طالبان کی اقتدار میں واپسی اور امریکی افغان پالیسی

اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ داعش خراسان 12 ماہ میں افغانستان سے بین الاقوامی دہشت گردانہ حملوں کی صلاحیت حاصل کر سکتی ہے جب کہ القاعدہ اس صلاحیت کو حاصل کرنے سے دو سال دور ہے۔

12 اکتوبر 2021 کی اس تصویر میں افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی اور ان کے وفد کے دیگر افراد کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے ایک سفارتی اجلاس کے دوران دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی)

افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سے بائیڈن انتظامیہ کی افغان پالیسی طالبان حکومت کو تسلیم کیے بغیر اس کے ساتھ محدود روابط کی بنیاد پر قائم ہے۔

روس اور یوکرین تنازع نے امریکہ کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کر لیا ہے اور افغانستان کو واشنگٹن کی ترجیحات میں نیچے دھکیل دیا ہے۔

 اگرچہ امریکہ کو اس بات کا احساس ہے کہ طالبان کے ساتھ محدود روابط کی پالیسی کی طویل عرصہ نہیں چل سکتی لیکن قابل عمل متبادل نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس پر قائم ہے۔

 محدود روابط کے ذریعے، جن میں انسانی امداد کی فراہمی بھی شامل ہے، امریکہ کو امید ہے کہ وہ اپنے مفادات کو محفوظ بنانے اور سلامتی کے خدشات کو دور کرنے کے لیے طالبان سے کچھ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

موجودہ صورت حال میں امریکہ نہ تو افغانستان سے قطع تعلق کا متحمل ہو سکتا ہے اور نہ ہی طالبان کی حکومت کو مکمل طور پر تسلیم کر سکتا ہے۔

افغانستان کو فراموش کرنے کی صورت میں خانہ جنگی شروع ہونے اور اس کے نتیجے میں القاعدہ اور داعش خراسان کی طرف سے بین الاقوامی دہشت گردی کے خطرے میں تیزی آنے کا خدشہ ہے۔

اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ داعش خراسان 12 ماہ میں افغانستان سے بین الاقوامی دہشت گردانہ حملوں کی صلاحیت حاصل کر سکتی ہے جب کہ القاعدہ اس صلاحیت کو حاصل کرنے سے دو سال دور ہے۔

دوسری طرف امریکہ طالبان کی امارتِ اسلامیہ کو تسلیم کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ ان کی حکومت کو قانونی حیثیت دینے کے مترادف ہو گا جو امریکہ کے لیے قابلِ قبول نہیں۔

اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان نے صرف مرد ارکان پر مشتمل ایک پشتون اکثریتی کابینہ تشکیل دی ہے جس میں دیگر افغان نسلی اقلیتی گروہوں کو علامتی نمائندگی دی گئی ہے۔ اسی طرح لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کے کام کرنے کے حق کے بارے میں ان کی پالیسی ان کے ابتدائی موقف سے ابھی تک بہت دور ہے۔

لڑکیوں کے ثانوی تعلیمی ادارے کھولنے کے وعدوں کے باوجود طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ کے حکم نے افغانستان میں لڑکیوں کے ثانوی اسکولوں کو دوبارہ کھولنے پر پیش رفت روک دی ہے۔

اندرونی جھگڑوں اور بڑھتے ہوئے سماجی و سیاسی تناؤ کے باوجود اس وقت افغانستان میں طالبان کا کوئی قابلِ عمل متبادل نہیں ہے جو وہاں امن قائم کر سکے اور افغانستان کی علاقائی ہم آہنگی کو یقینی بنائے۔ مثال کے طور پر اگر واشنگٹن افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کی پالیسی پر عمل کرتا ہے تو اسے نئی افغان حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے مشکلات کا سامنا ہو گا۔

 تاہم امریکہ کے پاس افغانستان کے حوالے سے نہ تو سیاسی عزم ہے اور نہ ہی مالی وسائل۔ مزید برآں طالبان کی حکومت کے خاتمے سے ان کی مزاحمتی تحریک بحال ہو جائے گی جس سے افغانستان میں امریکی فوجیوں کی دوبارہ واپسی کے راستے کھل سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں حکومت کی تبدیلی کا آپشن پرانے تنازعات کو زندہ کرنے کی ایک وجہ کے سوا کچھ نہیں۔

امریکہ روس اور چین کے ساتھ محاذ آرائی سے بچنے کے لیے افغانستان میں اور اس کے پڑوسی ممالک میں فوجی اقدامات سے گریزاں ہے۔ اس وقت واشنگٹن یوکرین پر ماسکو اور تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین پر بیجنگ کے ساتھ شدید جغرافیائی سیاسی جھگڑوں میں الجھا ہوا ہے۔ لہٰذا بائیڈن انتظامیہ محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہے تاکہ افغانستان کو امریکہ اور روس اور چین کے درمیان طاقت کے مقابلے کا میدان نہ بنا دے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان میں اسی پالیسی کو آگے بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے تاکہ مشترکہ خدشات کے مسائل کو حل کرنے کے لیے طالبان حکومت پر دباؤ برقرار رکھا جا سکے۔ واشنگٹن کو خدشہ ہے کہ اگر مغربی ممالک افغانستان میں مختلف پالیسی پر عمل کرتے ہیں تو طالبان زیادہ نرم ممالک کے ساتھ بات چیت اور سخت ممالک کے سے گریز کا رویہ اپناتے ہوئے انہیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کریں گے۔

طالبان تک بھارت کی رسائی اور کابل میں اس کا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کے فیصلے کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔

محدود روابط کی پالیسی کا ایک اور مقصد افغانستان میں بدترین نتائج سے بچنا ہے مثلاً اگر افغانستان میں حالات بگڑتے ہیں تو پناہ گزینوں کی ایک بڑی لہر یورپ کی طرف بڑھے گی جو روس اور یوکرین کے تنازع کی وجہ سے پہلے ہی تنازعات سے دوچار ہے۔ اس کا نتیجہ افغانستان میں خانہ جنگی کی واپسی اور عالمی دہشت گردی میں تیز رفتار اضافے کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔

لہٰذا امریکہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کوشش کر رہا ہے کہ افغانستان کا بینکنگ نظام تباہ نہ ہو، انسانی بحران قابو سے باہر نہ ہو جائے اور لوگ، جن میں سے 97 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے رہتے ہیں، بھوک اور بیماری سے نہ مریں۔

مثال کے طور پر ویسٹرن یونین نے افغانستان میں اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کر دی ہیں، ذاتی استعمال کے لیے غیرملکی ترسیلات کی اجازت دی گئی ہے اور افغان بینکنگ سیکٹر کو عطیہ دینے والے اداروں سے عطیات اور غیرملکی امداد حاصل کرنے کے لیے اقتصادی پابندیوں سے چھوٹ دی گئی ہے۔

افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد سے افغانستان کے لیے متنوع خطرات ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ ایک طرف امریکہ کی حریف ریاستیں جیسے ایران، روس اور چین، طالبان حکومت کے ساتھ مل کر اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں جبکہ دوسری طرف القاعدہ اور داعش خراسان کا خطرہ تواتر سے بڑھ رہا ہے ۔

اگرچہ امریکہ افغانستان سے نکل چکا ہے لیکن افغانستان ابھی تک امریکہ سے نہیں نکلا۔

 واشنگٹن کے پاس بین الاقوامی دہشت گردی کے بقایا خطرے کا نامکمل ہدف ہے جو اسے مستقبل قریب تک طالبان کے ساتھ محدود روابط کی پالیسی کے تحت مصروف رکھے گا۔

 افغانستان میں بدلتے حالات مستقبل کی امریکی پالیسی کے انتخاب اور اختیارات کا تعین کریں گے۔

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ