امریکہ: ایک دہائی بعد پہلے پولیو کیس کی تصدیق

ریاست نیو یارک کے محکمہ صحت نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ جانچ میں پتہ چلا ہے راک لینڈ کاؤنٹی کیس کے وائرس کا تعلق امریکہ کے باہر سے ہے۔

27 اگست 2020 کی اس تصویر میں امریکی شہر نیویارک کے ایک ہسپتال میں ایک نرس مریض سے حاصل کردہ نمونوں کا تجزیہ کر رہی ہیں۔ امریکہ میں دس سال کے دوران پہلا پولیو کیس سامنے آیا ہے(اے ایف پی)

نیو یارک سٹی کے مضافاتی علاقے کے ایک بالغ شخص میں ایک ماہ قبل فالج کا سامنا کرنے کے بعد پولیو کی تشخیص ہوئی ہے جو ریاستی اور مقامی صحت کے حکام کے مطابق امریکہ میں تقریباً 10 سالوں میں اس مرض کا پہلا تصدیق شدہ کیس ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ریاست نیو یارک کے محکمہ صحت نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ جانچ میں پتہ چلا ہے راک لینڈ کاؤنٹی کیس کے وائرس کا تعلق امریکہ کے باہر سے ہے۔

راک لینڈ کاؤنٹی کی ہیلتھ کمشنر ڈاکٹر پیٹریسیا شنابیل روپرٹ نے ایک نیوز کانفرنس کو بتایا: ’اب ہم اس فرد کے خاندان اور ان کے قریبی رابطوں کا سروے کر رہے ہیں تاکہ کمیونٹی کو لاحق خطرات کا اندازہ لگایا جا سکے۔‘

تاہم ڈاکٹر روپرٹ کے مطابق مریض سے اس وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ نہیں ہے۔

ڈاکٹر روپرٹ کے مطابق متاثر ہونے والے نوجوان بالغ مرد کو پولیو کی ویکسین نہیں دی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ریاستی ماہرین صحت کے تجزیہ سے پتہ چلا کہ یہ کیس غیر ملکی اورل پولیو ویکسین میں استعمال ہونے والے کمزور وائرس کے سٹرین سے پیدا ہوا ہے جو بعض اوقات انفیکشن کا سبب بن سکتا ہے اور اسی وجہ سے امریکہ نے سن 2000 سے اسے بند کر دیا گیا تھا۔

امریکہ میں اب استعمال ہونے والی تین انجیکشنز پر مشتمل ایک کیمیائی طور پر غیر فعال پولیو ویکسین اس وائرس کے خلاف تقریباً سو فی صد تحفظ فراہم کرتی ہے۔

روپرٹ نے کہا کہ اس بات کی تصدیق باقی ہے کہ راک لینڈ کاؤنٹی کے متاثرہ رہائشی کو کس طرح اور کہاں اس وائرس نے نشانہ بنایا۔

انہوں نے مزید کہا کہ متاثرہ فرد نے خود اورل ویکسین نہیں لی تھی۔

نیویارک ٹائمز نے مقامی منتخب عہدیداروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ شخص آرتھوڈوکس یہودی کمیونٹی کا رکن تھا۔ اس کٹر یہودی برادری میں 2018-2019 میں پھیلنے والی خسرہ کی وبا کے دوران ویکسینیشن کی نسبتاً کم شرح تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پولیو کیس کی تصدیق کرنے والے یو ایس سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن (سی ڈی سی) نے کہا ہے کہ 1979 کے بعد سے امریکہ میں اس بیماری کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا ہے۔

سی ڈی سی کے مطابق قدرتی طور پر پایا جانے والا یا ’جنگلی‘ وائرس بھی کسی متاثرہ مسافر کے ذریعے ملک میں منتقل ہو سکتا ہے جیسا کہ 1993 میں ہوا تھا۔ ایجنسی نے کہا کہ امریکہ میں کسی بھی قسم کا آخری پولیو انفیکشن 2013 میں اوورل ویکسین سے پایا گیا تھا۔

سی ڈی سی نے کہا کہ پولیو انفیکشن اکثر غیر علامتی ہوتا ہے لیکن یہ فلو جیسی علامات پیدا کر سکتا ہے جیسے کہ گلے میں خراش، بخار، تھکاوٹ اور متلی وغیرہ جب کہ بہت کم کیسز میں وائرس اعصابی نظام پر حملہ کر سکتا ہے اور ناقابل علاج فالج کا سبب بن سکتا ہے۔

روپرٹ نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ راک لینڈ کاؤنٹی کے مریض میں پولیو وائرس تقریباً ایک ماہ قبل کمزوری اور فالج کا سامنا کرنے کے بعد تشخیص کیا گیا تھا تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ فالج مستقل رہے گا۔

پولیو کا کوئی علاج نہیں ہے لیکن ویکسینیشن کے ذریعے انفیکشن کو روکا جا سکتا ہے اور حالیہ دہائیوں میں حفاظتی ٹیکوں کی وسیع کمپینز کی بدولت دنیا بھر میں ان کیسز میں ڈرامائی کمی ہوئی ہے۔

پولیو ایک زمانے میں امریکہ میں سب سے زیادہ خوف ناک بیماریوں میں سے ایک تھی 1940 کی دہائی میں یہ انفیکشن ہر سال تقریباً 35 ہزار امریکیوں کو معذور کر دیتا تھا۔ پہلی پولیو ویکسین 1955 میں دستیاب ہوئی تھی۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق براؤن یونیورسٹی کی وبائی امراض کی محقق جینیفر نوزو نے کہا کہ زیادہ تر امریکیوں کو پولیو ویکسین لگ چکی ہے لیکن یہ ویکسین نہ لینے والوں کے لیے انتباہ ہے۔

جینیفر نے اے پی کو بتایا: ’یہ عام بات نہیں ہے۔ ہم اسے دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ اگر آپ کو ویکسین لگائی گئی ہے تو اس بارے میں آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ نے اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکے نہیں لگوائے ہیں تو یہ واقعی اہم ہے کہ آپ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کو ویکسین مل جائے۔‘

اس کیس کے بعد نیویارک میں صحت کے حکام نے جمعے اور پیر کے لیے ویکسینیشن کلینکس کا شیڈول بنایا ہے تاکہ ویکسین نہ لینے والوں کو اس جانب راغب کیا جا سکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت