’حیران کن نہیں‘: طالبان کا ٹی وی میزبانوں کو چہرہ ڈھانپنے کا مشورہ

طالبان انتطامیہ نے ٹیلی ویژن براڈکاسٹرز کو تاکید کی ہے کہ مقامی سٹیشنز پر خواتین میزبان اپنے چہرے ڈھانپ لیں، جس پر بہت سی خواتین نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حکم کوئی نئی بات نہیں۔

طالبان کی وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ترجمان عاکف مہاجر نے کہا کہ ٹی وی پر خواتین میزبان میڈیکل فیس ماسک پہن سکتی ہیں جیسا کہ کرونا وبا کے دوران بہت دیکھا گیا (ویڈیو سکرین گریب/ اے ایف پی)

افغانستان میں طالبان انتظامیہ کی جانب سے عوامی جگہوں پر خواتین کو پردہ کرنے کا حکم دینے کے چند روز بعد ہی ٹی وی پر خواتین میزبانوں کے لیے بھی اپنے چہروں کو ڈھانپنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں، جس پر بہت سی خواتین نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حکم کوئی نئی بات نہیں۔

یہ طالبان کی جانب سے اپنی روایتی پالیسیوں کی طرف ایک اور قدم ہے، جسے افغانستان اور اس سے باہر تنقید کا سامنا ہے۔

طالبان کی وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ترجمان عاکف مہاجر نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’گذشتہ روز ہم میڈیا عہدیداروں سے ملے تھے اور انہوں نے ہمارا مشورہ خوشی سے قبول کرلیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ افغان اس اقدام کو پسند کریں گے۔

عاکف مہاجر نے اس اقدام کو ’مشورہ‘ تو کہا ہے لیکن ’ٹی وی پر خواتین میزبانوں کے لیے اپنے چہروں کو ڈھانپنے کی حتمی تاریخ 21 مئی ہے، جس کے بعد اس نئی ضرورت پر عملدرآمد کا آغاز ہو گا۔

عاکف مہاجر نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ اگر اس مشورے پر عمل نہ کیا گیا تو اس کے نتائج کیا ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ ’ٹی وی پر خواتین میزبان میڈیکل فیس ماسک پہن سکتی ہیں جیسا کہ کرونا وبا کے دوران بہت دیکھا گیا۔‘

افغان خبر رساں ادارے خامہ پریس کے مطابق متعدد خواتین نے اپنی آواز بلند کرتے ہوئے طالبان کے اس حکم کے خلاف ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

ان خواتین کا کہنا تھا کہ ’یہ فرمان نیا یا حیران کن نہیں ہے کیوں کہ طالبان پہلے بھی ریستورانوں اور پارکوں میں خواتین کے لیے جگہ الگ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہو چکے ہیں۔‘

یہ بھی حقیقت ہے کہ لڑکیوں کے سکول دوبارہ کھولنے کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔ اعتراض کرنے والے بعض سماجی کارکنوں کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ طالبان کے اقدامات کا مقصد خواتین کو معاشرے میں الگ تھلگ رکھنا ہے۔

مذہبی وجوہات کی وجہ سے کئی افغان خواتین سر پر سکارف لیتی ہیں لیکن اکثر شہری علاقوں میں، جیسا کہ کابل میں، چہرے کو ڈھانپا نہیں جاتا۔

افغانستان میں طالبان کے گذشتہ دور حکومت (1996 سے 2001) میں خواتین پر لازم تھا کہ وہ تمام جسم ڈھانپنے والا نیلا شٹل کاک برقع پہنیں۔

یاد رہے کہ طالبان انتظامیہ کی جانب سے عوامی جگہوں پر پردے کی ہدایت آنے پر بھی کابل میں خواتین نے احتجاج کیا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق ایسا ہی ایک احتجاج رواں ماہ پانچ مئی کو ہوا، جہاں انہوں نے ’برقع میرا حجاب نہیں‘ کے نعرے لگائے۔

طالبان کے سپریم لیڈر اور سربراہ ہبت اللہ اخونزادہ نے رواں ماہ کے آغاز میں حکم جاری کیا تھا کہ خواتین عوامی جگہوں پر مکمل پردہ کریں، جس کے لیے مثالی طور پر روایتی برقع پہنا جا سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا