سری نگر: خواتین کو مفت سینیٹری پیڈز دینے والی ’پیڈ لیڈی‘

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کی عرفانہ زرگر ’ایوا سیفٹی ڈور’ کے نام سے ایک مہم چلا رہی ہیں، جس کے تحت عوامی بیت الخلاؤں میں خواتین کو مفت سینیٹری نیپکن پیک تقسیم کیے جاتے ہیں۔

خواتین کی ماہواری سے جڑے صحت کے مسائل پر زیادہ بات نہیں ہوتی اور نہ ہی شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس صورت حال سے تنگ عرفانہ زرگر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ’ایوا سیفٹی ڈور‘ کے نام سے ایک مہم شروع کی ہے۔

اس مہم کے تحت دارالحکومت سری نگر کے عوامی بیت الخلاؤں میں خواتین میں مفت سینیٹری نیپکن پیک تقسیم کیے جاتے ہیں۔

عرفانہ کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے شہر کے اطراف میں 15 پبلک واش رومز میں ماہواری کٹس تقسیم کرنے کے علاوہ پچھلے سات مہینوں میں 10 ہزار سے زیادہ سینیٹری پیڈز تقسیم کیے ہیں۔

تاہم اس فلاحی کوشش میں انہیں سرکاری یا کسی غیر سرکاری تنظیم (این جی او) کی مالی معاونت حاصل نہیں۔

وہ اپنے جیب خرچ سے یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ کوئی بھی خاتون سینیٹری پیڈز کے بغیر جانے پر مجبور نہ ہو۔

عرفانہ نے بتایا کہ وہ اس مہم پر 2014 سے کام کر رہی ہیں۔ ’کسی بھی این جی او یا حکومتی مدد کیے بغیر میں سری نگر میونسپل کارپوریشن (ایس ایم سی) میں کنٹریکٹ پر کم تنخواہ دار ملازم ہونے کے باوجود اپنی جیب سے ادائیگی کر رہی ہوں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پرانے شہر کے علاقے نوشہرہ سے تعلق رکھنے والی عرفانہ لال چوک کے علاقے میں چار پبلک واش رومز پر خواتین اور لڑکیوں کو مفت سینیٹری پیڈز دیتی ہیں۔

یہاں آنے والی خواتین پیڈز کے علاوہ دیگر سینیٹری اشیا جیسے پینٹیز، اینٹی سپاسموڈک ادویات، ہاتھ دھونے اور سینیٹائزر کی سہولیات بھی حاصل کر پا رہی ہیں۔

عرفانہ کہتی ہیں: ’لال چوک ایک بڑا کاروباری مرکز ہے جہاں روزمرہ کی ضروریات کی اشیا خریدنے کے لیے خواتین کی بڑی تعداد آتی ہے۔

’لیکن انہیں سینیٹری نیپکن کی سہولیات کے ساتھ ساتھ حفظان صحت والے بیت الخلا تک رسائی اور ان کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے میں ہمیشہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

حفظان صحت کے طریقوں تک آسان رسائی کے لیے پرعزم عرفانہ نے مزید کہا: ’ہم اس کے بارے میں جتنا زیادہ بات کریں گے، اتنا ہی بہتر ہوگا۔‘

بقول عرفانہ: ’یہ ایک فطری معاملہ ہے۔‘

عرفانہ اپنی مہم کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا بھی لے رہی ہیں۔ ’مجھے ضرورت مندوں سے کالز اور پیغامات موصول ہوتے ہیں، جس پر میں نیپکن ان کی دہلیز پر گرا دیتی ہوں۔‘

عرفانہ اب ایک گاڑی خریدنے کا ارادہ رکھتی ہیں جو ایک ایمبولینس کا کام کرے گی اور اگر خواتین کو کسی قسم کی تکلیف ہو یہ تو گاڑی ایک فون کال پر دستیاب ہوگی۔   

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین