نہیں بنایا۔ مجھے تو ڈر ہے آپ کھانا بنانا بھول نہ گئی ہوں۔‘ ہائے مجھے تو وہ دن یاد آگئے جب دفتر سے نکلتے نکلتے پانچ بج جاتے اور کابل کی بے ہنگم ٹریفک میں پھنسے گھنٹہ دو اوپر ہو جاتے۔ جب میں تھکی ہوئی گھر لوٹتی تو مجھے ڈنر کی فکر ہونے لگتی۔ میرا دل چاہتا کہ میں چادر اوڑھ کر سو جاؤں اور کچن کہتا ابھی نہیں۔

 

اکثر میں سوچا کرتی: ’کاش خدا کوئی ایسا بندوبست کرے کہ رات کا کھانا پکا پکایا ہاتھ میں مل جایا کرے۔‘ اب میرا بیٹا جب پکا پکایا کھانا تھیلے بھر کر میرے ہاتھ پہ رکھتا ہے تو اپنی ادھوری دعاؤں پہ رونا آتا ہے۔ خدا سے گلہ کرتی ہوں کہ میں نے ’ایسا بھی نہیں کہا تھا۔‘

مگر جو ہوا سو ہوا۔ اب مجھے ایک عدد فرنش کچن درکار ہے، جہاں میں خود پکا سکوں، کھا سکوں، کھلا سکوں۔ میری پڑوسن فوجیوں سے پلاسٹک کی چھوٹی سی بالٹی لے آئی۔ وہ ناشتے میں ملنے والے دودھ کا دہی جماتی ہے۔ ایک دن اس نے مجھ سے پوچھا تھا کہ ’کھانے کے ڈبے میں کریم جیسی جو چیز تھی وہ کیا تھی؟‘ میں نے کہا: ’دہی۔‘ اس کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں: ’دہی ی ی ی؟ دہی تو ہم بناتے تھے گھر کی گائے کا دودھ اور اس پہ موٹی موٹی بالائی ہوا کرتی تھی۔ یہ کیسا بدذائقہ دہی تھا۔ میٹھا نہ تُرش۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میں نے کہا: ’شہروں میں ایسا دہی ملتا ہے۔ وہ بولی ڈبے کا دودھ بھی نمکین، ہماری گائے کا کیا میٹھا دودھ تھا۔ البتہ اسی دہی کو اس نے سنبھال لیا۔ جھاگ لگایا۔ آج کل پڑوسن کی برکت سے سارا اڑوس پڑوس اس کے جمائے دہی کی کٹوری کا منتظر ہوتا ہے۔ میں سوچتی ہوں گھر ملتے ہی وہ خالص دودھ کا بھی بندوبست کر ہی لے گی۔ جب وہ ڈبے والے دودھ میں سلاد کے ساتھ دیے گئے لیموں ڈال کر پنیر بنا سکتی ہے، سردیوں میں خالص دہی جما سکتی ہے تو وہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔

افغانستان سے نکلتے وقت جو لوگ پیسے ساتھ لائے وہ کھانا پسند نہ آنے پر ملٹری کینٹین سے پیزا اور سینڈوچ لے لیتے ہیں اور جو نہیں لائے وہ ان کے ہاتھ میں لٹکتے ہوئے تھیلے ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ملٹری کی کینٹین پر منہ کا ذائقہ نمکین کرنے کے لیے بہت کچھ مل جاتا ہے۔

ایک خاتون تو نیشل کا اچار 10 ڈالر میں خرید لائی اور اسے آٹھ بچوں سے بچا کر ایسی جگہ چھپا کر رکھا کہ پھر وہ خود ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔ اب تو ہفتے کے دن لنچ میں پنیر والا پیزا بھی ملنے لگا ہے۔ ہمارے بچے اسے دیکھ کر کہتے ہیں یہ ’کیسا پیزا ہے؟ اس میں تو گوشت ہی نہیں ہے،‘ اور گاؤں کے بچے اسے دیکھ کر کہتے ہیں: ’یہ کیسا نان ہے جس پہ کیچپ اور پنیر لگا ہوا ہے۔‘

لوگ پانی کی جگہ کوک اور فانٹا پیتے ہیں۔ چکوترے، پپیتے اور انناس کھاتے ہیں، کیک و کلچے اپنی جگہ مگر ان کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہونا نوالے کی جگہ حلق میں خنجر اتارنے جیسا ہے۔

مفتا تو بنی اسرائیل سے بھی ہضم نہیں ہو سکا تھا، انہوں نے بھی من و سلویٰ کی جگہ پیاز اور لہسن مانگے تھے جسے وہ خود اگا کر کھا سکیں۔ ہم کیسے ہضم کر سکتے ہیں؟ یہاں ہر کوئی اب اپنے گھر کا منتظر ہے، جہاں قرار ہو اور اس کا اپنا اختیار ہو۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ