طالبان دھڑوں میں لڑائی: شمالی افغانستان سے ہزاروں ہجرت پر مجبور

زہرہ کا خاندان ان ہزاروں افراد میں شامل ہے جو طالبان اور بامیان کے سابق انٹیلی جنس چیف مہدی مجاہد کے وفادار جنگجوؤں کے درمیان ہونے والی لڑائی سے فرار ہو گئے تھے۔

شمالی افغانستان میں طالبان فورسز اور ایک سابق کمانڈر کی قیادت میں الگ ہونے والے گروپ کے درمیان لڑائی گذشتہ ماہ شروع ہوئی، جس نے ہزاروں لوگوں کو علاقے سے دربدر ہونے پر مجبور کردیا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق زہرہ نامی خاتون اور ان کا خاندان بھی انہی لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے پہاڑوں میں پناہ لینے کی کوشش کی۔

دنوں تک وہ لڑائی سے بچنے کے لیے اونچے نیچے راستوں پر چلتے رہے، یہ نہ جانتے ہوئے کہ وہ صوبے سر پل میں ضلع بلخاب میں اپنے گھر کب واپس جا سکیں گے، جو لڑائی کا مرکز بھی ہے۔

35 سالہ زہرہ نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر فرضی نام بتاتے ہوئے کہا، ’ہم پھنسنا نہیں چاہتے تھے۔۔۔ ہم سب مارے جا سکتے تھے۔‘

زہرہ کا خاندان ان ہزاروں افراد میں شامل ہے جو طالبان اور بامیان کے سابق انٹیلی جنس چیف مہدی مجاہد کے وفادار جنگجوؤں کے درمیان ہونے والی لڑائی سے فرار ہو گئے تھے۔

نسلی، مذہبی فرقہ واریت، اور بلخاب کے منافع بخش کوئلے کے ذخائر اس لڑائی کی بڑی وجوہات ہیں۔

آسٹریلیا میں مقیم سیاسی تجزیہ کار نعمت اللہ بزہان نے اے ایف پی کو بتایا: ’یہ تمام عوامل تنازعے کو آگے بڑھانے میں مل کر کام کر رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شیعہ اور ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کمانڈر مجاہد نے 2019 میں طالبان میں شمولیت اختیار کی تھی اور انہیں گذشتہ سال اگست میں طالبان کے اقتدار پر کنٹرول حاصل کرنے کے فوراً بعد عہدہ ملا تھا۔

افغانستان کے شیعہ ہزارہ کو کئی دہائیوں سے ظلم و ستم کا سامنا ہے۔ جب طالبان نے 1996 سے 2001 تک پہلی بار حکومت کی تو ان پر کمیونٹی کے ساتھ برے برتاؤ کا الزام بھی لگایا گیا۔

طالبان معمول کے مطابق اپنی صفوں میں لڑائی کی خبروں کی تردید کرتے آئے ہیں، لیکن جون میں مقامی میڈیا نے کہا کہ جب کابل کے حکام نے کوئلے کے کاروبار پر زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی تو مجاہد طالبان قیادت سے الگ ہو گئے۔

بلخاب کوئلے کی متعدد کانوں کا گڑھ ہے اور پاکستان کے ساتھ حالیہ مہینوں میں کوئلے کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔

مقامی طالبان کمانڈر پاکستان جاتے ہوئے ٹرکوں پر ’ٹیکس‘ عائد کرتے ہیں لیکن جب مجاہد نے اس عمل کو کنٹرول کرنے کی کابل کی کوششوں کی مزاحمت کی تو ان کو برطرف کر دیا۔

جون کی لڑائی صرف چند دنوں تک جاری رہی، لیکن اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس نے کم از کم 27 ہزار افراد کو بے گھر کیا، جن میں سے تقریباً سبھی ہزارہ تھے۔

نتیجے میں ایک انسانی بحران نے جنم لیا جس سے نمٹنے کے لیے امدادی ادارے اب جدوجہد کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی متعدد امدادی ایجنسیوں نے مدد کی کوشش کی ہے لیکن وہ تمام بے گھر ہونے والوں تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں کیونکہ بہت سے لوگ اب بھی پہاڑوں میں چھپے ہوئے ہیں۔

زہرہ، جن کے خاندان نے بامیان کے ایک گاؤں کی مسجد میں پناہ حاصل کرنے کے لیے دنوں کا سفر کیا، کہتی ہیں: ’ ہم لڑائی کے بیچ پھنسنا نہیں چاہتے تھے ورنہ ہم سب مارے جاتے۔ ہم پھر وہاں سے بھاگ گئے اور نہ ختم ہونے والے پہاڑی سلسلے میں پھنس گئے۔ ہم پیاسے سوتے اور بھوکے اٹھتے تھے۔ ہم صبح اٹھ کر پھر سے سفر شروع کر دیتے تھے۔‘

بلخاب کے رہائشی بارات علی سبہانی نے بھی اسی مسجد میں پناہ لے رکھی تھی۔

انہوں نے بتایا: ’ہمارے پاس کچھ نہیں تھا۔ بس جو کپڑے پہنے تھے انہیں میں نکل گئے۔‘

ان کے سات رکنی خاندان چار دنوں تک چلتا رہا۔ پھر ایک چرواہے نے انہیں اس مسجد کی راہ دکھائی۔

وہ کہتے ہیں: ’اس نے ہمیں بچا لیا۔ ہمارے پاس کچھ نہیں تھا۔ ہمیں لگا ہم مر جائیں گے۔‘

بامیان کے ایک قصبے سے تعلق رکھنے والی نجیبہ مرزے کئی دنوں سے بلخاب سے آنے والوں کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔ 

مرزے، جو ایک مقامی ہسپتال چلاتی ہیں، نے بتایا کہ اس میں سے بہت سی خواتین حاملہ ہیں جو دست، متلی اور سانس کی بیماریوں کا شکار ہیں جو انہیں پہاڑوں میں سفر کرتے لگیں۔ 

امدادی ایجنسیاں بےگھر ہونے والوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہیں مگر پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔

ایسے ایک مشن کی سربراہی کرنے والے نوریالائی نے بتایا: ’ہم ساڑھے پانچ گھنٹے پیدل چلنے کے بعد بھی اس علاقے تک نہیں پہنچ سکے کیونکہ خچر گزرنے سے قاصر تھے۔‘

وزارت دفاع کے ترجمان عنایت اللہ خوارزمی کے مطابق بلخاب میں مجاہد اور ان کے پیروکار پہاڑوں میں بھاگ گئے ہیں اور لڑائی رک گئی ہے۔

لیکن انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے طالبان فورسز پر عام شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا الزام لگایا۔ کابل نے اس الزام کی تردید کی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا