طالبان کی بڑھتی سیاسی اور سفارتی مشکلات

پنج شیر اس وقت طالبان کے لیے درد سر بن گیا ہے اور وہاں مقامی لوگوں کی طالبان مخالف کارروائیوں میں ہلاکتوں کے بعد طالبان کے لیے حالات مزید مشکل لگتے ہیں۔

12 اکتوبر 2021 کی اس تصویر میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں موجود طالبان وفد کے ارکان کو دیکھا جا سکتا ہے(فائل فوٹو: اے ایف پی)

افغانستان میں طالبان حکومت کے لیے سیاسی اور سفارتی محاذوں پر بڑھتی ہوئے مشکلات کے ساتھ ساتھ سکیورٹی چیلنجوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

پنج شیر صوبے کے مختلف علاقوں میں مسلح مزاحمت کے علاوہ کئی شمالی صوبوں میں بھی طالبان مخالف واقعات میڈیا میں رپورٹ ہو رہے ہیں۔

طالبان مخالف اتحاد ’قومی مزاحمتی فرنٹ‘ کے ترجمان صبغت اللہ احمدی مسلسل طالبان کے خلاف مزاحمت اورحملوں میں طالبان جنگوؤں کے جانی نقصان کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں، لیکن طالبان پنج شیر لڑائی کی تصدیق سے مسلسل انکاری ہیں۔

طالبان نے گذشتہ سال ستمبر میں پنج شیر پر کنٹرول تو حاصل کر لیا تھا لیکن یہ کنٹرول برقرار رکھنا اتنا آسان ثابت نہیں ہو رہا۔

 تاجک اکثریتی پنج شیر صوبے سے متعلق آگاہی رکھنے والوں کا خیال ہے کہ طالبان کو پنج شیر پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال بالکل بھی نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ وہاں اس وقت کوئی مسلح مزاحمت موجود نہیں تھی، لیکن طالبان تقریباً سارے افغانستان پر قبضہ کر چکے تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ علاقہ ان کی عمل داری سے باہر رہے۔

پنج شیر کے مسئلے کے حل کے لیے طالبان رہنماؤں اور پنج شیر کے علما اور عمائدین کے درمیان کابل میں کئی نشستیں ہوئی تھیں لیکن طالبان اس پر بضد تھے کہ احمد مسعود اور ان کا گروہ ہتھیار ڈال دے، جو ان کے لیے ممکن نہیں تھا اور وہ شاید اپنے والد احمد شاہ مسعود کی طرح کسی کے سامنے سرنڈر کرنے پر بالکل بھی راضی نہیں تھے۔

اگر طالبان پنج شیر والوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کر لیتے تو معاملات شاید اتننے پیچیدہ نہ ہوتے جتنے اب طالبان کے لیے بن چکے ہیں۔

جب امریکہ افغانستان آیا تھا تو وہ ایک مفاہمت کے تحت مسلح محافظین کے ساتھ پنج شیر میں داخل نہیں ہوا تھا۔ اگر امریکی یا نیٹو کے فوجی کبھی پنج شیر میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے گورنر یا دیگر اعلیٰ حکام سے ملتے تھے تو وہ غیرمسلح اور بغیر سکیورٹی محافظین ان سے ملاقاتیں کرتے تھے۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ روایتی طور پر پنج شیر کے لوگ باہر سے آنے والے لوگوں سے متعلق بڑے حساس ہوتے ہیں۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ برس اپنی کامیابی کی لہر میں طالبان نے پنج شیر کی اس حساسیت کو نظر انداز کر دیا جو اب مزاحمت کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔

احمد شاہ مسعود کے ایک ساتھی کے مطابق حتیٰ کہ روسیوں کے خلاف لڑنے والے مجاہدین بھی جہادی کارروائیوں کے بعد واپسی پر اسلحے سمیت پنج شیر میں داخل نہیں ہوتے تھے۔

 ان کا کہنا ہے کہ احمد شاہ مسعود بھی پنج شیر میں ہوتے تھے تو ان کے ساتھ مسلح محافظ نہیں ہوتے تھے۔ احمد شاہ مسعود 2001 میں ستمبر میں ایک خود کش حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔ ان پر القاعدہ کے ایک مبینہ رکن نے صحافی بن کر انٹرویو کے دوران خودکش حملہ کیا تھا۔

امریکہ اور نیٹو نے مختلف علاقوں میں فوجی مراکز اور اڈے تعمیر کیے تھے لیکن پنج شیر میں ان کا کوئی مرکز نہیں تھا اور اگر وہ پنج شیر کے لیے کوئی ترقیاتی منصوبہ بھی بناتے تھے تو بگرام سے ان کے معاملات کنٹرول کرتے تھے۔

 کابل میں پنج شیر سے متعلق اجلاسوں میں طالبان کو مشورہ دیا گیا تھا کہ لڑائی سے پنج شیر جانے کی کوشش نہ کریں لیکن وہ جانے پر بضد تھے کیونکہ وہ اس وقت جذباتی تھے۔

 طالبان نے اس وقت کسی کی بات نہیں مانی، اس وقت پنج شیر میں کوئی مسلح لوگ نہیں تھے اور اس وجہ سے طالبان نے پنج شیر پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا اور وہاں کے لوگ سخت سردی میں پہاڑوں اور وادیوں میں چلے گئے تھے۔

 لیکن طالبان نے جب پہاڑوں میں مخالفین کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تو ان کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ طالبان کا جانی نقصان ہوا کیونکہ وہ ان پہاڑی سلسلوں سے ناآشنا تھے۔

طالبان نے کبھی بھی پنج شیر میں لڑائی کی تصدیق نہیں کی ہے بلکہ تردید کرتے رہے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر ایسی بہت سی ویڈیوز شیئر کی گئی ہیں جن میں تابوتوں میں طالبان کی میتیں جنوبی افغانستان میں جہاز سے اتارتے ہوئے دکھائی گئی ہیں۔

اس وقت طالبان کے مسلح مخالفین پہاڑوں میں رہتے ہیں۔ اب طالبان نے پہاڑوں میں چوکیاں قائم کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے انہیں وسائل پہنچاتے ہیں جو شاید طالبان کے لیے آسان نہیں ہو گا کیونکہ وہ اس پہاڑی سلسلے سے ناواقف ہیں۔ طالبان نے کبھی بھی پنج شیر میں لڑائی نہیں لڑی ہے۔

میرے خیال میں معاملات شاید پنج شیر تک محدود نہ رہیں گے بلکہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موسم کی تبدیلی کے ساتھ دیگر شمالی علاقوں میں بھی مزاحمت شروع ہو سکتی ہے۔

طالبان کے ایک اور منصوبے کے مطابق وہ پنج شیر کے لوگوں کی دو تا پانچ ہزار سکیورٹی اہلکاروں کی ایک فوج بنانا چاہتے ہیں۔ یہ تجویز وزیر دفاع ملا محمد یعقوب، نائب وزیراعظم ملا برادر اور نائب وزیر دفاع ملا فاضل نے گذشتہ ماہ دورہ پنج شیر کے دوران مقامی لوگوں کو دی تھی کہ وہ پنج شیر کا دفاع خود کریں اور مخالف اتحاد کے خلاف کھڑے ہو جائیں لیکن مقامی لوگوں نے ابھی تک طالبان کی یہ تجویز نہیں مانی ہے۔

اگرچہ طالبان پنج شیر میں لڑائی یا مزاحمت کی تردید کرتے ہیں لیکن ایک ہفتے میں دو اہم رہنماؤں کا دورہ وہاں نازک حالات کی نشاندہی کے لیے کافی ہے۔ طالبان ایئر فورس کے سربراہ امان الدین منصور نے بھی سکیورٹی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے پنج شیر کا دورہ کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پنج شیر اس وقت طالبان کے لیے درد سر بن گیا ہے اور وہاں مقامی لوگوں کی طالبان مخالف کارروائیوں میں ہلاکتوں کے بعد طالبان کے لیے حالات مزید مشکل لگتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طالبان نے ایک حل شدہ مسئلہ اپنے لیے تازہ کر لیا ہے۔

یہ معاملات شاید پنج شیر تک محدود نہ رہیں بلکہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موسم کی تبدیلی کے ساتھ دیگر شمالی علاقوں میں بھی مزاحمت شروع ہو سکتی ہے۔ طالبان مسلح مزاحمت کے بارے میں بڑے حساس ہیں اور وہ فوری طور پر مزاحمت کچلنے کے لیے حرکت میں آ جاتے ہیں، پنج شیر اس کی ایک بڑی مثال ہے۔

 افغانستان کے شمالی علاقے ویسے بھی کبھی طالبان کے زیر اثر نہیں رہے ہیں کیونکہ وہاں غیر پشتونوں کی اکثریت والے علاقوں میں طالبان کی حمایت نہ ہونے کے برابر تھی۔

طالبان نے کم از کم دو مرتبہ شمالی شہر قندوز پر قبضہ کیا تھا لیکن وہ کبھی بھی قبضہ برقرار نہیں رکھ سکے۔ قندوز شمالی افغانستان کا واحد صوبہ ہے جہاں پشتونوں کی آبادی تقریباً 50 فیصد ہے۔

مسلح مزاحمت کے لیے طالبان مخالف شخصیات اور گروہ سیاسی اور سفارتی دباؤ بھی بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔

ترکی میں تقریباً 40 مخالف رہنماؤں کے اجلاس میں افغانستان کے مختلف علاقوں میں مسلح مزاحمت کی حمایت بھی کی گئی۔ چند دن پہلے افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی ٹام ویسٹ نے ترکی میں کئی طالبان مخالف رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں، جو ان کے لیے سیاسی تقویت کا باعث ہے۔

 طالبان کے لیے ہر سطح پر چیلنجوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ طالبان کے دنیا کے ساتھ تعلقات میں تناؤ پیدا ہو رہا ہے۔ ترکی جو کہ پہلے طالبان مخالفین کو کسی اجتماع کی اجازت نہیں دیتا تھا گذشتہ ماہ وہاں 40 سے بھی زیادہ طالباں مخالفین کو اجلاس کرنے کی اجازت دی گئی اور اجلاس کے بعد ایک مشترکہ بیان جاری کرنے کے بعد طالبان مخالف شوریٰ بنانے کا اعلان بھی ہوا ہے۔

طالبان کی موجودہ پالیسیاں شاید انہیں دنیا میں مزید تنہا کر دیں کیونکہ وہ نہ تو ایک وسیع البنیاد حکومت پر راضی ہیں اور نہ اپنے وعدے کے باوجود چھٹی جماعت کے بعد طالبات کو تعلیم کی اجازت دے رہے ہیں۔

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جن سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ