مانسہرہ: رقاصہ قتل کیس کے فرار مرکزی ملزم کو عبوری ضمانت مل گئی

تھانہ سٹی مانسہرہ پولیس کے مطابق12 اگست کو درج ہونے والے مقدمے میں نامزد مرکزی ملزم ابرار حسین عرف بالا سمیت دو مزید ملزمان رحیم اور عامر کی تلاش جاری ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

دو مئی 2016 کی اس تصویر میں لاہور کی ایک ڈانس اکیڈمی میں ایک رقاصہ رقص کی تربیت حاصل کرتے ہوئے(اے ایف پی)

صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں ایک نجی تقریب میں قتل ہونے والی رقاصہ کے قتل کا مرکزی ملزم تاحال فرار ہے لیکن پولیس کے مطابق ملزم نے پشاور کے سیشن کورٹ سے عبوری ضمانت حاصل کر لی ہے۔

تھانہ سٹی مانسہرہ پولیس کے مطابق 12 اگست کو درج ہونے والے مقدمے میں نامزد مرکزی ملزم ابرار حسین عرف بالا سمیت دو مزید ملزمان رحیم اور عامر کی تلاش جاری ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

سٹیشن ہاؤس آفیسر(ایس ایچ او) تھانہ سٹی صداقت نثار خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مرکزی ملزم حاجی ابرار حسین ایک سیاستدان ہیں جن کا تعلق قومی وطن پارٹی سے ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایک ملزم اذآن جمشید اور ملزمہ معراج بی بی کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ ابرار حسین کے بیٹے اور گھریلو ملازم کو بھی گذشتہ رات گرفتار کرلیا گیا ہے۔‘

ایس ایچ او نے بتایا کہ ’یہ تقریب جمشید کے گھر ہوئی تھی۔ اس لیے ان سے پوچھ گچھ جاری ہے۔ جبکہ ملزمہ معراج بی بی رقاصہ ہیں جنہیں مقتولہ کرن نگینہ کے ساتھ رقص کی محفل میں مدعو کیا گیا تھا۔ معراج بی بی کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے جرم چھپانے کی کوشش کی تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 ایس ایچ او تھانہ سٹی کی مدعیت میں درج ہونے والی ایف آئی آر کی کاپی جو کہ انڈپینڈنٹ اردو کو بھی موصول ہوئی ہے، کے متن میں لکھا گیا ہے کہ ’11 اگست کی شام مانسہرہ میں اذآن محمد نامی ایک شخص کے گھر ابرار حسین کی فرمائش پر دو رقاصاؤں کو بلایا گیا، جنہوں نے شام سوا سات سے رقص کرنا شروع کیا۔ تقریباً رات گیارہ بجے کے قریب ابرار حسین جو کہ مسلح باڈی گارڈز کے ہمراہ آیا تھا، نے ڈانسر کرن کے ساتھ نازیبا حرکات کرنا شروع کیں، جس پر اس نے برا منایا۔‘

ایف آئی ار کے مطابق ’ابرار حسین کو ان کے دوستوں نے خاتون کو سبق سکھانے کا مشورہ دیا۔ جس کے بعد ابرار نے کلاشنکوف سے ڈانسر پر فائرنگ کی، جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئیں۔ ملزم نے دوستوں کی مدد سے خاتون کو اس کی سیڈان کار جو وہ خود ڈرائیو کرکے لائی تھیں، میں ڈال کر ان کی لاش چھپانے کی کوشش کی اور موقع سے فرار ہوئے۔ تاہم پولیس کو اطلاع مل گئی تھی اور ایس ایچ او کے ساتھ پولیس کی نفری جائے وقوعہ پر پہنچ گئی۔‘

ایف آئی آر میں ملزمان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کے دفعہ 302، 203،201، 202،148 اور 149 درج کیے گئے ہیں جو کہ قتل عمد، جرم چھپانے، جھوٹ بولنے اور مہلک ہتھیار ساتھ رکھنے کے خلاف قانونی دفعات ہیں۔

خیبر پختونخوا اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق ایف آئی آر کے مرکزی ملزم ابرار حسین پی کے 57 مانسہرہ فائیو سے رکن صوبائی اسمبلی رہے ہیں۔ ویب سائٹ کے مطابق ان کا تعلق قومی وطن پارٹی سے تھا۔

خاتون رقاصہ کون تھیں؟

خاتون رقاصہ جن کا نام کرن نگینہ بتایا جارہا ہے، سے متعلق پولیس اہلکار ساجد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کرن مانسہرہ کی ایک غیر معروف ڈانسر تھیں، جن کی عمر تقریباً 35 سال تھی۔ مقتولہ کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تھا۔ کرن نے مانسہرہ کے چڑیا دی ڈھکی میں ایک گھر کرائے پر حاصل کیا تھااور ایسا لگتا ہے کہ تنگ دستی کے ہاتھوں وہ اس پیشے کو اختیار کیے ہوئے تھیں۔‘

ساجد نے مزید بتایا کہ ’ملزمان نے ان کو قتل کرنے کے بعد رقاصہ کو ان کی گاڑی میں ڈال کر گاڑی ان کے گھر کے قریب لے جاکر چھوڑ دی تھی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان