موسمیاتی تبدیلی سے ہوابازی کا شعبہ کیسے متاثر ہو رہا ہے؟

مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرح ہوائی بگولوں کے بے ترتیب پیٹرن موسمیاتی بحران کا پتہ دیتے ہیں اور اس کے نتائج مسافروں کی حفاظت پر سنگین اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔

ہزاروں طیارے پہلے ہی ہر سال شدید مشکلات کا سامنا کرتے ہیں جس سے ہوا بازی کے شعبے کو پروازوں میں تاخیر، ہوائی جہازوں کو ساختی نقصان اور مسافروں اور کیبن کے عملے کے زخمی ہونے سے سالانہ ایک ارب ڈالر تک کا نقصان ہوتا ہے (تصویر: پکسلز)

’یہ سب پانچ سے سات منٹ کے درمیان وقوع پذیر ہوا۔‘ یہ کہنا تھا انڈیا کی نجی ایئرلائن سپائس جیٹ کے بوئنگ 737-800 میں سوار 195 مسافروں میں سے ایک ہیمل راجیش دوشی کا جن کی رواں سال یکم مئی کو ممبئی سے کولکتہ جانے والی پرواز کو کئی شدید جھٹکوں کا سامنا کرنا پڑا۔

اس واقعے میں 14 مسافر اور فلائٹ کیبن کے عملے کے تین افراد زخمی ہوئے۔

دوشی نے دی انڈپینڈنٹ کو اس واقعے کے بارے میں بتایا: ’تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی پرواز کے دوران بغیر کسی اعلان کے ایسا لگا جیسے اچانک طیارہ گر گیا ہو اور مسافر خوف میں مبتلا ہو گئے۔ میں نے دیکھا کہ تقریباً چار سے پانچ مسافر ہوا میں اچھل رہے ہیں اور کچھ طیارے کی چھت سے ٹکرا کر گر گئے۔ یہ لمحہ ایک رولر کوسٹر پر سوار ہونے جیسا تھا۔‘

وہ طیارے میں ہونے والے اس واقعے کو ’خوفناک اور جان لیوا‘ تجربہ کہتے ہیں۔

حالانکہ اس واقعے کی سرکاری تحقیقات کے نتائج زیر التوا ہیں تاہم ماہرین کو شبہ ہے کہ طیارے کو لینڈنگ سے کچھ دیر پہلے ایریٹک ایئر کرنٹس سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے ’نارویسٹر‘ نامی شدید طوفان کا سامنا کرنا پڑا۔

سپائس جیٹ نے اس وقت ایک بیان میں بتایا تھا کہ ’پائلٹ جھٹکوں سے بچنے کے لیے بائیں جانب موڑ کر اپنے راستے سے ہٹ گئے تھے لیکن انہیں اس متبادل راستے میں آنے والے مسئلے کے بارے میں خبردار نہیں کیا گیا۔‘

مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرح ہوائی بگولوں کے بے ترتیب پیٹرن موسمیاتی بحران کا پتہ دیتے ہیں اور اس کے نتائج مسافروں کی حفاظت پر سنگین اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔

مارچ 2019 میں استنبول سے نیو یارک کے لیے ترکش ایئر لائنز کے بوئنگ 777 طیارے کو امریکی ریاست میون کے اوپر ایک شدید کلیئر ایئر ٹربولینس (سی اے ٹی) کا سامنا کرنا پڑا۔

اس واقعے میں زخمی ہونے والے 30 مسافروں کو ہسپتال داخل کرانا پڑا جن میں ایک فلائٹ اٹینڈنٹ بھی شامل تھا جن کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔

کلیئر ایئر ٹربولینس یا سی اے ٹی مسافر طیاروں کی کروزنگ ایلٹیچوڈ (33 سے 44 ہزار فٹ کے درمیان کی بلندی جس پر کمرشل طیارے پرواز کرتے ہیں) پر آسمان کے ان علاقوں میں جہاں بادل موجود نہ ہوں، ہوا کے ایک بے ترتیب کرنٹ کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔

یہ ونڈ شیئر یعنی ہواؤں کی سمت اور رفتار میں تبدیلی سے پیدا ہوتے ہیں جو طیاروں کو ان کے مطلوبہ راستے سے اچانک ہٹنے پر مجبور کر سکتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ گرج چمک کے ساتھ طوفان اور ماحولیاتی عوامل جیسے کلیئر ایئر ٹربولینس اور جیٹ سٹریمز پہلے ہی عالمی حرارت سے متاثر ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے ایئرلائنز کے آپریشنز میں مزید خلل پڑنے کا امکان ہے۔

ہزاروں طیارے پہلے ہی ہر سال شدید مشکلات کا سامنا کرتے ہیں جس سے ہوا بازی کے شعبے کو پروازوں میں تاخیر، ہوائی جہازوں کی ساخت کو نقصان اور مسافروں اور کیبن کے عملے کے زخمی ہونے سے سالانہ ایک ارب ڈالر تک کا نقصان ہوتا ہے۔

برطانیہ کی یونیورسٹی آف ریڈنگ میں ماحولیاتی سائنس کے پروفیسر پال ولیمز نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’موسمیاتی تبدیلی کے ہوا بازی کے شعبے پر بہت سے اثرات مرتب ہوں گے۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ ماحول مزید ہنگامہ خیز ہو جائے گا۔ اس لیے ممکنہ طور پر اگلی چند دہائیوں میں پروازیں دو یا تین گنا زیادہ مشکلات کا سامنا کر سکتی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سامنے آنے والے شواہد بتاتے ہیں کہ موسمیاتی بحران کی وجہ سے درجہ حرارت میں غیر یکساں تبدیلیاں ہوا کی رفتار اور سمت کو تبدیل کر رہی ہیں جس کی وجہ سے فضا میں ہوا کے بہاؤ میں خلل پیدا ہو رہا ہے۔

بحر اوقیانوس کا جیٹ سٹریم ایک ایسا ہی بہاؤ ہے جس کو ہوائی جہاز معمول کے مطابق بین البراعظمی پروازوں کے دوران مدد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

یہ مغرب سے مشرق کی طرف بہتا ہوا ہوا کا ایک تیز اور تنگ کرنٹ ہے جو دنیا کو گھیرے ہوئے ہے۔

انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) دہلی میں ماحولیاتی سائنس سنٹر کے سربراہ کرشنا اچوتاراؤ کا کہنا ہے کہ خاص طور پر شمالی امریکہ سے مشرق کا سفر کرنے والے طیارے اپنے سفر کے اوقات کو کم کرنے اور ایندھن کے استعمال کو کم کرنے کے لیے اس جیٹ سٹریم کا استعمال کرتے ہیں جس طرح اینیمیٹڈ فلم ’فائنڈنگ نیمو‘ میں کچھوؤں کو مشرقی آسٹریلوی سمندری کرنٹ کو ہجرت کے لیے استعمال کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

ڈاکٹر ولیمز کا کہنا ہے کہ ’ہم جانتے ہیں کہ 1970 کی دہائی میں مصنوعی سیاروں کی جانب سے مشاہدہ شروع کرنے کے بعد سے شمالی بحر اوقیانوس کے اوپر اڑنے والے طیارے کروزنگ ایلٹیچوڈ پر جیٹ سٹریم کے ذریعے 15 سے فیصد زیادہ (ایندھن) کی بچت کرتے ہیں۔‘

سائنسی جریدے ’ایڈوانسز ان ایٹموسفیرک سائنسز‘ میں شائع ہونے والی 2017 کی ایک تحقیق میں موسم سرما کے وقت ٹرانس اٹلانٹک پروازوں پر ونڈ شیئر کے اثرات، یعنی ہوا کی رفتار یا سمت میں تھوڑے فاصلے پر اچانک تبدیلی جو کہ مشکلات کی ایک بڑی وجہ ہے، پر غور کیا گیا۔

تحقیق سے پتہ چلا کہ دنیا میں کاربن کی سطح دوگنی ہونے سے 39 ہزار فٹ کی بلندی پر شدید کلیئر ایئر ٹربولینس کی اوسط تعداد میں 149 فیصد اضافہ ہو جائے گا یعنی اگر کاربن کا اخراج جاری رہتا ہے تو مستقبل میں ایئرلائن کے مسافروں کے لیے سفر مشکل ہو جائے گا۔

پورے یورپ میں محفوظ اور بغیر کسی رکاوٹ کے فضائی ٹریفک کا انتظام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ’یوروکنٹرول‘ کا کہنا ہے کہ ہمیں ٹربولینس کی بہتر پیشن گوئی کرنے صلاحیت کی ضرورت ہوگی تاکہ ٹربولینس کے باعث روٹ کی تبدیلی سے زیادہ ایندھن خرچ ہونے سے بچا جا سکے۔

یوروکنٹرول کے ترجمان نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’غیر متوقع ٹربولینس سے بچنے کے لیے راستے میں توسیع زیادہ ایندھن کے جلنے اور کاربن کے اخراج کا باعث بن سکتا ہے۔ لہذا ٹربولینس کی پیش گوئی کرنے کی صلاحیت کو بہتر بنانے کا مطلب ہے کہ راستوں کی بہتر منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے اور اضافی فاصلے کو کم کیا جا سکتا ہے۔‘

سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی بحران صرف ایئر کرنٹ ٹربولینس کے ذریعے ہی مسافروں کی حفاظت کو متاثر کر نہیں سکتا بلکہ یہ طوفانوں اور گرم بگولوں جیسے شدید موسمی واقعات کو جنم دے سکتے ہیں جو گلوبل وارمنگ کی وجہ سے زیادہ عام اور زیادہ طاقتور ثابت ہو رہے ہیں۔

یوروکنٹرول کے ایک حالیہ مطالعے کے مطابق ایندھن اور وقت کو بچانے کے لیے ایئر لائنز اپنی منازل کے درمیان کم سے کم فاصلہ طے کرتے ہوئے ممکنہ حد تک براہ راست پرواز کرنا چاہیں گی۔ اس راستے سے انحراف، جسے ہوریزنٹل فلائٹ اِن ایفیشیئنسی (ایچ ایف آئی) کہا جاتا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نمایاں طور پر بڑھ سکتا ہے۔

یوروکنٹرول کے ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ ’2050 تک یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ تقریباً 0.5 فیصد بڑے طوفانوں کی وجہ سے ایچ ایف آئی میں اضافہ ہو گا جو یورپی خطے میں سالانہ پانچ ہزار 700 ٹن کاربن پیدا کرنے کے برابر ہے۔‘

آب و ہوا کی تبدیلی کے حوالے سے چھٹے آئی پی سی سی پینل کی رپورٹ میں حصہ لینے والے مصنفین میں سے ایک ڈاکٹر اچوتھا راؤ کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے سمندر گرم ہوتے جائیں گے توقع ہے کہ زیادہ طاقتور بگولے اور سمندری طوفان اٹھیں گے۔

ان کے بقول: ’جب عمومی گلوبل وارمنگ ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں گرم ہوا میں زیادہ نمی ہو گی اس لیے جب مرطوب بن جاتی ہے تو یہ مزید بارشوں کا موجب بنتی ہے۔ اس لیے معمول کی بارشیں بھی زیادہ ہو سکتی ہیں اور جب ساحلی علاقوں کے ہوائی اڈوں کے قریب بارش زیادہ ہوتی ہے تو پانی کی نکاسی ایک مسئلہ بن جاتی ہے۔‘

اس طرح عالمی حرارت کا قہر نہ صرف طیاروں بلکہ ہوائی اڈوں کو بھی متاثر کرے گا۔ ہوائی اڈوں کے قریب طوفان ہوائی سفر کے لیے چیلنجز کا باعث بنتے ہیں یعنی ہوائی جہازوں کی ٹریفک، ایندھن کے جلنے اور کاربن کے اخراج کے مضمرات کے ساتھ طیاروں کو طویل عرصے تک پرواز میں رہنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

اس کے علاوہ پروازوں کے ٹیک آف اور لینڈنگ ہیٹ ویوز سے بھی متاثر ہوں گی خاص طور پر مختصر رن وے والے ہوائی اڈوں پر۔

نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ گذشتہ صدی کے دوران پورے ایشیا میں سطحی ہوا کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے شدید، بار بار اور طویل ہیٹ ویوز پیدا ہو رہی ہیں۔

ڈاکٹر ولیمز نے کہا: ’ہوا کے درجہ حرارت میں ہر تین سیلسیئس اضافے سے  ہوا کی کثافت ایک فیصد کم ہو جاتی ہے جس کا مطلب ہے کہ ہوائی جہازوں سے پیدا ہونے والی لفٹ بھی ایک فیصد کم ہو سکتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اس کا زیادہ تر اثر کم ٹیک آف وزن والے ہوائی جہازوں پر نہیں ہو سکتا لیکن اگر ہوائی جہاز بہت زیادہ مسافروں، سامان اور ایندھن سے بھرا ہوا ہے تو اس طرح کی گرمی اسے ٹیک آف کرنے سے روک سکتی ہے۔‘

یونان کے 10 مختلف ہوائی اڈوں پر پروازوں کے تجزیے سے پتہ چلا ہے کہ گذشتہ تین دہائیوں میں ایئربس 320 اور A320 کے زیادہ سے زیادہ ٹیک آف وزن میں تقریباً چار ہزار کلو گرام کی کمی واقع ہوئی ہے۔

ڈاکٹر ولیمز نے خبردار کیا کہ ’گذشتہ 30 سالوں میں درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے چار ٹن (ٹیک آف وزن) کم ہو چکا ہے۔ یہ سب پہلے ہی ہو رہا ہے۔‘

یونیورسٹی آف ریڈنگ کے پروفیسر نے مستقبل میں خاص طور پر چھوٹے رن وے والے ہوائی اڈوں پر مزید ’ٹیک آف وزن کی ’پابندیوں‘ کی پیش گوئی کی ہے۔

ان کے بقول: ’لمبے رن وے تیز رفتاری اور زیادہ لفٹ کی اجازت دیتے ہیں لہذا یہ بنیادی طور پر مختصر رن ویز کے لیے مسئلہ کھڑا کرے گا۔‘

حرارت کے باعث یورپ اور دنیا کے دیگر حصوں میں پروازوں کا نظام الاوقات تیز رفتاری سے متاثر ہونے کا امکان ہے۔

چونکہ دنیا کے زیادہ آبادی والے خطوں میں زیادہ تر ہوائی اڈوں میں رن وے کی توسیع ممکن نہیں ہوسکتی ہے اس لیے ڈاکٹر ولیمز کا کہنا ہے کہ بہت سے علاقوں میں ہوائی اڈے صبح سویرے یا شام دیر گئے لمبی دوری کے ڈیپارچرز کا شیڈول بنانا شروع کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس شیڈول پر منتقل ہو سکتے ہیں جیسا کہ مشرق وسطیٰ جیسے خطوں میں ایک عام رواج ہے جہاں درجہ حرارت 50 سیلسیئس تک پہنچ جاتا ہے یا ایئر لائنز ہلکے ہوائی جہازوں پر منتقل ہو سکتی ہیں۔

حالیہ تخمینوں سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ گلوبل وارمنگ میں ہر ایک سیلسیئس اضافے سے پوری دنیا میں تقریباً 12 فیصد زیادہ آسمانی بجلی گرتی ہے جس سے راستے بدلنے کی زیادہ ضرورت ہو گی۔

آسٹریلیا کی گریفتھ یونیورسٹی میں ایوی ایشن کے پروفیسر ٹم رائلی کہتے ہیں ’جیسا کہ ہوا بازی کے شعبے کو طویل عرصے سے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجوہات میں حصہ ڈالنے ذرائع کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے لیکن ہوا بازی کو ان نتائج کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت پر اتنی اچھی طرح سے تحقیق نہیں کی گئی۔‘

یوروکنٹرول کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جب کہ ہوا بازی پر موسمیاتی بحران کے کچھ اثرات کے بارے میں ’معقول فہم‘ موجود ہے جیسے طوفان کے پیٹرن میں تبدیلی اور سطح سمندر میں اضافہ، ایسے میں طیاروں کے آپریشنز اور سطحی ہواؤں پر پڑنے والے اثرات کی پیش گوئی کے حوالے سے تحقیق سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

دوشی کہتے ہیں کہ جب اس طرح کے اچانک شدید ٹربولینس والے واقعات رونما ہوتے جا رہے ہیں تو صرف پائلٹوں اور فلائٹ آپریٹرز کو ہی نہیں، کیبن کریو اور ایئر لائن کی مہمان نوازی کرنے والی ٹیموں کو بھی مسافروں کی مدد کے لیے تربیت دی جانی چاہیے ۔

ڈاکٹر ولیمز نے نتیجہ اخذ کیا کہ ’ٹربولینس سے پیسہ خرچ ہوتا ہے یعنی رن وے پر پانی آنے کے باعث ہوائی اڈے کی بندش سے پیسہ خرچ ہوتا ہے، پروازیں منسوخ کرنے یا ٹیک آف وزن کی پابندیوں کی وجہ سے مسافروں سے تکرار پر پیسہ خرچ ہوتا ہے اور بجلی گرنے سے پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ بالآخر یہ مسافر ہی ہوں گے جو ٹکٹ کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں زیادہ ادائیگی کریں گے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات