جب فتوے کے بعد ہزاروں ہندوستانی مسلمانوں نے افغانستان ہجرت کی

1920 میں ایک فتوے کے بعد ہزاروں مسلمان خاندانوں نے ہندوستان سے افغانستان ہجرت کی، مگر وہاں پر ان کے ساتھ کیا بیتی؟

ایک اندازے کے مطابق ہجرت کے فتوے پر عمل کرنے والے مہاجرین کی تعداد 50 ہزار سے زیادہ تھی (پبلک ڈومین)

یہ اگست 1920 کی بات ہے۔ پشاور سے درۂ خیبر، جلال آباد اور کابل کی طرف جانے والے راستوں پر مسافروں کی بھیڑ لگی رہنا اب گذشتہ چند ماہ سے ہر دن کا معمول بن گیا تھا۔

ہر عمر کے مرد و زن پر مشتمل یہ مسافر ہندوستانی مسلمان تھے جنہوں نے ایک فتوے پر عمل درآمد کے طور پر کافروں کی سرزمین (دارالحرب) سے اسلام کی سرزمین (دارالاسلام) کی طرف ہجرت اختیار کی تھی۔ ان کے نزدیک انگریزوں کی حکمرانی والا ہندوستان دارالحرب اور افغانستان دارالاسلام تھا۔

یہ لوگ چھوٹے بڑے قافلوں کی شکل میں افغانستان جا رہے تھے۔ قافلوں کے سردار شرکا کا جوش و جذبہ بڑھانے کے لیے مذہبی نعرے لگوا رہے تھے اور گاہے بہ گاہے ترانے کی گونج بھی سنائی دے رہی تھی۔

حالاں کہ درۂ خیبر پر افغان سکیورٹی اہلکار تعینات تھے لیکن افغان بادشاہ امان اللہ خان کے ایک اعلان کے تحت ’دارالحرب‘ سے آنے والے مسلمانوں کی افغانستان میں داخلے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔

جرمن مصنف ڈائیٹرک ریٹز نے اپنی کتاب ’ہجرت: دا فلائٹ آف دا فیتھفل‘ (Hijrat: The Flight of the Faithful) میں لکھا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی افغانستان کی طرف ہجرت کا سلسلہ 15 مئی 1920 کو اس وقت شروع ہوا، جب 53 افراد پر مشتمل پہلا جتھہ درۂ خیبر کو عبور کرتے ہوئے افغانستان میں داخل ہو گیا۔

’ایک اندازے کے مطابق ہجرت کے فتوے پر عمل کرنے والے مہاجرین کی تعداد 50 ہزار سے زیادہ تھی۔‘

محمد نعیم قریشی نے یونیورسٹی آف لندن میں 1973 میں جمع کردہ اپنے پی ایچ ڈی مقالے بعنوان ’دا خلافت موومنٹ ان انڈیا، 1919 ٹو 1924‘ میں لکھا ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے ایک فتوے سے 1920 کے موسم گرما میں زور پکڑنے والی اس ’تحریکِ ہجرت‘ کو کامیاب بنانے کے لیے مسجدیں استعمال کی گئیں۔

’مولویوں نے منبر سے تبلیغ کی کہ جو مسلمان ہجرت نہیں کریں گے وہ کافر ہو جائیں گے۔ مصنفین نے نثر اور شاعری کے ذریعے جذبات ابھارے۔ مقامی پریس نے افغانستان میں زندگی کی خوبصورتی پر خبریں شائع کیں۔‘

قریشی نے لکھا ہے کہ امان اللہ خان کی طرف سے 12 اگست 1920 کو مزید ہندوستانیوں کے ان کے ملک میں داخلے پر روک عائد کیے جانے تک افغان حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 40 ہزار ہندوستانی مسلمان افغانستان میں داخل ہو چکے تھے۔

’امان اللہ خان کی طرف سے ہجرت کی معطلی کے اعلان کے بعد بھی سات ہزار ہندوستانی مسلمان افغانستان میں داخل ہو گئے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد درۂ خیبر کے علاوہ دوسرے راستوں سے بھی افغانستان چلی گئی۔ مجموعی تعداد 50 سے 60 ہزار کے درمیان تھی۔‘

انہوں نے لکھا ہے کہ 12 اگست 1920 کو جب افغان بادشاہ نے مزید ہندوستانی مسلمانوں کے افغانستان میں داخلے پر روک لگائی تو بعض اطلاعات کے مطابق اس حکم نامے کو نافذ کرنے والے افغان سکیورٹی اہلکاروں نے ہندوستانی مسلمانوں کو واپس دھکیلنے کے دوران بندوقیں اور چھریاں استعمال کیں۔

ہجرت کا فتویٰ کس نے دیا تھا؟

قاضی محمد عدیل عباسی اپنی کتاب ’تحریکِ خلافت‘ میں لکھتے ہیں کہ 1920 میں ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر مسلمانانِ ہند کو یہاں سے ہجرت کرنے کا فتویٰ مولانا ابوالکلام آزاد نے دیا تھا۔

محمد نعیم قریشی نے لکھا ہے کہ حالاں کہ مولانا آزاد کے فتوے کی درست تاریخ معلوم نہیں ہے لیکن اندرونی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپریل یا مئی 1920 میں دیا گیا تھا۔ اس فتوے کا متن اخبار ’اہل حدیث‘ (امرتسر) میں 30 جولائی 1920 کو شائع ہوا۔

شاہد حسین خاں کی مرتب کردہ کتاب ’تحریکِ ہجرت: 1920 میں مسلمانانِ برعظیم ہند و پاک کی ہجرتِ افغانستان، تاریخ، افکار اور دستاویزات‘ میں ابو سلمان شاہجہانپوری اپنے مضمون ’تحریکِ ہجرت: چند خیالات‘ میں لکھتے ہیں ’1920 میں ہندوستان سے ہجرت کے باب میں انہوں (مولانا ابوالکلام آزاد) نے جو رہنمائی کی تھی اس کی تفصیل مولانا کے مضمون ’اعلان‘ میں موجود ہے۔ اسی مضمون کا وہ ٹکڑا ہے جو فتوے کی حیثیت سے اہل حدیث امرتسر میں شائع ہوا تھا اور اب تبرکاتِ آزاد میں شامل ہے ۔‘

’تبرکاتِ آزاد‘ مولانا ابوالکلام آزاد کے کئی نایاب خطوط اور کچھ مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان خطوط اور مضامین کو غلام رسول مہر نے مجموعہ کی شکل میں مرتب کر کے شائع کیا ہے۔ اس میں زیادہ تعداد ان خطوط کی ہے جو مولانا نے اپنے عزیزوں کو لکھے تھے۔

’تبرکاتِ آزاد‘ میں غلام رسول مہر مضمون بعنوان ’ہجرت کا فتویٰ‘ کی تمہیدی عبارت میں رقم طراز ہیں: ’مولانا (ابوالکلام آزاد) نے 1920 میں ہندوستان سے ہجرت کے متعلق جو فتویٰ دیا تھا وہ بالکل ناپید تھا۔ اتفاق سے اخبار ’اہل حدیث‘ امرتسر کی اشاعت مورخہ 30 جولائی 1920 میں اس کا اصل متن شائع ہوا تھا۔ وہیں سے اسے نقل کر کے بہ طور یادگار محفوط کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ فتویٰ ترکِ موالات کے مفصل پروگرام کے نفاذ سے پیشتر دیا گیا تھا۔‘

مولانا کے فتوے کے چند چیدہ چیدہ اقتباسات یوں ہیں: ’تمام دلائل شرعیہ، حالات حاضرہ، مصالحِ مہمہ امت اور مقتضیات و مصالح پر نظر ڈالنے کے بعد میں پوری بصیرت کے ساتھ اس اعتقاد پر مطمئن ہو گیا ہوں کہ مسلمانانِ ہند کے لیے بجز ہجرت کے اور کوئی چارہ شرعی نہیں۔

’ان تمام مسلمانوں کے لیے جو اس وقت ہندوستان میں سب سے بڑا اسلامی عمل انجام دینا چاہیں (ان کے لیے) ضروری ہے کہ ہندوستان سے ہجرت کر جائیں اور جو لوگ یکایک ہجرت نہیں کر سکتے وہ مستعد مہاجرین کی خدمت و اعانت اس طرح انجام دیں گویا وہ خود ہجرت کر رہے ہیں۔ یعنی اصل عمل جو اب شرعاً درپیش ہے (وہ) ہجرت ہے اس کے سوا کوئی نہیں۔

’ہندوستان سے ہجرت قبل از جنگ مستحسن تھی اب یہ استحسان شرائط شرعیہ کے ماتحت وجوب تک پہنچتا ہے۔ البتہ جن لوگوں کی نسبت ظن غالب ہو کہ مقصد کی جدوجہد اور کلمہ حق کے اعلان و تذکیر کے لیے ان کا قیام ہندوستان میں بہ مقابلہ ہجرت کے زیادہ ضروری ہے یا جو لوگ دیگر عذرات مقبولہ شرع کی بنا پر ہجرت نہ کر سکیں یا ایک اتنی بڑی وسیع آبادی کی نقل و حرکت میں قدرتی طور پر جو تاخیر ہونی چاہیے، اس کی وجہ سے تاخیر ہو، سو بلا شبہ وہ لوگ ٹھہر سکتے ہیں۔

’ان کو اپنی تمام قوتیں اتباع شرع کے لیے وقف کر دینی چاہییں۔ ایک منظم جماعت کی شرعی ہیئت پیدا کر کے زندگی بسر کرنی چاہیے اور جہاں تک عزم و نیت کا تعلق ہے ہجرت کے ولولہ و تہیہ سے خالی نہیں رہنا چاہیے۔ ہندوستان کی ایک ایسی جماعت کا قائم ہو جانا موجودہ حالات کی بنا پر اصلی کام ہو گا۔

’ہجرت کے تمام اعمال تنظیم و جماعت کے ساتھ انجام پانے چاہییں۔ اس بات کا فیصلہ کرنا صاحبِ جماعت کا کام ہے کہ کس شخص کو فوراً ہجرت کرنا چاہیے اور کس شخص کی استعداد ایسی ہے کہ اس کا قیام اندرونی خدمات کے لیے مطلوب و مفید ہے۔ نیز ہجرت کی جائے تو کس مقام پر اور کن حالات کے ساتھ کہ موجب ثمرات و برکات ہو، ہر شخص بہ طور خود ان امور کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔‘

فتوے کے آخر میں مولانا آزاد نے کہا تھا: ’یہ میری رائے ہے میری بصیرت ہے میرا یقین و ایمان ہے۔ نہ کوئی قیاس رائے اور پولٹیکل حکمت عملی۔ تمام یورپ اسلامی حکومت سے نکل چکا، بغداد اور شام جا چکے، لیکن ایمان باقی ہے۔ اب ہم کو قسطنطنیہ کا بچاؤ نہیں کرنا ہے بلکہ اپنے ایمان کا بچاؤ درپیش ہے۔

’اگر قسطنطنیہ و بغداد کو نہیں بچا سکتے تو کم از کم اپنا ایمان تو بچائے جائیں۔ میں نے آخری فیصلہ کر لیا ہے اور پورے اطمینان و انشراح قلب کے ساتھ اس مسلک پر مستقیم ہوں جس طالب حق کو مجھ پر اعتماد ہو اللہ کی راہ میں میرا ساتھ دے۔

’بالفصل طریقِ عمل یہ ہے کہ جن مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ توفیق عمل دے وہ فوراً مجھے اپنے عزم سے مطلع کریں یا مولوی عبدالقادر وکیل (قصور، ضلع لاہور)، مولوی محی الدین احمد (قصور، ضلع لاہور)، مولانا محمد داؤد غزنوی (امرتسر) اور مولوی عبدالرزاق ملیح آبادی ایڈیٹر البیان (لکھنؤ) سے مل کر تفصیلی ہدایات حاصل کر لیں۔‘

مولانا آزاد نے فتویٰ دیا یا مولانا عبدالباری نے؟

بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ہجرت کا فتویٰ مولانا آزاد نے نہیں بلکہ مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے دیا تھا۔ درحقیقت جو فتویٰ ان سے منسوب کیا جاتا ہے وہ اصل میں مولانا آزاد کے فتویٰ کے بعد ہجرت کے شرعی جواز کے متعلق پوچھے جانے والے ایک سوال کا جواب تھا۔ تاہم اپنے جواب میں انہوں نے ہجرت کی تائید کی تھی۔

عدیل عباسی لکھتے ہیں: ’مولانا عبدالباری اس وقت ہندوستان کے مسلمانوں کے مسلمہ قائد تھے اور عام ہوں یا خواص، انگریزی تعلیم یافتہ ہوں یا علما سب میں یکساں مولانا کا ایسا وقار تھا کہ کسی بڑے پیمانے کی تحریک کا سوائے ان کی جانب سے ہونے کے اور کوئی جواز ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔‘

دراصل امرتسر سے تعلق رکھنے والے غلام محمد عزیز المعروف عزیز ہندی نے ہجرت کے متعلق مولانا عبدالباری سے توضیح طلب کی تھی کہ کیا موجودہ حالات میں ہندوستان سے ہجرت شریعت اسلامی کے مطابق صحیح ہے۔

مولانا عبدالباری نے عزیز ہندی کو جو جواب دیا تھا اس پر عدیل عباسی نے اپنی کتاب میں ایک طویل تبصرے کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ فتویٰ نہیں بلکہ ہجرت کے متعلق ایک سوال کا جواب تھا۔

’افغانستان میں اس سلسلے میں جتنی کوتاہ اندیشی ہوئی اتنی ہی بد انتظامی ہندوستان میں ظہور پذیر ہوئی۔ کسی کو اس کا خیال تک نہ آیا کہ امیر صاحب (افغان بادشاہ) کے بیانات کے بعد کابل میں کسی کو خط لکھ کر یا ایک آدمی کو بھیج کر معلوم کریں کہ ان مہاجروں کی پذیرائی اور ان کے بسنے کے لیے کیا انتظامات کیے گئے ہیں۔

مولانا باری نے عزیز ہندی کے سوال کے جواب میں کہا تھا: ’ہجرت کے متعلق میں اعلان کرتا ہوں کہ وہ تمام مسلمان جو اپنے ضمیر قلب یا ایمان کو مطمئن نہیں کر سکتے وہ اب اسلام کے احکام کے مطابق عمل پیرا ہوں اور اس ملک سے ہجرت کر کے ایسے مقام پر چلے جائیں جہاں اسلام کی خدمت انجام دینا اور اسلامی قوانین کے مطابق عمل کرنا بہتر طریقے سے ممکن ہو۔‘

عدیل عباسی لکھتے ہیں ’مولانا عبد الباری کے جواب کے سیاق و سباق سے معلوم ہو جاتا ہے کہ انہوں نے نہ ہجرت کی دعوت دی، نہ اس کو فرض واجب قرار دیا۔ صرف ان لوگوں پر جائز کر دیا جو جانا چاہتے تھے۔‘

شاہد حسین کی مرتب کردہ کتاب ’تحریکِ ہجرت‘ میں معین الدین عقیل لکھتے ہیں: ’مولانا عبدالباری نے جب اپریل 1920 میں غلام محمد عزیز امرتسری (عزیز ہندی) کے ایک استفسار کا جواب تار (ٹیلی گرام) سے دیا تو اس میں انہوں نے ہندوستان سے ہجرت کر جانے کی تائید کی۔‘

اُس زمانے میں دہلی سے شائع ہونے والے اخبار حریت کے مدیر عارف ہسوی نے مولانا عبدالباری کے اس برقی تار سے بھیجے گئے مضمون کو اپنے اخبار میں شائع کر دیا۔ اسے بعد ازاں پیسہ اخبار (لاہور)، زمیندار (لاہور)، خلافت (بمبئی) اور ہندوستان کے دوسرے اخباروں نے اس طرح شائع کیا گویا مولانا عبدالباری ہجرت کے کٹر حمایتی ہیں اور پھر یہ تاثر عام ہو گیا کہ مولانا موصوف نے ہی ہجرت کے متعلق فتویٰ دیا۔

بعد میں مولانا باری نے ایک بیان جاری کر کے اس غلط فہمی کو دور کیا۔ معین الدین عقیل لکھتے ہیں: ’مولانا نے اس تاثر کی تردید میں ایک وضاحتی بیان جاری کیا کہ انہوں نے ہجرت کا فتویٰ جاری نہیں کیا ہے بلکہ صرف اسے پسندیدہ قرار دیا ہے۔ ان کے خیال میں کابل کی حکومت قابل اعتبار نہیں تھی اس لیے مسلمانوں کو ہجرت نہیں کرنا چاہیے۔‘

لیکن اس کے برعکس کرنل ظفر حسن ایبک نے اپنی خودنوشت ’آپ بیتی‘ میں مولانا عبدالباری کا ہی نام لیا ہے کہ ہندوستان کو دارالحرب بتا کر ہجرت کا فتویٰ انہی دیا تھا۔

ظفر حسن لکھتے ہیں: ’صوبہ یو پی کے مولانا عبدالباری مرحوم نے ہندوستان کو علمائے دیوبند کی طرح دارالحرب قرار دے کر فتویٰ دیا کہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ یہاں سے ہجرت کر کے کسی دارالاسلام میں چلے جائیں۔ اس پر پنجاب اور صوبہ سرحد کے مسلمانوں میں ہجرت کی تیاریاں ہونے لگیں۔‘

ابو سلمان شاہجہانپوری یہ بھی لکھتے ہیں: ’فتویٰ ہجرت کے سلسلے میں مولانا محمد علی، شوکت علی، مولانا ظفر علی خان، عزیز ہندی اور حضرت مولانا سید عطا اللہ شاہ بخاری کا نام بھی آیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان میں آخرالذکر کے سوا کوئی عالم دین نہیں تھا۔ ان میں سے کسی نے فتویٰ نویسی کا شغل کبھی اختیار ہی نہیں کیا۔

’مولانا محمد علی تو اس وقت ہندوستان میں موجود بھی نہ تھے۔ وہ وفدِ خلافت کے ساتھ یورپ گئے ہوئے تھے اور جب وہاں سے لوٹے تو ہنگامہ ہجرت سرد پڑ چکا تھا۔ اگر یہاں ہوتے بھی تو دونوں بھائی (محمد علی اور شوکت علی) جوش و جذبات کے پروردہ تھے۔

’مولانا ظفر علی خاں کی ذہانت و فطانت کے باب میں دو رائے نہیں ہو سکتیں لیکن وہ صرف شاعر تھے۔ وہ تحریک کے مقصد اور حالات سے محض بے خبر تھے۔ حضرت سید عطا اللہ شاہ بخاری دیوبند کی انقلابی جماعت کے خطیب تھے، ان کے فضائل و محامد کا دائرہ وسیع تھا لیکن ان کی اصل خصوصیت اور سیرت کا اصل جوہر عزیمتِ دعوت اور استقامت عمل میں تلاش کرنا چاہیے۔

’ہجرت کے باب میں ان حضرات کی کسی رائے کا حوالہ دینا ان کے مقام سے محض نا آشنائی کا ثبوت ہے۔ عزیز ہندی ایک جذباتی نوجوان تھے، ان میں نہ سیاسی شعور تھا اور نہ مدبرانہ صلاحیت، نہ عالم دین تھے، نہ ہی دانشور۔ نہ ان کی تعلیم مکمل تھی اور نہ ان کو سیاسی یا دینی کام کا تجربہ تھا۔

’1920 میں مسئلہ یہ نہیں تھا کہ ہندوستان دارالحرب ہے اس لیے یہاں سے ہجرت کر جانی چاہیے۔ خواہ کسی شخص نے اپنے کسی بیان میں ہجرت کا سبب یہی بتایا ہو۔ بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ اسلامی ممالک اور خلافت ترکیہ کے بارے میں برٹش حکومت کے رویے نے ہندوستانی مسلمانوں کو حالات کے اس مقام پر لا کھڑا کیا تھا کہ وہ اپنے غم و غصہ کے اظہار اور عالمی رائے عامہ کو برطانیہ کے مظالم، اس کی وعدہ خلافیوں اور عہد شکنیوں کے خلاف ہموار کرنے کے لیے کوئی اقدام کریں۔’

افغان بادشاہ کا بیان اور مسلمانوں کی ہجرت

ہجرت کے فتوے کے بعد مسلمان کشمکش میں تھے کہ آخر ہجرت کر کے جائیں تو کہاں جائیں۔ تاہم مولانا آزاد کے فتوے سے قبل ہی افغانستان کے بادشاہ امیر امان اللہ خان ہندوستانی مہاجروں کو پناہ دینے کا اعلان کر چکے تھے۔

ظفر حسن ایبک کے مطابق ہجرت کے فتوے کے بعد پنجاب اور صوبہ سرحد کے مسلمانوں میں ہجرت کی تیاریاں ہونے لگیں۔ لیکن ہجرت کر کے کہاں جائیں اور کس ملک میں پناہ لیں اس بارے میں ان کو تردد تھا۔

’لیکن امیر افغانستان امیر امان اللہ خان نے ایک تقریر کی تھی جس کے یہ الفاظ خاص کر قابل ذکر ہیں: افغانستان، سارے کا سارا ملک، ہندوستانی مہاجروں کو پناہ دینے پر تیار ہے۔‘

ہجرت کے فتوے پر سادہ لوح مسلمانوں نے اپنے گھر اور کھیت آدھے مول پر بیچ دیے اور نتیجہ و عاقبت کو سوچے بغیر افغانستان کی طرف روانہ ہو گئے۔۔۔ وہ سمجھتے تھے کہ افغانستان میں ان کے لیے سرکاری خزانے کا منہ کھلا ہوا ہے جہاں وہ جاتے ہی مالدار ہو جائیں گے حالاں کہ اس کا امکان نہ تھا، کیوں کہ افغانستان ایک چھوٹا سا اور پسماندہ ملک ہے۔

کتاب ’تحریکِ ہجرت‘ میں معین الدین عقیل لکھتے ہیں: ’امان اللہ خان نے صورت حال کو اپنے مطابق ڈھالنے کے لیے جو تدابیر اختیار کیں ان میں برطانوی ہندوستان کی حکومت پر مختلف صورتوں میں دباؤ ڈالنا بھی شامل تھا۔ چناں چہ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے اضطراب سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کا ارادہ کیا۔ انہوں نے کابل میں اپنے والد کی برسی کے موقعے پر 20 یا 21 فروری 1920 کو ہندوستانیوں کو افغانستان آنے کی عام اجازت دے دی۔‘

محمد نعیم قریشی نے لکھا ہے کہ امان اللہ خان نے اپنی تقریر میں ایمان اور خلافت کے دفاع کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے کی بات کہی تھی اور ’کافر طاقتوں‘ کی طرف سے خلافت کے معاملے کے حل کے لیے کسی بھی تجویز کی شدید مخالفت کی تھی۔

ادھر تحریک خلافت کے کارکنوں نے اپنی ایک کانفرنس جو اپریل 1920 میں دہلی میں منعقد ہوئی، میں افغانستان بادشاہ کی پیش کش کو قبول کرتے ہوئے ہجرت کی ضرورت پر زور دیا۔ اس پیش کش کے متعلق طرح طرح کی رپورٹیں اخبارات میں شائع ہوئی تھیں۔ نتیجتاً سارے ملک میں مذکورہ پیشکش کی خبر پھیل گئی تھی اور ہجرت کے لیے جوش و خروش پیدا ہو گیا تھا۔

ظفر حسن لکھتے ہیں: ’ہجرت کے فتوے پر سادہ لوح مسلمانوں نے اپنے گھر اور کھیت آدھے مول پر بیچ دیے اور نتیجہ و عاقبت کو سوچے بغیر افغانستان کی طرف روانہ ہو گئے۔ ان بےچاروں کے اس جوش میں نہ صرف ان کی مذہب دوستی کا دخل تھا بلکہ ایک حد تک ان کی مالی خرابی کا بھی اثر تھا۔

’وہ سمجھتے تھے کہ افغانستان میں ان کے لیے سرکاری خزانے کا منہ کھلا ہوا ہے جہاں وہ جاتے ہی مالدار ہو جائیں گے حالاں کہ اس کا امکان نہ تھا، کیوں کہ افغانستان ایک چھوٹا سا اور پسماندہ ملک ہے۔‘

اخبار ’زمیندار‘ کے ایڈیٹر عبدالمجید سالک اپنی خودنوشت ’سرگزشت‘ میں مذکورہ تحریک کے بارے میں لکھتے ہیں: ’سندھ کے شیخ جان محمد جونیجو کی سرکردگی میں سندھ اور پنجاب کے مسلمان ہجرت کے لیے کمریں باندھ رہے تھے۔ لوگوں میں یہ جذبہ عام ہو گیا تھا کہ اب ہندوستان سے ہجرت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ امیر امان اللہ کے بیان کے بعد ہزارہا مسلمانوں نے اپنی جائیدادیں اونے پونے بیچ کر قافلے بنا لیے اور سرحد پار کر کے افغانستان میں داخل ہو گئے۔

’شیخ جان محمد نے ایک سپیشل ٹرین کا انتظام کیا اور صدہا سندھی سرفروش مہاجرین کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ جب یہ سپیشل ٹرین لاہور سے گزرنے والی تھی تو ہم لوگ رات کے وقت شاہدرہ سٹیشن پر گئے۔ جہاں لاہور کے ہزاروں مسلمان اپنے مہاجر بھائیوں کی پذیرائی کے لیے جمع تھے۔ حضرت پیر تاج محمود امروٹی اور بعض دوسرے بزرگ علما مہاجرین کو یہاں پہنچانے کے لیے قافلے کے ساتھ تھے۔ قافلہ مقام بہ مقام پشاور پہنچا اور وہاں سے افغانستان کو چل دیا۔‘

مہاجروں کی اکثریت پیدل روانہ ہوئی تھی اور جن لوگوں نے اپنے اہل و عیال کو ساتھ لیا تھا انہوں نے بیل گاڑیوں پر سامان لاد کر ان کو ان پر سوار کیا یا کرائے پر گاڑیاں لیں۔ کچھ لوگ گھوڑوں، خچروں اور ٹٹوؤں پر سامان لاد کر روانہ ہوئے تھے۔

مولوی احمد علی (لاہور)، خان عبدالغفار خان (جو بعد میں واپس پشاور لوٹ آئے تھے)، محمد اسلم خان (بلوچستان)، عزیز ہندی (امرتسر)، اقبال شیدائی، احمد شاہ خان، عثمان (بھوپال) وغیرہ کے نام ظفر حسن ایبک نے اپنی خودنوشت میں گنائے ہیں جو ہجرت کر کے کابل پہنچے تھے اور جن سے ان کی ذاتی ملاقاتیں بھی ہوئیں۔

ابو سلمان شاہجہانپوری لکھتے ہیں کہ 1920 میں مسلمانانِ ہند کی ہجرت نہ اسلامی تھی نہ حالات کی سنگینی میں مظلومانہ فرار۔ ’یہ محض ایک حادثہ تھا اور ایک ایسا عمل جس کا عنوان مذہبی اور مقاصد سیاسی تھے۔‘

محمد نعیم قریشی نے اپنے مقالے میں لکھا ہے کہ اس ہجرت کی وجہ سے غریب کسان اپنا سامان انتہائی کم قیمت پر بیچنے پر مجبور ہو گئے۔

’بعض سرحدی علاقوں میں دس ہزار روپے کی زمین ایک سو روپے میں بھی نہ بک سکی۔ دو سو روپے کی گائیں اور بھینسیں 40 روپے میں فروخت ہوئیں۔ فصلوں اور مکانات کی قیمتوں کا بھی یہی حال تھا۔‘

افغان بادشاہ کی پیشکش حقیقتاً سنجیدگی پر مبنی نہیں تھی۔ ہجرت پر آمادہ کرنے کا ان کا مقصد انگریزوں کو طیش دلانا تھا اور اس طرح مسوری میں ہونے والی برٹش افغان کانفرنس میں اپنی سودے بازی کی پوزیشن کو مضبوط کرنا تھا۔

عبدالمجید سالک مہاجروں کے جوش و خروش اور نتائج کے متعلق لکھتے ہیں: ’جذبات انسانی کی کیفیت عجیب ہے۔ یہ مخلص اور جوشیلے مسلمان جوش و خروش سے ایک دینی حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنے وطن کو ترک کر رہے تھے۔

’پھر چند ماہ بعد جب امیر امان اللہ کی حکومت نے لشکرِ جرار کی آبادکاری سے عاجز آ کر اس کو جواب دے دیا تو ان مہاجرین کی عظیم اکثریت لٹ پٹ کر واپس آ گئی اور اس تحریک کا، جو محض ہنگامی جذبات پر مبنی تھی، نہایت شرمناک انجام ہوا۔‘

مہاجرین کے مصائب

محمد نعیم قریشی نے لکھا ہے کہ افغان بادشاہ کی پیشکش حقیقتاً سنجیدگی پر مبنی نہیں تھی۔

’ہجرت پر آمادہ کرنے کا ان کا مقصد انگریزوں کو طیش دلانا تھا اور اس طرح مسوری میں ہونے والی برٹش افغان کانفرنس میں اپنی سودے بازی کی پوزیشن کو مضبوط کرنا تھا۔‘

ظفر حسن نے لکھا ہے کہ افغانستان میں ہندوستانی مہاجروں کو بسانے کا اور کوئی باقاعدہ مدد دینے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔

’افغانستان میں اس سلسلے میں جتنی کوتاہ اندیشی ہوئی اتنی ہی بد انتظامی ہندوستان میں ظہور پذیر ہوئی۔ کسی کو اس کا خیال تک نہ آیا کہ امیر صاحب (افغان بادشاہ) کے بیانات کے بعد کابل میں کسی کو خط لکھ کر یا ایک آدمی کو بھیج کر معلوم کریں کہ ان مہاجروں کی پذیرائی اور ان کے بسنے کے لیے کیا انتظامات کیے گئے ہیں۔

’نہ ہی کسی کی عقل میں یہ بات آئی کہ ان مہاجروں کو چھوٹے چھوٹے قافلوں کی شکل میں اور چند چند روز کے فاصلے سے بھیجا جائے تاکہ ایک قافلے کے رہنے کا اچھی طرح انتظام ہو جانے کے بعد دوسرا قافلہ روانہ کیا جائے۔‘

کتاب ’تحریکِ خلافت‘ میں قاضی محمد عدیل عباسی لکھتے ہیں: ’کابل میں افغانیوں کی طرف سے مہاجرین کی سخت مخالفت ہوئی۔ ملکی اور غیر ملکی کا بھی سوال پیدا ہوا، حکام افغانستان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔

’مہاجروں کو امید تھی کہ افغانی سرحد پر پہنچنے کے بعد ان کے لیے سواری کا انتظام ہو گا، لیکن افغانستان میں نہ زیادہ گھوڑے گاڑیاں تھیں اور نہ ہی تانگہ۔‘

ظفر حسن کے مطابق محض جلال آباد میں چند ایک تانگے کرایہ پر مل جاتے تھے۔

افغانی سرحد سے جلال آباد تک مہاجر بڑی بے سرو سامانی کے عالم میں پہنچے۔ وہاں سے بعض مہاجروں نے خود ہی اپنے لیے سواری کا انتظام کیا تھا، لیکن ان کی سواریاں (گھوڑے، بیل گاڑی وغیرہ) انہیں پہاڑی راستے کی وجہ سے کابل تک بھی نہ لے جا سکی تھیں۔

ظفر حسن لکھتے ہیں: ’پہلے قافلے کے بعد جو قافلے آئے ان کو تو کوئی سواری ہی نہیں ملی، جو اپنی بیل گاڑیاں لائے تھے ان کے بیلوں کو چارہ نہ مل سکا۔ ان مہاجروں کے کھانے پینے کا کوئی انتظام بھی نہیں تھا۔

’جلال آباد میں نہ کوئی ہوٹل تھا نہ ریسٹورنٹ، کھانے کی چند ایک دکانیں تھیں جن میں کھانا بہت ہی نکما تھا اور زیادہ مقدار میں بھی موجود نہ ہوتا تھا اس لیے ان بے چاروں کو اپنے پیسوں سے بھی روٹی نہ مل سکی۔‘

بعد میں جلال آباد کے سپہ سالار نے حکومت سے منظوری لے کر مہاجروں کو روٹی کھانا دیا، لیکن ان کے ہاتھ میں بھی نہ کافی روپیہ تھا اور نہ انتظام اور نہ ہی ایسے ذرائع موجود تھے کہ ہزاروں افراد کی ضروریات کو ایک دم پورا کریں۔

ظفر حسن اپنی خودنوشت میں رقم طراز ہیں: ’میں نے جلال آباد میں مہاجروں کی ناگفتہ بہ حالت دیکھی جو افغانی گورنمنٹ کی مدد کے باوجود بھی بہت پریشان تھے۔

’قافلے پے در پے جلال آباد اور وہاں سے کابل پہنچنے لگے۔ شروع میں ان کو خیموں میں چمن حضوری میں جگہ دی گئی۔ لیکن ان سب کے لیے قابلِ اطمینان انتظام ناممکن تھا۔ بے چاری پردہ پوش عورتیں وہاں سخت مشکلات میں مبتلا ہوئیں، بعض بداخلاق کابلیوں نے ان پر سخن اندازی بھی کی۔‘

مہاجروں کے کابل پہنچنے کے بعد جب ان کے حالات خراب ہوئے تو انہوں نے اپنے مال و اسباب کو بیچنا شروع کیا جس کو کابل والوں نے آدھے دام میں بھی نہیں لیا۔ چوں کہ مہاجر فارسی زبان سے ناواقف تھے اس لیے بھی ان کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

جب مہاجروں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا تو ان کو افغانستان کے دوسرے علاقوں مثلاً پنج شیر، قطغن، بدخشاں اور ترکستان کو روانہ کیا گیا۔ پہاڑی راستہ، مہاجروں کی بے سرو سامانی، کھانے پینے کی قلت ایسی مشکلات تھیں کہ ان پر قابو پانا ناممکن تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چند لوگ ترکستان پہنچے وہاں سے وہ لوگ تاشقند چلے گئے۔ کچھ قطغن اور بدخشاں میں آباد ہوئے لیکن وہ بھی مالی مشکلات کی وجہ سے پنپ نہ سکے۔ باقی واپس کابل کو لوٹ گئے اور وہاں سے ہندوستان آ گئے۔ ان کی دیکھا دیکھی کابل میں ٹھہرے ہوئے مہاجر بھی پشاور کی جانب سب کچھ لٹ لٹا کر لوٹنے لگے۔

ظفر حسن لکھتے ہیں: ’آخر اب یہ سیلاب الٹا پھرا اور ہندوستان کی طرف مڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہزاروں سادہ لوح مسلمان اپنے گھر بار سے محروم ہو گئے۔ افغانستان پر مالی بوجھ پڑا، ہندوستانی مسلمان افغانوں سے اور افغان ہندوستانی مسلمانوں سے کبیدہ خاطر بنے۔ اگر اس سے کسی نے فائدہ اٹھایا تو وہ صرف انگریز تھے۔‘

ابو سلمان شاہجہانپوری لکھتے ہیں: ’تحریک ہجرت کی بدولت قوم کو بہت نقصان اٹھانے پڑے، سینکڑوں خاندان تباہ و برباد ہو گئے۔ لیکن اس واقعے سے ملک کی آزادی اور اسلامی ممالک کی آزادی اور ان کی سیاست سے برصغیر کے مسلمانوں کی دلچسپی کا اندازہ بھی ہو گیا اور اس سے یہ بھی پتہ لگ گیا کہ مسلمان قومی اور ملی زندگی کے قیام و استحکام کے لیے ایثار و قربانی کی راہ میں کتنی دور تک جا سکتے ہیں اور کیا کچھ کر سکتے ہیں۔‘

قاضی عدیل عباسی لکھتے ہیں: ’بعد میں جب مہاجرین سے افغانستان خالی کرنے کو کہا گیا تو ان میں سے کچھ نے ایران جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کی اطلاع ایرانی حکومت کو ہوئی تو وہاں کے اخبارات نے ان مہاجرین کا زبردست خیر مقدم کیا۔

’مہاجرین کا قافلہ ایران کی طرف جب روانہ ہوا تو افغانی دور کھڑے پکار رہے تھے، ’مارو ان ہندوستانیوں کو یہ چور ہیں۔‘ لیکن قبل اس کے کہ قافلہ اور آگے بڑھتا انور پاشا (اسماعیل انور پاشا) نے ایک خط امیر امان اللہ خان کو لکھ کر مشورہ دیا کہ مہاجرین کو جانے نہ دیں ورنہ ان کی حکومت کل دنیائے اسلام میں بدنام ہو جائے گی۔

’چناں چہ مہاجرین واپس بلا لیے گئے لیکن مشکلات وہی تھیں اور رفتہ رفتہ سب لوگ بہت کچھ کھو کر واپس ہندوستان آ گئے۔ کچھ حاصل نہ ہوا صرف اس تحریک کی تباہیاں اور بربادیاں مسلمانانِ ہند کو ایک دائمی سبق دے گئی کہ ان کے لیے اپنے وطن کے باہر کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘

محمد نعیم قریشی کے مطابق ہجرت کا راستہ اختیار کرنے والوں میں سے بالآخر 75 فیصد مہاجر مایوس اور تھک ہار کر ہندوستان واپس آ گئے۔

کسی نے غور نہیں کیا کہ آیا ہندوستان سے تمام مسلمان ہجرت کر جائیں گے یا کچھ لوگ ہجرت کریں گے اور کچھ یہاں رہ کر ملک و قوم کی خدمت کریں گے۔ ہجرت کرنے والوں کے سامنے کیا مقاصد ہیں؟ بس ہر طرف ایک ہنگامہ برپا تھا۔ چاروں طرف سے ہجرت ہجرت کی آواز کے ساتھ افغانستان چلو کے نعرے بلند ہو رہے تھے۔

’دوسروں نے یا تو افغانستان میں رہنے کا انتخاب کیا یا وہ باکو اور تاشقند چلے گئے یا پھر تھکن یا بیماری کی وجہ سے ازجان ہو گئے۔ افغانستان میں رہنے والوں میں سے تقریباً پانچ سو افغان فوج میں بھرتی ہوئے۔‘

کرنل ظفر حسن ایبک کی خودنوشت کے پیش لفظ میں شریف الحسن لکھتے ہیں: ’تحریک ہجرت کا سانحہ ہائلہ الگ سخت عبرت انگیز و المناک ہے اور ہندی مسلمانوں کی سادہ لوحی و خود فریبی کی آپ مثال ہے۔

’محلِ استعجاب ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے لوگ اور نام نہاد قائدینِ ملت اور زعما امت بین الملل (بین الاقوامی) سیاست سے کس درجہ ناآشنا اور ممالکِ اسلامیہ کے حق میں کس قدر خوش فہمیوں میں مبتلا تھے۔‘

’تحریکِ ہجرت‘ کی ناکامی کی وجوہات

ابو سلمان شاہجہانپوری کے مطابق جن لوگوں نے تحریک شروع کی تھی ان کے پاس کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں تھا۔

’1920 میں خلافت کمیٹی اور جمعیت علمائے ہند یہ دو جماعتیں سیاست میں بہت پیش پیش تھیں۔ لیکن ہجرت کے بارے میں ان کے رہنماؤں سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا۔

’کسی نے غور نہیں کیا کہ آیا ہندوستان سے تمام مسلمان ہجرت کر جائیں گے یا کچھ لوگ ہجرت کریں گے اور کچھ یہاں رہ کر ملک و قوم کی خدمت کریں گے۔ ہجرت کرنے والوں کے سامنے کیا مقاصد ہیں؟ بس ہر طرف ایک ہنگامہ برپا تھا۔ چاروں طرف سے ہجرت ہجرت کی آواز کے ساتھ افغانستان چلو کے نعرے بلند ہو رہے تھے۔‘

حالاں کہ ’ہجرت دفاتر‘ قائم کیے گئے تھے جہاں ہجرت کرنے والے کئی افراد نے اپنے نام اور پتہ لکھوائے تھے۔ لیکن وہاں سے مہاجروں کو کوئی ہدایت نہیں دی جاتی تھی کہ وہ افغانستان کس مقصد کے لیے جا رہے ہیں، وہاں کہاں جائیں گے، کیا کریں گے۔ ان کا ہندوستان سے اور یہاں کے رہنماؤں سے رابطہ کیسے برقرار رہے گا؟

نہ ہی مہاجروں کی تربیت کو کسی نے ضروری سمجھا تھا۔ جو اس تحریک میں آگے آگے تھے اور جلسہ جلوسوں میں تقریریں کرتے تھے انہوں نے سنجیدگی کے ساتھ مذکورہ پہلوؤں پر غور ہی نہ کیا تھا۔ یہ وہ تمام پہلو ہیں جن کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے یہ تحریک ناکام ہو گئی۔

ظفر حسن ایبک لکھتے ہیں کہ ہجرت کی تحریک گو بذات خود ایک اچھی تحریک تھی لیکن بد انتظامی و بے سرو سامانی اور بغیر سوچے سمجھے چلائے جانے کی وجہ سے مفید ہونے کی بجائے سخت مضر ثابت ہوئی۔

’افغانستان پہنچنے والوں میں پڑھے لکھے بہت کم تھے۔ چند ایک ہائی سکول پاس شدہ و شاید چار پانچ گریجویٹ تھے۔ جن میں لاہور سے اقبال شیدائی، پشاور سے اکبر خان اور احمد شاہ خان، بھوپال سے مسٹر عثمانی شامل تھے۔

’گورنمنٹ کے بعض ایجنٹوں نے ان (مسلمانوں) کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر ان کو ہجرت کی ترغیب دی اور اس طرح اس تحریک کو افغانستان اور پنجاب و سرحدی مسلمانوں کے لیے ایک رحمت کی بجائے آفت بنا دیا۔‘

معین الدین عقیل لکھتے ہیں کہ ہجرت کی چند علما نے مخالفت بھی کی تھی۔

’تحریک ہجرت کو اس دور کے بعض ممتاز اور بااثر رہنماؤں مثلاً حسرت موہانی، حکیم اجمل خاں، محمد علی جناح، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، علامہ اقبال، سیف الدین کچلو، آصف علی، چودھری خلیق الزماں، سر محمد شفیع، سر فضل حسین وغیرہ کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ تحریک مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس وجہ سے ان لوگوں نے تحریک کے جوش و خروش اور ولولہ کو کم کرنے کی اپنی طرف سے کوشش بھی کی۔‘

1803 کے فتوے کی کہانی

ہندوستان میں جہاد کے نام پر فتویٰ بازی اور ہجرت 1920 سے قبل بھی ہوتی رہی۔ لیکن ہجرت اجتماعی طور پر نہ ہو کر کسی ایک خاندان یا ایک دو فرد تک ہی محدود ہوتی تھی۔

ابو سلمان شاہجہانپوری لکھتے ہیں: ’ہندوستان سے مسلمانوں کے عرب و حجاز اور دوسرے ممالک کو ہجرت کرنے کے واقعات تاریخ کے ہر دور میں ملتے ہیں۔ ہجرت کا یہ سلسلہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے فتویٰ دارالحرب سے پہلے بھی جاری تھا اور بعد میں بھی جاری رہا۔ لیکن یہ ہجرتیں افراد کی یا زیادہ سے زیادہ خاندانوں کی ہوتی تھیں۔ ہندوستان سے اجتماعی ہجرت کا کوئی واقعہ 1920 سے پہلے پیش نہیں آیا تھا۔‘

1857 کی پہلی جنگِ آزادی سے تقریباً 54 سال قبل یعنی 1803 میں عہد مغلیہ کے معروف عالم دین شاہ ولی اللہ کے فرزند شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا تھا۔

ان کا اپنے فتوے میں کہنا تھا کہ ’ہندوستان اب دارالاسلام نہیں رہا بلکہ دارالحرب ہو گیا ہے۔‘ تاہم اُس وقت یعنی 1803 میں کوئی ہجرت نہیں ہوئی تھی۔

محمد نعیم قریشی لکھتے ہیں کہ بھلے ہی محدث دہلوی کے فتوے پر فوری ردعمل نہ آیا ہو لیکن یہ (فتویٰ) بار بار سر اٹھاتا رہا۔ ’اکثر اوقات اس کا حل اسلامی اصولوں کی آزمودہ تشریح میں تلاش کیا گیا جو جہاد تھا یا ہجرت۔‘

ابو سلمان شاہجہانپوری لکھتے ہیں: ’ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد اور مخصوص حالات کی بنا پر ہجرت کو انہوں نے (شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے) ضروری نہیں سمجھا۔ یہی عقیدہ ان کے بعد ان تمام علما کا رہا جو ہندوستان کے دارالحرب ہو جانے کا یقین رکھتے تھے۔‘

کیا واقعی ہندوستان دارالحرب بن چکا تھا؟

برطانوی راج کے دوران ہندوستان ’دارالحرب‘ تھا یا ’دارالاسلام‘ اس کے تعلق سے ڈاکٹر معین الدین عقیل اپنی کتاب ’تحریکِ ہجرت‘ میں لکھتے ہیں: ’ان کے (شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے) خیال میں جب کافر کسی اسلامی ملک پر قابض ہو جائیں اور اس ملک کے مسلمانوں کے لیے یہ ممکن نہ رہے کہ وہ ان کو اس سے باہر نکال سکیں۔

’ان (کافروں) کو باہر نکالنے کی کوئی امید باقی نہ رہے اور ان کی طاقت میں یہاں تک اضافہ ہو جائے کہ وہ اپنی مرضی سے اسلامی قوانین کو جائز یا ناجائز قرار دیں اور کوئی انسان اتنا طاقتور نہ ہو جو کافروں کی مرضی کے بغیر ملک کی مالگزاری پر قبضہ کر سکے اور مسلمان اس امن و امان سے زندگی بسر نہ کر سکیں جیسا کہ وہ پہلے کرتے تھے تو وہ ملک سیاسی اعتبار سے دارالحرب ہو جائے گا۔‘

ابو سلمان لکھتے ہیں: ’اگر فتویٰ دارالحرب کو مذہبی اصطلاحوں سے قطع نظر کر لیا جائے تو یہ ہندوستان کی آزادی کی تحریک کا اولین اعلان یا چارٹر تھا۔

’علمائے ہند نے اسی لیے دارالحرب ہند کے حالات بدلنے اور انقلاب برپا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ علما کے اس منصوبے کا مقصد طاقت اور قوت کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار اور برٹش حکومت کا تختہ پلٹنا اور خلافت کو برقرار رکھنا تھا۔ اس کے تحت اپنی کاوشوں کو جاری بھی رکھا۔‘

اگرچہ شاہ عبد العزیز کے فتوے پر ہجرت نہیں ہوئی تھی لیکن جہادی تحریکیں وجود میں آ گئی تھیں۔

1828 میں مولانا عبدالحی نے کلکتہ اور اس کے نواحی علاقوں کو دشمنوں کے علاقوں سے تعبیر کیا تھا۔ ان کے خیال میں عیسائیوں (انگریزوں) کی پوری سلطنت کلکتہ سے لے کر دہلی تک سب کی سب دارالحرب ہے کیوں کہ کفر اور شرک ہر جگہ رواج پا چکا ہے۔

ہندوستان کو دارالحرب ماننے والے اور نہ ماننے والے علما کے متعلق ابو سلمان شاہجہانپوری لکھتے ہیں: ’ہندوستان میں دارالحرب کے نظریے پر یقین رکھنے والا صرف دیو بندی مکتبہ فکر کا ایک گروپ اور اہل حدیث جماعت کا ایک حصہ تھا۔‘

ڈاکٹر معین الدین عقیل لکھتے ہیں: ’انگریزوں کے عہد میں ہندوستان کے دارالحرب یا دارالاسلام ہونے کا مسئلہ علما میں اختلاف رائے کا مظہر رہا ہے۔ دارالحرب کے مسئلہ کا زیادہ تر حل جہاد یا ہجرت میں تلاش کیا گیا۔ اسی طرح علما کا رویہ بھی انگریزوں کے ساتھ تعاون یا عدم تعاون کے لحاظ سے مختلف رہا ہے۔

’خود شاہ عبدالعزیز اور ان کے شاگردوں و ان سے فیض یافتہ جماعت مجاہدین کا رویہ ہندوستان کے دارالحرب ہونے کے متعلق غیر متوازن رہا ہے۔ 1857 کی جنگِ آزادی کے دوران جہاد کا تصور مسلمان علما کے درمیان واضح صورت اختیار کر چکا تھا۔ لیکن اس کے باوجود سبھی علما اس میں شریک نہیں تھے۔‘

شاہ عبدالعزیز کے فتوے کے بعد مولوی کرامت علی نے، جو جماعت مجاہدین کے ایک اہم رکن تھے، 1838 میں ہندوستان چھوڑ کر دارالاسلام مکہ یا مدینہ ہجرت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ جبکہ مولانا اسحاق نے 1840 میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ مکہ معظمہ ہجرت بھی کی اور وہاں سے ہندوستان کی تحریکِ آزادی کی رہنمائی کا کام انجام دیا۔

1867 میں نواب قطب الدین خان نے اپنی تصنیف ’جامع التفاسیر‘ میں دارالحرب کے مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے اس کا ایک متبادل ’ہجرت‘ کو قرار دیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ