پہلے پاکستان نے ہم پر گل پاشی کی نہ آئندہ امید ہے: افغان ترجمان

افغانستان کی وزارت پیٹرولیم و معدنیات کے ترجمان مفتی عصمت اللہ برہان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کی اقتصادی قمیض اتنی پھٹی ہوئی ہے کہ اس میں افغانستان سے ملنے والے کوئلے میں چند ملین ڈالر کے فائدے سے رفو نہیں ہو سکتا۔

افغانستان کی وزارت پیٹرولیم و معدنیات کے ترجمان مفتی عصمت اللہ برہان کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کی حکومت کا پاکستانی حکومت کے ساتھ کوئلے کی تجارت کا کوئی معاہدہ نہیں ہے اور کوئلے کو افغان حکومت مستقبل میں پاکستان کے لیے بطور ’پریشر پوائنٹ‘ استعمال کر سکتی ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے گذشتہ روز افغانستان سے کوئلے کی درآمد کے بارے میں ایک اجلاس میں بتایا تھا کہ افغانستان سے کوئلے کی درآمد سے ملک کو دو ارب ڈالرز سے زیادہ بچت ہوگی۔

وزیراعظم ہاوٴس سے جاری پریس ریلیز میں بتایا گیا تھا کہ افغانستان سے اعلیٰ کوالٹی کا کوئلہ ڈالرز کے بجائے روپوں میں درآمد کی منظوری بھی دے دی گئی۔

پریس ریلیز کے مطابق: ’افغانستان سے کوئلے کی درآمد کی وجہ سے نہ صرف سستی بجلی پیدا کرنے بلکہ اس سے ملک کو قیمتی زر مبادلہ بچانے میں بھی مدد ملے گی۔‘

بیان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے اس مد میں تمام متعلقہ اداروں کو موثر نظام بنانے کی بھی ہدایت کی۔

تاہم افغانستان کی وزارت پیٹرولیم کے ترجمان مفتی عصمت اللہ برہان نے انڈپینڈنٹ اردو کو انٹرویو میں بتایا کہ افغان طالبان کی حکومت کا پاکستان کے ساتھ کوئلے کی برآمد کا کوئی معاہدہ ہے اور نہ کوئی مفاہمتی یاداشت پر دستخط ہوئے ہیں۔

برہان نے بتایا ہے کہ ’ہم نے حکومتی سطح پر اور نہ کسی پاکستانی کمپنی کے ساتھ کوئلے کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا ہے لیکن ہم کوئلہ مقامی صنعت کاروں کو بیچتے ہیں اور یہی کوئلہ مقامی صنعت کار پھر پاکستان برآمد کرتے ہیں اور اس پر ہماری طرف سے کوئی پابندی نہیں ہے۔‘

اس سوال پر کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین کوئلے کی تجارت میں افغان طالبان کے آنے کے بعد کوئی اضافہ ہوا ہے؟ عصمت اللہ کا کہنا تھا ’ہم ڈالر اور یورو کے مزے سے باخبر ہیں اور پاکستانی کرنسی کی خراب حالت کا بھی ہمیں پتہ ہے تو پاکستان سے ہمیں کسی فائدے کی امید نہیں ہے۔‘

انہوں نے بتایا: ’ہمارے لیے پاکستان اور ان کے کوئلے کی ضرورت اہم نہیں ہے بلکہ ہمارے لیے اپنے مقامی تاجر اہم ہیں اور ہم ان کو ریلیف فراہم کر رہے ہیں۔ مقامی تاجر جس ملک کو بھی چاہیں کوئلہ بھیج سکتے ہیں لیکن بیرون ملک کوئلہ برآمد کرنے پر ہم  نے اس پر ڈیوٹی عائد کی ہے۔‘

شہباز شریف کے اس بیان پر کہ افغانستان سے کوئلے کی برآمد سے ملک کو فائدہ ہوگا، پر افغانستان کے عوام اور وہاں کے کچھ لوگوں کی جانب سے اعتراض کیا گیا تھا کہ افغانستان قومی اثاثے ’کم قیمت‘ پر پاکستان کو بیچ رہا ہے۔

اس حوالے سے عصمت الله نے بتایا: ’پاکستان کو ہماری طرف سے اور افغان عوام کی طرف سے اس کی بیان پر رد عمل کا اندازہ اب تک ہوا ہوگا اور ہم نے انتقام کے طور پر کوئلے پر فی ٹن ڈیوٹی 90 ڈالر سے بڑھا کر اب 200 ڈالر کردی ہے۔

عصمت الله نے بتایا: ’ہم مقامی تاجروں کو فی ٹن کوئلہ تین سے چار ہزار افغانی (تقریبا آٹھ ہزار پاکستانی روپے) پر دیتے ہیں اور جب یہ کان سے نکلتا ہے تو مقامی تاجروں کو تقریبا پانچ ہزار افغانی کا پڑتا ہے اور طورخم جانے تک ٹرانسپورٹ کے اخراجات سمیت فی ٹن آج کل پاکستان کو 280 ڈالر تک ملتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے تقریباً چار سال تک کوئلے پر مقامی تاجروں کے لیے 30 فیصد قیمتوں میں اضافہ کیا تھا لیکن اس کی قیمت اب بھی مقامی تاجروں کے لیے وہی ہے اور ڈیوٹی صرف اس کوئلے پر ہوگی جو ملک سے بیرون ملک برآمد کیا جائے گا۔

پاکستان اور افغانسان کے مابین کوئلے کی کتنی تجارت ہے؟

اس سوال کے جواب میں عصمت الله کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کی اقتصادی قمیض اتنی پھٹی ہوئی ہے کہ اس میں افغانستان سے ملنے والے کوئلے میں چند ملین ڈالر کے فائدے سے رفو نہیں ہو سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے لیے پاکستان یا ان کی ضرورت اہم نہیں ہے بلکہ ہم مقامی تاجروں کو آسانیاں پیدا کرتے ہے۔‘

انہوں نے بتایا،’ پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ ہم مقامی تاجروں کو کوئلہ بیچتے ہیں اور وہ پھر دیگر ممالک کو برآمد کرتے ہیں۔ اب چوں کہ پاکستان کو کوئلے کی ضرورت ہے تو اگر میں بھی تاجر ہوا تو پاکستان ہی کو بیچتا کیوں کہ دیگر پڑوستی ممالک تاجکستان، ایران اور دیگر ممالک کو کوئلے کی ضرورت نہیں ہے، وہاں کوئلہ وافر مقدار میں موجود ہے۔‘

افغانستان میں کوئلے کی کتنی کانیں ہیں؟

عصمت الله سے جب پوچھا گیا کہ افغانستان میں کتنا کوئلہ پیداہوتا ہے، تو اس کی جواب میں ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں موجودہ وقت میں 80 کوئلے کے کان موجود ہیں جن میں ہم نے 63 کان ریزرو میں رکھی ہیں تاکہ اس کو مستقبل میں افغانستان کی بہتر معاشی صورتحال کے لیے استعمال کیا جا سکے جبکہ باقی 17 کانیں ابھی آپریشنل ہیں۔

عصمت الله نے بتایا،’ صرف ان 17 کانوں میں 35ہزار ملین ٹن سے زائد کوئلے کے ذخائر موجود ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر 10 ہزار ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے جو سال کا تقریبا 180لاکھ ٹن ہے۔

افغان طالبان کی وزارت معدنیات کے ترجمان عصمت الله سے جب پوچھا گیا کہ اگر افغان طالبان نے پاکستان کے لیے کوئلے کی ڈیوٹی میں اضافہ کیا ہے تو اگر پاکستان افغانستان برآمد کی جانے والی چیزوں میں اضافہ کرے تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا: ’نہ پہلے پاکستان نے ہم پر کوئی گل پاشی کی ہے اور نہ ہمیں آئندہ کے لیے امید ہے۔‘

انہوں نے بتایا: ’پاکستان نے ہمارے لوگ گرفتار کیے ہیں اور طورخم اور سپین بولدک پر ہمارے بزرگوں کو تنگ کیا جاتا ہے تو ہمارے لیے پاکستان کے کوئلے کی مانگ اہم نہیں ہے اور ہم زیادہ توجہ مقامی  تاجروں پر رکھتے ہیں۔‘

پاکستان افغانستان سے اب کوئلہ کیوں خرید رہا ہے؟

پاکستان زیادہ تر کوئلہ جنوبی افریقہ سے خریدتا ہے تاہم ماہرین کے مطابق جنوبی افریقہ گذشتہ سال کے آخر میں  خراب سیاسی صورت حال کی  وجہ سے  کوئلے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے کیوں کہ ان کو ٹرانسپورٹ کا مسئلہ درپیش تھا۔

افریقہ میں 2021 جولائی میں سابق  صدر جیکب زوما کی توہین عدالت کے مقدمے میں گرفتاری کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک اٹھی تھی جو شدت اختیار کر گئی۔

رپورٹس کے مطابق یہ افریقہ میں سول نافرمانی تحریکوں میں سے سخت تحریک تھی۔ انہیں حالات کی وجہ سے افريقہ کے کوئلے کی قیمت میں بھی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

دنیا بھر میں کوئلے سمیت مختلف اشیا کی خرید و فروخت پر نظر رکھنے والے ادارے ایس اینڈ پی گلوبل کی رپورٹ کے مطابق حالیہ دنوں میں پاکستان نے جنوبی افریقہ سے کوئلے کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے خریداری کم کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان اب افغانستان کے کوئلے پر نظریں مرکوز کیے ہوئے ہے تاکہ ان کو کم قیمت پر کوئلہ بھی مل جائے اور پاکستان میں کوئلے کی طلب بھی متاثر نہ ہو۔

ایس پی کی اسی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان میں کوئلے کے بحران کی وجہ سے مختلف صنعتوں میں یا تو پلانٹس عارضی طور پر بند ہیں یا کم مقدار میں مال بنا رہے ہیں۔

رپورٹ میں لکھا گیا: ’پاکستان اپنی ضرورت کا تقریباً 70 فیصد کوئلہ جنوبی افریقہ سے برآمد کرتا ہے لیکن گذشتہ چند مہینوں میں افریقہ کے حالات اور یوکرین تنازے کی وجہ سے مزید گمبھیر ہوگئی جس سے قیمتوں میں اضافہ ہوگیا اور پاکستان میں افریقہ سے کوئلہ خریدنا کم کردیا ہے۔‘

اس رپورٹ کے مطابق، ’پاکستان افغانستان کے کوئلے کو دیکھ رہا ہے اس کے باوجود کہ افغانستان کا کوئلہ اچھی کوالٹی کا نہیں لیکن ضرورت کو پورا کرنے کے لیے افغانستان سے خرید رہے ہیں جبکہ دوسری جانب ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے لوگ تنگ آگئے ہیں۔ افریقہ سے درآمد تب ہی شروع ہوسکتی ہے جب فی ٹن کوئلہ کی قیمت 250 ڈالر تک گر جائے۔‘

اسی رپورٹ میں افریقہ کی فی ٹن کوئلے کی قیمت کا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق چار جنوری کو افریقہ کی فی ٹن کوئلے کی قیمت تقریبا 107 ڈالر تھی لیکن مئی کی 20 تاریخ کو فی ٹن قیمت 289 ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔

افریقہ کے علاوہ پاکستان انڈونیشیا، اور آسٹریلیا سے بھی کوئلہ درآمد کرتا ہے۔ آرگوس میڈیا، جو دنیا کی کموڈٹی پر نظر رکھتا ہے، کی ایک رپورٹ کے مطابق 2021 کے اوائل سے جنوبی افریقہ سے کوئلے کی درآمدات کم ہوگئی ہے کیوں کہ افریقہ سے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ آرہا ہے تھا۔

اسی رپورٹ کے مطابق کوئلے کی برآمد افریقہ سے 2020 میں تقریبا 65 فیصد تھی جو 2021 کے فروری کے مہینے تک 40 فیصد تک گر گئی تھی جبکہ انڈونیشیا سے کوئلے کی برآمدات میں  بھی کمی آئی تھی۔

افغانستان سے کوئلے کی برآمدات پر انڈپینڈنٹ اردو نے وزیر مملکت برائے پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک سے رابطے کی کوشش کی لیکن اس رپورٹ کے شائع کرنے تک ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان