اقوام متحدہ: طالبان حکومت میں ہونے والی ہلاکتوں کی مذمت

اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق اگست 2021 کے وسط میں طالبان حکومت کے بعد سے اب تک افغانستان میں سات سو افراد ہلاک اور چودہ سو زخمی ہو چکے ہیں۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے رپورٹ کو’بے بنیاد اور پروپیگنڈا‘ قرار دیا۔

کابل میں ایک بیکری کے باہر بھیک مانگتی خاتون اور دو گاہک (19 جولائی 2022، اے ایف پی)

اقوام متحدہ کی بدھ کو جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق ’تقریباً ایک سال قبل طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد سے افغانستان میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں حالاں کہ اس کے بعد مجموعی طور پر سکیورٹی صورت حال میں بہتری آئی ہے۔‘

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد خواتین کی پسماندگی اور افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کے دور میں عورتوں کو ان کے بہت سے انسانی حقوق سے محروم کیے جانے کے بارے میں بھی روشنی ڈالی ہے۔

اقوام متحدہ کے افغانستان کے لیے نائب خصوصی نمائندے مارکس پوٹزل نے کہا ہے کہ ’یہ وقت ایسا نہیں ہے کہ تمام افغان امن سے زندگی گزار سکیں اور 20 سال تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد اپنی زندگی کی تعمیر نو کر سکیں۔ ہماری نگرانی سے پتہ چلتا ہے کہ 15 اگست سے سلامتی کی بہتر صورت حال کے باوجود افغانستان کے عوام خصوصا خواتین اور لڑکیوں کو مکمل  انسانی حقوق سے حاصل نہیں ہیں۔‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگست 2021 کے وسط میں طالبان کے افغان دارالحکومت کابل پر قبضے کے بعد سے اب تک سات سو افراد ہلاک اور چودہ سو زخمی ہو چکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ان ہلاکتوں میں سے زیادہ تر کا تعلق ملک میں داعش سے وابستہ تنظیم (داعش خراسان) کے حملوں سے ہے۔ داعش طالبان کی بڑی حریف ہے جس نے نسلی اور مذہبی اقلیتی برادریوں کو سکولوں اور  عبادت گاہوں اور روزمرہ کی زندگی  کے مقامات پر نشانہ بنایا۔

افغانستان میں شہریوں پر مسلسل بمباری اور دوسرے حملے ہوتے رہے ہیں جن میں اکثر شیعہ مسلم نسلی ہزارہ اقلیت کو نشانہ بنایا گیا۔ زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی۔

اقوام متحدہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان نے سابق سرکاری عہدے داروں کے لیے معافی کو جاری نہیں رکھا جس کا اعلان گذشتہ سال کیا گیا تھا۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی نمائندہ فیونا فریزر نے کہا کہ اقوام متحدہ نے افغانستان میں ماورائے عدالت قتل کے 160 واقعات اور سابق سرکاری اور فوجی حکام کی 178 گرفتاریاں ریکارڈ کیں۔

رپورٹ کے مطابق حکام کو لازمی طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرنی چاہیے۔ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور مستقبل میں ایسے واقعات کو دوبارہ رونما ہونے سے روکا جائے۔

دوسری جانب طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو’بے بنیاد اور پروپیگنڈا‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ رپورٹ میں دیے گئے نتائج’درست نہیں ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں من مانی گرفتاریوں اور کسی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے اور اگر کوئی اس طرح کے جرائم  کا ارتکاب کرتا ہے تو اسے قصووار سمجھا جائے گا اور اسے قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ سال اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے تیزی سے سخت پابندیاں لگانی شروع کر دی تھیں اور وہی بنیاد پرستانہ اقدامات کیے جو انہوں  نے 1996 سے 2001 تک برقرار رہنے والی حکومت کے دوران کیے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ خواتین کو حقوق سے محروم کر دینے کا معاملہ آج کے دن تک سب سے قابل ذکر پہلو رہا ہے۔ اگست کے بعد سے خواتین اور لڑکیوں کے لیے تعلیم، ملازمت، عوامی اور روزمرہ زندگی تک رسائی کے مواقعے محدود کر دیے گئے یا انہیں اس حق سے مکمل طور پر محروم کر دیا گیا۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو سیکنڈری سکول واپس نہ جانے کی اجازت نہ دینے کے فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ لڑکیوں کی ایک نسل  بنیادی تعلیم کے 12 سال مکمل نہیں کرے پائے گی۔

اقوام متحدہ کے نمائندے پوٹزل کے بقول: ’تعلیم اورعوامی زندگی میں خواتین اور لڑکیوں کی شرکت کسی بھی جدید معاشرے کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کو گھر تک محدود کر دینے سے افغانستان اس اہم کردار کے فوائد سے محروم ہو جائے گا جو وہ ادا کر سکتی ہیں۔ تعلیم سب کے لیے  نہ صرف بنیادی انسانی حق ہے بلکہ یہ ایک قوم کی ترقی اور تعمیر کی کلید ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا