پولیو کا وائرس دوبارہ نیویارک اور لندن کیسے پہنچا؟

نیویارک کی راک لینڈ کاؤنٹی میں، جو کہ ایک بڑی آرتھوڈوکس یہودی آبادی کا گڑھ ہے جسے ویکسین مخالف کارکنوں نے نشانہ بنایا، صرف 60 فیصد بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔

ایک چھوٹی لڑکی کو 12 اپریل 1955 کو نیویارک میں پولیو مائلیٹس کے خلاف ویکسین لگائی جا رہی ہے (اے ایف پی فائل فوٹو)

اس سال جون میں نیو یارک کی راک لینڈ کاؤنٹی میں ایک 20 سالہ شخص کو جنہیں حفاظتی ٹیکے نہیں لگائے گئے، بخار، پیٹ میں درد اور گردن کی اکڑن کی شکایت ہوئی۔ کچھ دنوں بعد انہیں اپنی ٹانگیں ہلانے میں مشکل ہونے لگی۔ انہیں قریبی ہسپتال لیجایا گیا، جہاں وہ تقریباً ایک دہائی میں امریکہ میں پولیو کا شکار ہونے والے پہلے شخص بن گئے۔

پولیو کو روکا جا سکتا ہے لیکن علاج نہیں کیا جا سکتا۔

امریکی میگزین دی نیو یارکر کا ایک رپورٹ میں کہنا ہے کہ چونکہ پولیو کے زیادہ تر شکار لوگ اپاہج نہیں ہوتے، اس لیے فالج کا ایک کیس بتاتا ہے کہ یہ وائرس پہلے سے زیادہ پھیل چکا ہے۔ صحت عامہ کے حکام کے مطابق اس سے سینکڑوں لوگ متاثر ہو سکتے ہیں اور یہ وائرس اب نیویارک شہر کے گندے پانی میں پھیل رہا ہے۔

قومی مرکز برائے حفاظتی ٹیکوں اور سانس کی بیماریوں کے ڈائریکٹر جوس آر رومیرو نے نامہ نگار درو خولر کو بتایا کہ ’میرے خیال میں یہ سمجھنا درست ہے کہ یہ کیس طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔‘ بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے مراکز اس صورت حال کو صحت عامہ کی ایمرجنسی قرار دیتے ہیں۔

تقریباً دس ہزار بیماریاں بنی نوع انسان کو متاثر کرتی ہیں، اور ہم ان میں سے صرف مٹھی بھر پر قابو پانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ یہ خاص طور پر افسوسناک ہے جب ہم چاہے جان بوجھ کر، غفلت میں یا نااہلی کی وجہ سے موجود مواقعے ضائع کرتے ہیں۔

نیویارک اکیلا نہیں ہے۔ افغانستان یا پاکستان میں پولیو کا کبھی خاتمہ نہیں ہوا اور اس سال کے شروع میں افریقہ کو اس سے پاک قرار دینے کے ایک سال سے زیادہ عرصے کے بعد اس وائرس نے ملاوی اور موزمبیق میں بچوں کو متاثر کر دیا ۔ یوکرین میں پچھلے سال میں کم از کم دو افراد کو پولیو نے متاثر کیا ہے، اسرائیل میں آٹھ کیسز کی موسم بہار میں اطلاع ملی۔

جون میں لندن کے سیوریج کے نمونوں میں وائرس کا پتہ چلنے کے بعد حکام نے ایک ’قومی سانحہ‘ قرار دیا اور شہر میں رہنے والے اور ایک سے نو سال کی عمر کے بچوں کو پولیو بوسٹر شاٹس دیں۔

جن لوگوں کو ویکسین لگائی جاتی ہے، ان کے لیے وائرس کا خطرہ کم ہو جاتا ہے: پولیو کے حفاظتی ٹیکوں کا ایک مکمل سلسلہ اس بیماری کے خلاف 99 فیصد سے زیادہ حفاظت دیتی ہے۔ امریکہ میں چونکہ 93 فیصد بچوں کو ٹیکے لگائے گئے ہیں – ہرڈ ایمونیٹی کی حد سے بہت اوپر - ہمیں بیسویں صدی کی خوفناک وبا جیسی کوئی چیز نظر نہیں آئے گی جس نے ہر سال ہزاروں امریکیوں کو اپاہج کر دیا تھا۔

پھر بھی امیونائزیشن کی کم شرح والی کمیونٹیز میں وائرس کافی حد تک نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ راک لینڈ کاؤنٹی میں، جو کہ ایک بڑی آرتھوڈوکس یہودی آبادی کا گڑھ ہے جسے ویکسین مخالف کارکنوں نے نشانہ بنایا، صرف 60 فیصد بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ کچھ علاقوں میں یہ تعداد بمشکل ایک تہائی ہے۔

(اگرچہ ہر ریاست کو سرکاری سکولوں میں جانے کے لیے پولیو کے قطرے پلانے ضروری ہوتے ہیں، لیکن بعض صورتوں میں والدین مذہبی یا ذاتی چھوٹ حاصل کر سکتے ہیں اور بہت سے لوگ اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے میں تاخیر کرتے ہیں جب تک کہ وہ کنڈرگارٹن شروع نہ کر دیں۔)

بدترین صورت میں یہ وبا ایک عارضی دھچکے سے زیادہ ہو سکتی ہے: وہ برسوں کی محنت سے جیتی گئی پیشرفت کو کمزور کر سکتی ہیں جس نے عالمی سطح پر وائرس کو تقریباً ختم کر دیا تھا۔ ایموری ویکسین سینٹر کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر والٹر اورینسٹائن نے بتایا کہ ’میں واقعی پریشان ہوں کہ ہم مزید کیسز دیکھیں گے۔ مجموعی طور پر ملک میں ویکسی نیشن کی بلند شرح سے ہمیں یقین دلایا نہیں جا سکتا، کیونکہ کم کوریج والی ذیلی آبادی ٹرانسمیشن کو برقرار رکھ سکتی ہے۔‘

پولیو وائرس متعدی ہے اور عام طور پر آلودہ خوراک یا پانی سے پھیلتا ہے۔ ایک بار انفیکشن ہونے کے بعد ایک شخص ایک ماہ سے زیادہ عرصے تک وائرس کو پھیلا سکتا ہے، چاہے ان میں بیماری کی کوئی علامات نہ بھی ہوں۔ وائرس بنیادی طور پر معدے میں رہتا ہے لیکن کبھی کبھار مرکزی اعصابی نظام کی طرف منتقل ہو جاتا ہے، جہاں یہ تباہ کن، کبھی کبھی مستقل نقصان پہنچا سکتا ہے۔

متاثرہ افراد میں سے پانچ فیصد تک گردن توڑ بخار، یا دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے گرد حفاظتی جھلیوں کی سوزش کا شکار ہوں گے۔ زیادہ سے زیادہ دو سو میں سے ایک کو عام طور پر ٹانگوں کا فالج ہو سکتا ہے، لیکن بعض اوقات وہ پٹھے جو ہمیں سانس لینے کی اجازت دیتے ہیں، جس کی وجہ سے سانس ٹوٹ جاتا ہے۔ (دنیا کے پہلے انتہائی نگہداشت والے یونٹ انیس سو پچاس میں پولیو کے علاج کے لیے تیار کیے گئے تھے)۔

کورونا وائرس اور منکی پوکس کے برعکس، پولیو وائرس جانوروں کو نشانہ نہیں بناتا ہے — یہ صرف انسانوں کو متاثر کرتا ہے۔ چونکہ یہ دوسری حیات میں پناہ نہیں لے سکتا، اس لیے یہ غیرمعمولی طور پر ختم کیا جا سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں ہم اس کے بہت قریب آچکے ہیں۔

1988 میں جب انسداد پولیو کی عالمی مہم شروع کی گئی اس وقت سو سے زائد ممالک میں سالانہ تقریباً تین لاکھ پچاس ہزار پولیو کیسز سامنے آئے تھے یعنی وائرس نے ایک دن میں ہزار بچوں کو مفلوج کر دیا۔ اس کے بعد سے پولیو کے واقعات میں 99.9 فیصد کمی آئی ہے۔ 2018 میں دنیا بھر میں صرف 138 کیسز تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ویکسی نیشن مہم نے 20 لاکھ سے زیادہ کیسز کو روکا ہے۔

فوجی تنازعات، نقل مکانی کے رجحانات اور انسانی بحرانوں نے پولیو کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن بنیادی طور پر ویکسین سے بچاؤ کی بیماریاں اس وقت بڑھ جاتی ہیں جب ویکسین کی شرح میں کمی آئی ہے۔

covid- 19 وبائی مرض کے دوران، دنیا نے تین دہائیوں میں بچپن کی ویکسینیشن میں اپنی سب سے بڑی کمی دیکھی گئی ہے۔ 2020 میں جب درجنوں ممالک نے پولیو کے قطرے پلانے کی مہم میں مہینوں کے وقفے آئے، کم از کم گیارہ سو بچے اپاہج ہو گئے۔ 2021 میں اڑھائی کروڑ بچوں نے معمول کی حفاظتی ٹیکوں کی کم از کم ایک خوراک کھو دی۔

نیویارک سٹی کے ہیلتھ کمشنر اشون وسان نے مجھے بتایا کہ ’یہ واقعی والدین کے لیے ایک کال ٹو ایکشن ہونا چاہیے۔ ہم یہاں خطرے کی گھنٹی بجانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

وسان نے، جن کے چچا پولیو کی وجہ سے اپاہج ہو گئے تھے اور جن کی خالہ اس کی وجہ سے بھارت میں انتقال کر گئی تھیں، کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ برسوں میں سائنس مخالف اور ویکسین مخالف تحریکوں نے طاقت حاصل کی ہے۔ اب سوشل میڈیا میں ان کے پاس غلط معلومات کا سپر ہائی وے ہے جس کے ذریعے وہ اپنا پیغام پھیلا سکتے ہیں۔‘

عالمی سطح پر غلط معلومات کی مہمات کا ایک جواب مقامی کارروائی ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ حفاظتی ٹیکے لگوانے کے فیصلے خطرات اور فوائد کے انفرادی تجزیے کے بارے میں کم اور سماجی اصولوں کے بارے میں زیادہ ہو سکتے ہیں: جب لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ان کے آس پاس کے دیگر افراد کو ویکسین لگائی جا رہی ہے، تو وہ خود کو ویکسین لگوانے کا زیادہ امکان دیکھتے ہیں۔ صحت عامہ کے اہلکاروں کو برادری کے اندر سے قابل اعتماد شخصیات کو شامل کرنا چاہیے جو لوگوں کے سوالات اور خدشات پر براہ راست بات کر سکیں۔ لوگوں کو ایسی مہم کے ذریعے جو انہیں غلط معلومات کی بہت سی شکلوں کو پہچاننے کی تربیت دیتی ہیں ان معلومات کے خلاف تیار کیا جاسکتا ہے۔

صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والے ایک تکنیک کو آزما سکتے ہیں جسے ترغیبی انٹرویو کے طور پر جانا جاتا ہے، جو کسی شخص کے ابہام کی وجوہات کو تلاش اور مثبت رویے میں تبدیلی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ دیگر معاملات میں حکومتوں اور معالجین کو ویکسی نیشن کو قابل رسائی، آسان اور مفت بنا کر عملی رکاوٹوں کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔

پولیو کے حفاظتی ٹیکوں کی کہانی مجموعی اور غیر معمولی طور پر کامیاب ہے تاہم اس میں ایک تکلیف دہ سچائی بھی شامل ہے: اب زیادہ تر کیسز ’ویکسین سے ماخوذ پولیو وائرس‘ کی وجہ سے ہوتے ہیں، جو زندہ ویکسین سے تیار ہوتے ہیں۔ کئی دہائیوں سے زیادہ تر ترقی پذیر دنیا نے طبی محقق البرٹ سبین کی ایجاد کردہ پی جانے والی پولیو ویکسین یا اوپی وی پر انحصار کیا ہے۔ جو مدافعتی ردعمل پیدا کرنے کے لیے کمزور وائرس کا استعمال کرتی ہے۔

یہ ویکسین سستی، قابل رسائی اور انتہائی موثر ہے: ایک خوراک کی قیمت چند روپے ہے جینیاتی ترتیب نے نیویارک، یروشلم اور لندن کے گندے پانی میں پائے جانے والے پولیو کو ویکسین سے حاصل ہونے والے پولیو وائرس سے جوڑا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گیٹس فاؤنڈیشن میں پولیو کے خاتمے کے پروگرام کے ڈائریکٹر جے وینگر نے بتایا کہ ’اس ویکسین کے ساتھ مسئلہ درحقیقت اس کا کافی استعمال نہیں کرنا ہے۔ یہ صرف اس صورت میں ہے جب غیر ویکسین شدہ لوگوں کی بڑی تعداد ہو گی تو وائرس گردش اور تیار ہوسکتا ہے۔‘

2020 میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پینے والی ویکسین کے ایک ترمیم شدہ ورژن کی منظوری دی، جسے nOPV2 کہا جاتا ہے، جس میں وائرس کو تبدیل کیا گیا ہے تاکہ اس کے خطرناک شکل میں واپس آنے کا امکان کم ہو۔ ’یہ ایک ایسا آلہ ہے جو نئے پیدا کیے بغیر ان وباؤں کو روک سکتا ہے۔ امید ہے، یہ گیم چینجر ثابت ہو گا۔‘

اخبار وال سٹریٹ جرنل کی ایک خبر کے مطابق نیویارک میں حکام ماہرین اطفال اور والدین پر زور دے رہے ہیں کہ وہ پولیو کے دوا کے بارے میں تازہ ترین معلومات فراہم کریں کیونکہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اپریل کے اوائل سے ریاست میں متعدی اور ممکنہ طور پر کمزور کرنے والا پولیو وائرس موجود تھا۔

امریکہ نے OPV ویکسین کو بیس سال سے زیادہ عرصے میں استعمال نہیں کیا ہے۔ اس کی بجائے، یہ ایک غیر فعال پولیو ویکسین کا استعمال کرتا ہے، جو کئی انجیکشن میں دی جاتی ہے اور اس میں صرف مردہ وائرل مواد ہوتا ہے جو بیماری یا تبدیلی کا سبب نہیں بنتا ہے۔ اس وجہ سے راک لینڈ کاونٹی پہنچنے والے پولیو کیس کی ابتدا یقیناً دنیا میں کہیں اور ہوئی تھی۔ لیکن چونکہ اس شخص نے متوقع مدت میں بین الاقوامی سفر نہیں کیا تھا، اس لیے یہ بھی واضح ہے کہ یہ نیویارک میں شاید مہینوں سے گردش کر رہا تھا۔

اورینسٹائن کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک بار پھر واضح کرتا ہے کہ ہم ایک دنیا ہیں۔ انسانی مفادات اور اپنی گھریلو صحت کی حفاظت کے لیے، ہمیں پولیو کے خاتمے کی عالمی کوششوں کی حمایت کے لیے مزید کچھ کرنا ہوگا۔ چلو اس کا خاتمہ کرتے ہیں۔‘

گلوبل پولیو ایریڈیکیشن انیشیٹو نے گذشتہ سال 2026 تک اس وائرس کے خاتمے کے لیے پانچ بلین ڈالر کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم، اس فنڈ کا زیادہ تر حصہ،اب بھی اکٹھے کیے جانے ہیں۔

حالیہ برسوں میں خناق اور خسرہ کی شرحوں میں بھی عالمی سطح پر اضافہ دیکھا گیا ہے۔ 2019 میں امریکہ نے دہائیوں میں خسرہ کی سب سے بڑی وبا کا سامنا کیا۔

ایڈ ڈے، راک لینڈ کاؤنٹی کے منتخب ایگزیکٹو نے اسے اس طرح بیان کیا: ’خواتین و حضرات، ہم آگ سے کھیل رہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت