سیلاب زدہ علاقوں میں خواتین کے لیے سینیٹری پیڈز کتنے ضروری ہیں؟ 

سیلاب زدگان کے لیے ریلیف کا کام کرنے والے کچھ غیر سرکاری فلاحی ادارے اور کچھ رضاکار تنظیمیوں کی جانب سے ریلیف سامان میں خواتین کے لیے سینیٹری پیڈز بھی مانگے گئے ہیں۔

شکارپور میں سیلاب سے متاثرہ خاندان اپنے تباہ حال گھر کے باہر مدد کا منتظر ہے (تصویر: اے ایف پی)

ملک میں آنے والے حالیہ سیلاب نے کئی خاندانوں کو بے گھر اور بے یارو مدد گار کر کے رکھ دیا ہے، جس سے سب سے زیادہ متاثر خواتین اور بچے ہوئے ہیں۔

حکومت نے اتوار کو خبردار کیا تھا کہ سیلاب سے متاثرہ آبادی کی تعداد تین کروڑ 30 لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ 

سیلاب زدگان کے لیے ریلیف کا کام کرنے والے کچھ غیر سرکاری فلاحی اداروں اور کچھ رضاکار تنظیمیوں کی جانب سے ریلیف کے لیے دیے جانے والے سامان میں خواتین کے لیے سینیٹری پیڈز بھی مانگے گئے ہیں۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی بہت سے لوگ آگاہی پھیلا رہے ہیں کہ سیلاب زدگان کو بھیجے جانے والے سامان میں خواتین کے لیے سینیٹری پیڈز بھیجنا کیوں ضروری ہیں۔

ملتان کی ایک صحافی انیلہ اشرف آج کل جنوبی پنجاب کے چھوٹے چھوٹے علاقوں اور بستیوں میں سیلاب زدگان کے لیے ریلیف کا کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم نے ابھی پیر کو 100 خواتین اور ان کے خاندانوں میں دیگر اشیائے ضروریہ کے ساتھ ساتھ خواتین کے لیے سینیٹری پیڈز، مچھر دانیاں اور مچھروں سے دور رکھنے والے لوشن تقسیم کیے ہیں۔‘

انیلہ نے بتایا کہ چونکہ یہ خواتین زیادہ تر دیہاتی علاقوں اور چھوٹی چھوٹی بستیوں سے تعلق رکھتی ہیں، اس لیے وہ مارکیٹ میں دستیاب سینیٹری پیڈز سے آشنا نہیں ہیں۔ یہ زیادہ تر کپڑا استعمال کرتی ہیں اس لیے ہم نے سینیٹری پیڈز کے ساتھ زیر جامہ، کپڑا اور روئی بھی انہیں فراہم کی ہے۔

انیلہ کا کہنا ہے کہ جب ان میں یہ پیڈز تقسیم کیے گئے تو انہیں ایک چھوٹا سا تربیتی کورس بھی کروایا گیا کہ ان پیڈز کو کس طرح استعمال کرنا ہے۔ ’جن خواتین میں یہ پیڈز تقسیم کیے گئے ان میں سے بیشتر یہ پیڈز پہلی بار استعمال کریں گی جب کہ بڑی عمر کی خواتین چونکہ ہمیشہ سے کپڑا استعمال کر رہی ہیں، اس لیے انہیں یہ پیڈز عجیب و غریب لگتے ہیں، لہذا ہم نے انہیں کپڑا فراہم کر دیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا: ’یہاں زیادہ تر خواتین کا تعلق بلوچ قبائل سے ہے اس لیے وہ مردوں سے یہ چیزیں لینا گوارا نہیں کرتیں، یا پھر ان کے مرد ہی انہیں گھروں سے باہر مردوں کے سامنے آنے کی اجازت نہیں دیتے، اس لیے میں یہ سارا سامان لے کر اکیلی ہی گئی تھی۔ میں نے بستیوں کی خواتین کو وہاں بچنے والے واحد گھر میں اکٹھا کیا تاکہ انہیں ان کی ضرورت کی اشیا دے دی جائیں۔ میں کم از کم سو خاندانوں تک پہنچی اور خواتین نے سینیٹری پیڈز لیتے ہوئے کہا کہ باہر لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ انہیں یہاں بلا کر کیا دیا گیا ہے۔‘

انیلہ نے جنوبی پنجاب کے مخلتف علاقوں میں ریلیف اقدامات کیے ہیں۔ ان علاقوں میں تونسہ کے قریب ٹبہ امام، باقرآباد، کھڈ بزدار، لاشاری والا، جلو والی کے علاقے ہیں۔

انیلہ کے مطابق: ’یہ وہ علاقے ہیں جو مذہبی اور ثقافتی اطوار اور بلوچی رسم و رواج کے حوالے سے قدامت پسند ہیں، اس لیے ان علاقوں کی خواتین تک بطور ایک خاتون پہنچنا میرے لیے بھی ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔

’اس دن ہماری گاڑی خراب ہو گئی تھی تو مجھے اور میرے شوہر کو سامان لے کر پک اپ پر جانا پڑا۔ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ کچھ دیر وہ پیچھے سامان پر بیٹھیں گے اور کچھ دیر میں لیکن پھر میں ہی سامان پر بیٹھ گئی کیونکہ ایک تو ڈرائیور سگریٹ پی رہا تھا دوسرا جن علاقوں میں ہم گئے وہاں عورت کار کی چھت پر بیٹھی ہو تو اس کو برا نہیں سمجھا جاتا البتہ اگر وہ گاڑی کی سامنے والی سیٹ پر بیٹھی ہو تو اس کو لوگ اچھا نہیں سمجھتے۔ سو میں نے پانچ چھ گھنٹے کا سفر اسی طرح پک اپ کے پیچھے سامان پر بیٹھ کر طے کیا۔‘

انیلہ کہتی ہیں کہ جن جن بستیوں میں وہ گئیں وہ اس وقت سیلاب کی وجہ سے چٹیل میدان بنی ہوئی ہیں اور یہ خواتین باہر بیٹھی التجا کر رہی ہیں کہ کوئی ان کے لیے پردے کا انتظام کر دے۔

عاصمہ فرہاد ’گو گرین‘ ویلفیئر سوسائٹی چلا رہی ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے سیلاب زدگان کے لیے جس سامان کی لسٹ بنائی تھی، اس میں سینیٹری پیڈز شامل نہیں تھے، پھر ان کی ایک ڈونر نے اس حوالے سے انہیں آگاہی فراہم کی۔

’پہلے تو مجھے عجیب لگا کیونکہ ان علاقوں میں ہماری طرف سے مردوں نے سامان تقسیم کرنا تھا اور یہ بھی خیال تھا کہ جن علاقوں میں سامان جانا ہے وہ دور دراز کے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ سینیٹری پیڈز یا ماہواری کی بات وہاں کے لوگوں کے لیے ممنوعہ موضوع ہو۔ اس لیے میں تھوڑا گھبرا رہی تھی۔

’لیکن پھر میں نے  سینیٹری پیڈز کو اپنی لسٹ میں ڈال دیا۔ دیکھا جائے تو یہ بہت ہی ضروری چیز ہے کیونکہ سیلاب ہے یا نہیں خواتین کی ماہواری نے تو انتظار نہیں کرنا اور یہ ایک قدرتی حقیقت ہے جسے ہم سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔‘

عاصمہ فرہاد نے مزید بتایا: ’وہاں میڈیکل کیمپس لگے ہوئے ہیں، پیڈز میڈیکل سٹورز پر بھی پڑے ہوتے ہیں لیکن وہاں کی خواتین کپڑا استعمال کرتی ہیں یا روئی لیکن اس وقت تو ہر چیز سیلاب کی زد میں آئی ہوئی ہے اور اس وقت ان کے پاس دھلے ہوئے کپڑے تک نہیں ہیں۔ اس لیے اگر وہ اس وقت پر اس حوالے سے آگاہ ہو جائیں تو تو اچھا ہو گا۔

’یہی سوچ کر میں نے سینیٹری پیڈز کو اپنی لسٹ میں شامل کر لیا اور مجھے یقین ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں جو میڈیکل کیمپس لگے ہیں وہ انہیں پیڈز کے استعمال کا طریقہ بھی بتا دیں گے۔‘ 

آفت زدہ علاقوں میں خواتین کی صحت کو کیا خطرات ہو سکتے ہیں؟ 

لاہور سے تعلق رکھنے والی گائناکالوجسٹ ڈاکٹر طیبہ وسیم نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ ایک قدرتی بات ہے کہ اکثر خواتین جب ذہنی دباؤ میں آئیں تو انہیں ماہواری وقت سے پہلے بھی آسکتی ہے اور ایسے میں اگر صفائی کا خیال نہ رکھا جائے تو ظاہری بات ہے کہ بہت سی بیماریاں اور انفیکشنز ہو سکتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ یہ وقت ایسا ہے کہ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں موجود خواتین کب تک اپنے گھروں میں پہنچیں گی، اس لیے ماہواری کے دوران ان کے لیے سب سے آسان چیز سینیٹری پیڈز ہیں۔

’آپ خود سوچیں کہ اس وقت وہ کہاں سے کپڑا لائیں، اس کو کاٹیں، استعمال کے بعد اسے دھوئیں، یہ ساری چیزیں مشکل ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سینیٹری پیڈ حفظان صحت کے لحاظ سے ان خواتین کے لیے قدرے محفوظ ہیں، میرے خیال میں جنہوں نے بھی پیڈز بھیجنے کے بارے میں سوچا ہے، بہت اچھا سوچا ہے کہ ایسے ہونا چاہیے۔

ڈاکٹر ویرتا علی اجن نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ماہواری کے دوران صفائی کا خیال نہ رکھنے سے پیشاب کی نالی کا انفیکشن ہو سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بہتر ہے ان خواتین کے لیے روئی کے بنے پیڈز بھیجے جائیں تاکہ وہ انہیں آرام دہ لگیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین