ایئر انڈیا حادثہ: متاثرین کا بلیک باکس ڈیٹا منظر عام پر لانے کا مطالبہ

حکام کا کہنا ہے کہ حادثے کی مکمل تحقیقات کے لیے مزید وقت درکار ہے تاہم متاثرہ خاندان تحقیقات میں پیش رفت نہ ہونے پر مایوسی کا شکار ہیں۔

17 جون 2025 کو ممبئی میں ایئر انڈیا کے بوئنگ 787-8 ڈریم لائنر طیارے کے ٹیک آف کے دوران حادثے کا شکار ہونے والے پائلٹ سوميت سبھر وال کے والد اور والدہ اپنے بیٹے کے جسد خاکی کے قریب کھڑے ہو کر دعا کر رہے ہیں (روئٹرز)

جون میں احمد آباد میں ایئر انڈیا کے طیارہ حادثے میں مارے جانے والے افراد کے لواحقین نے باضابطہ طور پر مطالبہ کیا ہے کہ طیارے کے دونوں فلائٹ ریکارڈرز سے حاصل شدہ ڈیٹا فوری طور پر جاری کیا جائے کیوں کہ اس میں تاخیر عوام کے تحقیقاتی عمل پر اعتماد کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔

12  جون کو ایئر انڈیا فلائٹ 171 نے مغربی انڈیا کے شہر احمد آباد سے لندن گیٹ وک کے لیے اڑان بھری لیکن پرواز کے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں ایک میڈیکل کالج سے جا ٹکرائی۔ اس حادثے میں طیارے میں سوار 241 افراد اور زمین پر موجود 19 افراد مارے گئے جبکہ صرف ایک مسافر ہی معجزانہ طور پر زندہ بچ سکا۔

ایکنامک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ایک بلیک باکس حادثے کے تقریباً 28 گھنٹے بعد برآمد ہوا جبکہ دوسرے کو نکالنے میں تین دن لگے۔ دونوں ریکارڈرز کو دہلی لے جایا گیا جہاں سے دو گھنٹے کا کاک پٹ آڈیو اور 49 گھنٹے کا فلائٹ ڈیٹا حاصل کیا گیا۔

بلیک باکسز میں اونچائی، رفتار اور پائلٹوں کی گفتگو سمیت اہم ڈیٹا ہوتا ہے جو حادثے کی وجہ معلوم کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔

حادثے کے ایک ماہ بعد انڈیا کی ایوی ایشن اتھارٹی نے بین الاقوامی ضوابط کے مطابق ابتدائی رپورٹ جاری کی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ بوئنگ 787 ڈریم لائنر کے دونوں انجنوں کے فیول سوئچز کو ایک سیکنڈ کے فرق سے ’رن‘ سے ’کٹ آف‘ پوزیشن پر بدلا گیا جس کے نتیجے میں انجنز بند ہو گئے تاہم رپورٹ میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ ایسا کیوں ہوا۔

تحقیق کاروں نے پائلٹوں کی گفتگو کا خلاصہ بھی دیا جس کے مطابق ایک پائلٹ نے دوسرے سے پوچھا کہ اس نے فیول سوئچز کیوں بند کیے۔ دوسرے پائلٹ نے اس سے انکار کیا۔ رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کون سی بات کون سے پائلٹ نے کی تاہم بعد میں ذرائع کی بنیاد پر میڈیا نے بتایا کہ یہ سوال کم عمر کو پائلٹ کلائیو کندر نے فلائٹ کیپٹن سومیت سبر وال سے کیا تھا۔

انڈین حکام کا کہنا ہے کہ حادثے کی مکمل تحقیقات کے لیے مزید وقت درکار ہے تاہم متاثرہ خاندان تحقیقات میں پیش رفت نہ ہونے پر مایوسی کا شکار ہیں۔

حادثے میں اپنے کئی رشتہ داروں کو کھونے والے امتیاز علی سید نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم باضابطہ طور پر مطالبہ کر رہے ہیں کہ بلیک باکسز یعنی کاک پٹ وائس ریکارڈر اور فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر کو فوری طور پر جاری کیا جائے۔ ان آلات میں وہ اہم معلومات ہیں جو اس خوفناک سانحے کی اصل حقیقت سامنے لا سکتی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا: ’ہر گزرتا دن ہمارے نقصان کے درد کو بڑھا رہا ہے اور عوام کا ایوی ایشن سیفٹی پر اعتماد کم کر رہا ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ 60 دیگر متاثرہ خاندانوں کی نمائندگی کر رہے ہیں جن کے ’دکھ اور سوالات یکساں ہیں۔‘

فلائٹ 171 کے دونوں پائلٹ انتہائی تجربہ کار تھے اور ان کے مجموعی پرواز کے گھنٹے 19 ہزار سے زائد تھے جن میں سے 9 ہزار گھنٹے سے زیادہ بوئنگ 787 پر ہی تھے۔

ابتدائی رپورٹ کے مطابق سی سی ٹی وی فوٹیج میں دکھایا گیا کہ طیارے کا بیک اپ انجن یا ایئر ٹربائن ٹیک آف کے فوراً بعد فعال ہو گیا جو انجن کی طاقت ختم ہونے کا اشارہ تھا۔

لندن جانے والا یہ طیارہ طاقت کھونے لگا اور 650 فٹ کی بلندی پر پہنچنے کے بعد نیچے گرنے لگا۔ دونوں انجنوں کے فیول سوئچز دوبارہ ’رن‘ پر لائے گئے اور طیارے نے خودکار طور پر انجن دوبارہ چلانے کی کوشش کی مگر تب تک طیارہ میڈیکل کالج کی عمارت سے ٹکرا چکا تھا۔

اس واقعے نے ماہرین کے درمیان اس بحث کو دوبارہ جنم دیا ہے کہ آیا کاک پٹ میں ویڈیو کیمرے لگائے جانے چاہئیں یا نہیں۔

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق کے لیے قیمتی شواہد فراہم کر سکتے ہیں جبکہ پائلٹس اسے اپنے کام کی جگہ پر غیر ضروری مداخلت سمجھتے ہیں اور اسے صرف چند نایاب کیسز میں ہی مفید قرار دیتے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا