افغانستان کی ’علما کانفرنس‘: طالبان کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

افغان خواتین کا کہنا ہے کہ افغانستان کی آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے اور اگر ان کو نظر انداز کیا گیا تو افغان عوام سے متعلق کانفرنس کا کوئی فیصلہ منصفانہ نہیں ہو گا۔

کابل میں 29 جون 2022 کو علما اور اہم شخصیات کی کانفرنس سے قبل سکیورٹی پر تعینات طالبان اہلکار (اے ایف پی)

افغانستان کے دارالحکومت کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں ایک کانفرنس کا آغاز ہوا ہے جس میں ملک کے ہر ضلعے سے دو علما اور اثر و رسوخ رکھنے والی ایک شخصیت کے علاوہ شہری علاقوں سے بھی دو قومی شخصیات اور ایک دینی عالم کو دعوت دی گئی ہے۔ امکان ہے کہ اس اجلاس میں تین ہزار تک افراد شریک ہوں گے۔

طالبان حکومت کے گذشتہ سال قیام کے بعد جمعرات کو شروع ہونی والی کانفرنس علما اور اہم شخصیات کی اب تک کی سب سے بڑی کانفرنس ہے جس میں امکان ہے کہ شرکا حکومتی پالیسیوں کی حمایت کریں گے جس سے طالبان کو امید ہے کہ ان کی حکومت کو تقویت ملے گی۔  

اب تک کسی ملک نے طالبان کی اسلامی امارت کی حکومت تسلیم نہیں کی ہے جبکہ طالبان کا موقف ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت انہوں نے حکومت کو تسلیم کرنے کی شرائط پوری کر لی ہیں جس میں پورے ملک پر ان کا کنٹرول بھی شامل ہے۔

کابل میں وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے ساتھ 27 جون کو ایک انٹرویو میں کابل میں ہونے والی دینی علما اور اہم شخصیات کی کانفرنس سمیت اہم معاملات پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔

منتظمین نے کانفرنس کے ایجنڈے سے متعلق تفصیلات جاری نہیں کیں، اس لیے میں نے یہ سوال سراج الدین حقانی کے سامنے رکھا کہ کیا یہ کانفرنس دنیا کے اکثر ممالک کی جانب سے طالبان سے ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام کے مطالبے کے نتیجے یا دباؤ میں تو منعقد نہیں ہو رہی؟

اس کے جواب میں انہوں نے کہا، ’علما اور معاشرے میں اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیات کا مسلسل یہ مطالبہ تھا کہ چونکہ نئی حکومت قائم ہو گئی ہے اس لیے ان کے پاس جو قیمتی اور مفید مشورے ہیں وہ طالبان قیادت کے ساتھ شریک کرنا چاہتے ہیں۔ ان شخصیات کا موقف تھا کہ 20 سال گزر گئے ہیں اور جنگ ختم ہو گئی ہے تو ایک مجلس کی ضرورت ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’کانفرنس میں شاید اہم موضوعات پر بحث ہو جائے اور ہمیں امید ہے کہ اس کانفرنس کے بعد مزید نشستیں ہوں گی تاکہ ملک میں جو بداعتمادی کا مسئلہ حل ہو سکے۔‘

سابق صدر حامد کرزئی سمیت دیگر رہنماؤں کا طالبان سے مسلسل یہ مطالبہ رہا ہے کہ طالبان اپنی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کروانے کا مطالبہ کرنے سے پہلے ملک کے اندر قانونی حیثیت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ دوسری جانب طالبان کا اصرار ہے کہ ان کی حکومت وسیع البنیاد ہے جس میں تمام اقوام شامل ہیں، لیکن ملک کی اکثریت طالبان کے اس موقف سے متفق نہیں ہے۔

علما اور اہم شخصیات کی کانفرنس طالبان کی جانب سے ایک کوشش ہو سکتی ہے تاکہ دنیا کو بتایا جائے کہ وہ دیگر لوگوں کو مشوروں میں شریک کرنا چاہتے ہیں۔

کابل میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ علما کانفرنس کے ذریعے طالبان شاید یہ کوشش کر رہے ہیں کہ عوام اسلامی امارات اور اس کے امیر ملا ہبت اللہ کے امیر المومنین کے عہدے کی توثیق کریں۔ اس کانفرنس میں امیر کے ساتھ بیعت کا اعلان ہو سکتا ہے۔

اقوام متحدہ اور کئی دیگر بین الاقوامی فورمز میں اسلامی امارت کی بحالی کی مخالفت کی گئی تھی لیکن مخالفتوں کے باوجود طالبان نے اگست میں ملک پر کنٹرول کے بعد اسلامی امارت افغانستان کے قیام اور ملا ہبت اللہ کے امیر المومنین ہونے کا اعلان کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے علاوہ انہوں نے افغانستان کے قومی پرچم کو ہٹا کر اپنے سفید جھنڈے کو سرکاری پرچم قرار دیا ہے۔

اب دیکھنا ہے کہ طالبان حکومت کانفرنس کے شرکا سے قانونی حیثیت حاصل کرنے اور بیعت لینے کی کوشش کرتے ہیں یا نہیں؟

طالبان کی پچھلی حکومت میں علما کی ایک بڑی کانفرنس میں طالبان تحریک کے بانی ملا محمد عمر کے ساتھ بیعت کی گئی تھی۔ اسی کانفرنس کو طالبان کی حکومت کو قانونی حیثیت کے لیے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔

جرگہ نام کیوں نہیں رکھا؟

توقع کی جا رہی تھی کہ طالبان روایتی ’لویہ جرگہ‘ طلب کر کے قبائلی، قومی مشران اور سیاسی رہنماؤں کو شرکت کی دعوت دیں گے اور اہم معاملات پر ان کی رائے لے کر فیصلے کریں گے۔

ابتدا میں اس کانفرنس کے لیے ’لویہ جرگہ‘ کا نام بھی استعمال ہوتا رہا لیکن بعد میں طالبان نے ’جرگہ‘ کا لفظ ترک کر کے اسے ’علما اور اہم شخصیات کے اجتماع‘ کا نام دے دیا۔

افغانستان میں لویہ جرگہ کی پرانی تاریخ ہے۔ یہ پشتو زبان کی اصطلاح ہے جس کے تحت ملک کے اہم مسائل کے حل کے لیے قبائلی رہنماؤں یا مشران کو مدعو کیا جاتا ہے۔

افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے 2002 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد طالبان سے امن مذاکرات اور ان کے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کے لیے لویہ جرگہ بلایا تھا اور ان کی تجاویز کی روشنی میں طالبان کے قیدی رہا کر دیے گئے تھے۔

طالبان نے ماضی میں ہونے والے تمام جرگے مسترد کر دیے تھے۔ چونکہ 20 سال قبل ہونے والے اس لویہ جرگہ میں طالبان متاثرہ فریق تھے، شاید یہی وجہ ہے کہ وہ لویہ جرگہ کا نام استعمال نہیں کرنا چاہتے، اسی لیے انہوں نے روایتی لویہ جرگہ کی بجائے اس اکٹھ کو علما اور اہم شخصیات کے اجتماع کا نام دیا ہے۔

خواتین کی نمائندگی کہاں ہے؟

علما اور اہم شخصیات کی اس کانفرنس پر تنقید بھی ہو رہی ہے۔ جون 28 کو کابل میں کئی خواتین نمائندوں نے ایک پریس کانفرنس میں مطالبہ کیا کہ کانفرنس میں خواتین کی شمولیت کے لیے اقدامات اٹھانے چاہییں۔ ان کا موقف تھا کہ افغانستان کی آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے اور اگر ان کو نظر انداز کیا گیا تو افغان عوام سے متعلق کانفرنس کا کوئی فیصلہ منصفانہ نہیں ہو گا۔

طالبان کے نائب وزیر اعظم مولوی عبدالسلام حنفی نے بدھ کو سرکاری نیشنل ٹیلی ویژن کو انٹرویو میں کہا کہ مرد مندوبین خواتین کی جانب سے بات کریں گے۔ ’خواتین ہماری مائیں ہیں، بہنیں ہیں، ہم ان کا بہت احترام کرتے ہیں۔ جب ان کے بیٹے شریک ہیں تو ایک طرح سے وہ بھی شامل ہیں۔‘

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے اگرچہ کانفرس سے متعلق تفصیلات جاری نہیں کی گئیں تاہم انہیں امید ہے کہ کانفرنس میں لڑکیوں کی تعلیم اور انسانی حقوق سے متعلق خوشخبری سنائی جائے گی۔

تنظیم کے افغانستان کے لیے نمائندے کا کہنا ہے انہیں کانفرنس سے بڑی توقعات ہیں کہ لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق پیش رفت ہو جائے گی۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ثانوی تعلیم سے متعلق طالبان رہنماؤں کا موقف مختلف ہے اور یہ کانفرنس شاید یہ مشکل حل نہ کر سکے۔

طالبان حکومت نے اس وقت تک لڑکیوں کے سرکاری سکولوں میں چھٹی جماعت سے اوپر کلاسوں کی تعلیم کی اجازت نہیں دی ہے۔ خواتین کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کے نمائندوں اور طالبان کے علاوہ دیگر علما نے تمام اقوام کو بھی کانفرنس میں دعوت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ کابل میں ٹی وی چینلوں کے مطابق طالبات نے مطالبہ کیا ہے کہ کانفرنس ان کے ہائی سکول کھولنے کا فیصلہ کرے کیونکہ تعلیمی اداروں کی بندش سے ان کا تعلیمی نقصان ہو رہا ہے۔

سخت سکیورٹی

کانفرنس سے پہلے کابل شہر میں سکیورٹی بہت سخت کی گئی ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ جگہ جگہ نئی چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں۔ کابل میں ایک سفارت کار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگست میں طالبان حکومت بننے کے بعد کابل شہر میں ایسے سکیورٹی اقدامات کبھی نہیں دیکھے گئے۔

افغان اسلامک پریس نامی ایک نجی نیوز ایجنسی نے ایک رپورٹ کہا ہے کہ کانفرنس میں طالبان کے امیر ملا ہبت اللہ کے شریک ہونے کا بھی امکان ہے تاہم طالبان نے اس متعلق کچھ بھی نہیں کہا ہے۔

طالبان کا کہنا ہے کہ امیر ملا ہبت اللہ قندھار میں طالبان اہلکاروں سے مشورے کرتے رہتے ہیں تاہم وہ ابھی تک کسی پبلک فورم یا میڈیا کے سامنے نہیں آئے۔ چند دن پہلے طالبان اہلکاروں نے کہا کہ ان کے امیر نے قندھار میں تاجروں کے ایک وفد سے ملاقات کی تھی اور عید الفطر کے موقعے پر عید کے اجتماع سے خطاب کیا تھا۔

یہ معلوم نہیں کہ کیا افغانستان میں موجود کئی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد جیسے حامد کرزئی، ڈاکٹر عبد اللہ عبداللہ اور گلبدین حکمت یار جیسے سیاسی رہنماؤں کو دعوت دی گئی ہے یا نہیں۔

طالبان کی اپیل پر حالیہ ہفتوں میں سابق حکومتوں سے وابستہ کئی اہم شخصیات ملک واپس آئی ہیں جن کا کابل پہنچنے پر طالبان رہنماؤں نے استقبال کیا تھا، لیکن یہ واضح نہیں کہ آیا ان شخصیات کو کانفرنس میں کوئی جگہ ملے گی۔

طالبان کے لیے کانفرنس کی بہت اہمیت ہے کیونکہ اس میں ان کی حکومت کی حمایت کی جا سکتی ہے۔ دنیا اور افغانستان میں کانفرنس کی اہمیت اس وقت بڑھ سکتی ہے اگر اس میں طالبان کے علاوہ سیاسی اور مذہبی شخصیات کو دعوت دی جائے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ