قیدِ تنہائی کے دوران انسان پر کیا گزرتی ہے؟

تحقیق کاروں نے قیدِ تنہائی کاٹنے والے 100 لوگوں سے بات کر کے ان کے تجربات جاننے کی کوشش کی، جس سے کچھ حیرت انگیز انکشافات سامنے آئے۔

تین اکتوبر 2022 کو فرانس کی ایک جیل میں وارڈن کو دیکھا جاسکتا ہے (اے ایف پی)

قیدِ تنہائی کا استعمال کرنے کے معاملے میں امریکہ سب سے آگے ہے جو دوسرے ممالک کی نسبت کہیں کثرت سے اپنے شہریوں کو تنہائی میں بند رکھتا ہے۔

ہر روز امریکہ میں 48 ہزار قیدی یا قیدیوں کی مجموعی تعداد کا چار فیصد حصہ قید تنہائی کے مراکز، حراستی ٹھکانوں اور جیلوں میں قید تنہائی کی کسی نہ کسی شکل میں بند کیا جاتا ہے۔

ان میں سے بعض مہینوں یا حتیٰ کہ سالہا سال بھی قید تنہائی میں بند رہتے ہیں، جہاں انہیں ہفتے میں چند بار دس منٹ کے شاور کے لیے یا کتے کے پنجرے جیسے احاطے میں مختصر ورزش کے لیے باہر نکلنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس کے متاثرین کا دائرہ محض قیدیوں تک محدود نہیں بلکہ اصلاحی عملے کے طور پر کام کرنے والے، دماغی صحت اور دیگر سہولیات مہیا کرنے والے لگ بھگ 20 ہزار دیگر افراد بھی متاثر ہوتے ہیں۔

گذشتہ تین برس میں موسم گرما کے دوران ہم نے قید تنہائی بھگتنے والے قیدیوں اور وہاں یونٹوں میں بطور ملازم کام کرنے والے مختلف افراد کے انٹرویو کیے تاکہ بہتر طور پر یہ سمجھا جا سکے کہ سلاخوں کے دونوں طرف زندگی کیسی ہوتی ہے۔ یہ انٹرویوز 14 اکتوبر 2022 کو شائع ہونے والی ایک کتاب ’Way Down in the Hole‘ کی بنیاد ثابت ہوئے۔

اپنی تحقیق کے دوران ہم نے وسط بحر اوقیانوس کے رسٹ بیلٹ ریاست میں قید تنہائی کے یونٹوں میں سینکڑوں گھنٹے گزارے۔ ہم نے 75 قیدیوں جبکہ سویلینز اور جیل افسران پر مشتمل عملے کے 25 ارکان کے ساتھ تفصیل سے انٹرویو کیے۔

 انٹرویوز سے ہمارے ہاتھ جو اہم باتیں آئیں انہیں یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ حفاظتی نقطہ نظر کے تحت اصل نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔

قید تنہائی ایک غیر انسانی عمل ہے

 قیدیوں اور افسران سمیت ہم نے جس کا بھی انٹرویو کیا دونوں گروہوں نے یکساں طور پر ہمیں بتایا کہ قید تنہائی ایسی ہے جیسے کسی کو نظروں سے دور کہیں قید کر دیا جائے اور پھر یکسر بھلا دیا جائے۔ اس سے ان کی جسمانی اور ذہنی صحت پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اکثر وہ اپنی انسانی خصوصیات کھو بیٹھتے ہیں۔

کسی مال کی پارکنگ کی جگہ کے سائز کے ایک سیل میں بند قیدیوں کو دن میں 23 گھنٹے قید رکھا جاتا ہے اور اس دوران تلاشی کے لیے انہیں برہنہ کرنے اور ان کے ہاتھ پاؤں باندھنے کے سوا عملی طور پر ان سے کوئی انسانی تعامل نہیں ہوتا۔ وہ کھاتے ہیں، سوتے ہیں، مراقبہ کرتے ہیں، مطالعہ کرتے ہیں، ورزش کرتے ہیں اور یہ سب کچھ رفع حاجت کی جگہ سے محض چند انچ کے فاصلے پر ہو رہا ہوتا ہے۔ 

قیدِ تنہائی کے دوران ایک قیدی نے ہم سے نو مہینوں تک بات چیت کی۔ وہ مطالعے کے انتہائی شوقین تھے اس لیے ہم انہیں شناخت کے لیے سکالر کہیں گے۔ ان کے بقول: ’وہ تمام مراعات چھن چکی ہیں جو انسانوں کو میسر ہوتی ہیں، وہ آپ کے ساتھ کتوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ وہ آ کر کھانا پھینک جاتے ہیں، آپ ایک پنجرے میں نہاتے اور پنجرے میں ہی ورزش کرتے ہیں۔ صرف اس لیے میں انسانی منصب سے محروم نہیں ہو جاتا کہ میں نے نارنجی کپڑا (قید تنہائی کا مخصوص لباس) پہن رکھا ہے۔‘

ایک قیدی نے جان بوجھ کر ایک خلاف قانون حرکت کی تاکہ اسے قیدِ تنہائی کی کڑی ترین سزا دی جائے۔

مارینا کا تجربہ باقیوں سے مختلف نہیں۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے تنہائی میں قید مرینا کہتی ہیں: ’میرے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے جیسے میں چڑیا گھر میں ہوں، میرے ساتھ ایک جانور جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے میں کہیں گم اور بھلائی جا چکی ہوں۔‘

12 سال تک قید تنہائی میں کام کرنے والے اصلاحی افسر ٹریوس بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے بقول: ’آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ چار دیواری تک محدود رہنا کیسی ذہنی اذیت ہے۔ آپ خود کو ایک قیدی کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ ان اداروں کا انتظام نااہل لوگوں کے پاس ہے، سو آپ کو ان قیدیوں کی دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے لیکن ہماری دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں۔‘

قید تنہائی نسلی منافرت کا بیج بوتی ہے

جیلیں غیر متناسب طور پر سیاہ فام اور ہسپانوی لوگوں سے بھری ہوئی ہیں اور قید تنہائی کے معاملے میں یہ نسلی تفریق اور بھی شدید تر ہے۔

امریکہ میں مردوں کی مجموعی آبادی میں سیاہ فام مردوں کا حصہ تقریباً 13 فیصد ہے لیکن اس کے باوجود  قید کی گئی آبادی کا تقریباً 40 فیصد اور قید تنہائی میں بند افراد کا تقریباً 45 فیصد ان پر مشتمل ہے۔

دریں اثنا ایسی بہت سی ریاستیں بشمول جہاں ہم نے اپنی تحقیق منعقد کی، وہاں زیادہ تر جیلیں دیہی علاقوں میں بنائی گئی ہیں جو سفید فام اکثریتی آبادیوں پر مشتمل ہیں۔ اس وجہ سے وہاں مقامی آبادی سے بھرتی کیے گئے اصلاحی عملے کے اکثر و بیشتر ارکان سفید فام ہیں۔ سات مختلف جیلوں میں سینکڑوں گھنٹوں کے مشاہدے کے دوران ہم نے اصلاحی عملے کے جو غیر سفید اراکین دیکھے انہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف جن لوگوں کو ہم نے قید تنہائی میں دیکھا اور جن کا ہم نے انٹرویو کیا وہ سیاہ فام یا ہسپانوی تھے۔

ہماری بات چیت کے دوران وہاں پر تعینات محافظوں نے یقینی طور پر قیدیوں بالخصوص قید تنہائی میں رکھے گئے افراد سے متعلق اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔

ان کے نقطہ نظر کے مطابق قیدیوں کو جرم کے متاثرین یا جیل کے عملے کی نسبت کہیں بہتر سہولیات میسر ہیں۔

ایک اصلاحی افسر بنکر کے بقول: ’قیدیوں کو ٹی وی، ٹیبلٹ، کیاسک اور ای میل کی سہولیات ملتی ہیں جبکہ متاثرین خالی ہاتھ رہتے ہیں۔ وہ اپنے خاندان کے افراد کو واپس نہیں حاصل کر سکتے۔ میں ایک سال تک عراق میں ایک بنکر میں رہا اور یہاں ان لوگوں کے پاس ایک بہتر کموڈ ہے، لکڑی والا نہیں کہ وہ جلا نہ ڈالیں۔‘

چونکہ تنہائی میں قیدیوں کو دن میں 23 گھنٹے بند رکھا جاتا ہے اس لیے روزانہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک افسر درکار ہوتا ہے۔ افسران دن میں تین بار کھانے کی ٹرے ہاتھ سے پہنچاتے اور اٹھاتے ہیں۔ ٹوائلٹ پیپر ہفتے میں دو بار تقسیم کیا جاتا ہے۔ قیدیوں کو شاور اور صحن بلکہ یہاں تک کہ تھراپی سیشن تک لے جانا پڑتا ہے۔ پھر اپنے قید خانے سے باہر نکالتے ہوئے ان کی تلاشی، ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ڈالنا بھی لازمی ہے۔ ہم نے افسران کو سینکڑوں گھنٹوں تک ایسا کرتے دیکھا اور یہ ان کے لیے تھکا دینے والا عمل ہے۔ بالخصوص جب گارڈز کی تنخواہ بھی نسبتاً کم ہوتی ہے تو یہ چیز قابل فہم ہے کہ وہ اس قدر ناراض کیوں ہیں۔ 

ایک افسر جسے ہم پورٹر کہتے ہیں، کے بقول: ’میرے خاندان میں ایک بزرگ ہیں جنہیں ایک خاص طبی عمل سے گزرنے کے لیے اپنا گھر بیچنا پڑا جبکہ قیدیوں کو پانچ امریکی ڈالر میں بہترین طبی امداد ملتی ہے۔ میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جو سزائے موت کی قطار میں کھڑا تھا مگر اس کی کیموتھراپی کی ضرورت پوری کی گئی۔ تصور کیجیے کہ ایک شخص کو محض اس لیے زندہ رکھنے کے لیے رقم خرچ کی جا رہی ہے کہ اسے موت دینی ہے۔‘

چونکہ عملے کے ارکان تقریباً تمام سفید فام ہیں اور قیدی غیر متناسب طور پر سیاہ فام ہیں، اس لیے یہ ناراضی نسلی منافرت کا روپ دھار لیتی ہے۔ سکالر نے ہمیں بتایا کہ وہ جس جیل میں قید ہے وہ ’سب سے زیادہ نسل پرست جیلوں میں سے ایک ہے۔ گارڈز ہمیں ایسے القابات سے پکارنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے، جو نسلی منافرت سے بھرے ہوں۔‘

اس سب کے باوجود کچھ قیدی قید تنہائی کا انتخاب کرتے ہیں

قید تنہائی کے غیر انسانی حالات اور اس سے پیدا ہونے والی ناراضی کے باوجود ہم نے بہت سے ایسے قیدیوں سے ملاقات کی جنہوں نے باقاعدہ کوشش سے قید تنہائی حاصل کی۔ ہم عملے کے کئی ایسے ارکان سے بھی ملے جنہوں نے ان قیدیوں کی حفاظتی ذمہ داریوں کا خود انتخاب کیا۔

بہت سے اصلاحی عملے نے مختلف وجوہات کی بنا پر قید تنہائی کے یونٹوں میں کام کرنے کو ترجیح دی۔ کچھ نے کام کی رفتار کی بِنا پر اسے چنا۔ کچھ نے ایڈرینالین رش (Adrenaline rush) کی وجہ سے اسے پسند کیا۔ دوسروں نے ہمیں بتایا کہ ان کی کمیونٹی میں دستیاب دیگر ملازمتوں کے مقابلے میں قید تنہائی کے یونٹوں میں کام کرنا زیادہ دلچسپ تھا۔

 جیل سے پہلے ایمازون میں کام کرنے والے ایک افسر بیزوس اسے یوں بیان کرتے ہیں کہ ’مجھے سارا دن بے جان چیزوں سے واسطہ رکھنا تھا یا انسانوں سے، انسان زیادہ دلچسپ ہیں۔‘

شاید زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ بہت سے قیدیوں نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے قید تنہائی کا انتخاب خود کیا۔

کچھ قیدیوں نے حفاظت کے لیے جیسا کہ گینگ تشدد یا دوسرے قیدیوں کی طرف سے جنسی زیادتی کے خطرے یا اندرونی و بیرونی قرض خواہوں کے مطالبات سے بچنے کے لیے قید تنہائی کی درخواست دی۔ جن لوگوں کو ’انتظامی تحویل‘ یعنی سزا کے بجائے محض حفاظت کے لیے قید تنہائی میں رکھا گیا، ان کا کہنا تھا کہ انہیں بطور سزا قید تنہائی میں ڈالے جانے والے افراد کے مقابلے میں کم پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 جن کا ہم نے انٹرویو کیا ان میں بہت سے قیدی ایسے بھی تھے جنہوں نے جان بوجھ کر گارڈ کا حکم ماننے سے انکار جیسی خلاف قانون حرکتیں کیں تاکہ انہیں سزا کے طور پر قید تنہائی میں بھیج دیا جائے۔ اسے کچھ لوگوں نے اپنی زندگی کا اختیار اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش سے بھی تعبیر کیا۔

کچھ لوگوں نے قید تنہائی کے غیر انسانی سلوک کو محض ایک ہاؤسنگ یونٹ سے دوسرے میں جانے یا کسی دوسری جیل منتقل ہونے کے لیے برداشت کیا۔ انہوں نے ایسا اس لیے کیا تاکہ وہ گھر کے قریب جا سکیں جس سے ان کے اہل خانہ کو ملنے کے زیادہ مواقع میسر آئیں گے یا ایسی جیل میں جانے کے لیے جہاں تعلیم اور علاج کی زیادہ متنوع سہولیات ہوں۔

ایک قیدی جسے ہم ففٹی کا نام دیتے ہیں، نے جان بوجھ کر ایک خلاف قانون حرکت کی تاکہ اسے قیدِ تنہائی کی کڑی ترین سزا دی جائے۔ حالانکہ جہاں اسے رکھا جانا تھا وہ نسل پرست ترین جیلوں میں سے ایک کے طور پر مشہور ہے اور وقت گزارنے کے لیے مشکل ترین مقامات میں سے ایک تصور کی جاتی ہے۔

 اس کی وجہ جیسا کہ ففٹی نے بیان کی، وہ یہ تھی کہ اس نے اُسے اپنے بھائی کو مارنے والے شخص سے الگ تھلگ رہنے کا موقع فراہم کیا۔ ففٹی کو خدشہ تھا کہ اگر جذبہ غالب آ گیا تو وہ اس شخص کو مار ڈالے گا اور پھر باقی زندگی جیل میں ہی گزار دے گا۔

یہ اقدام کامیاب رہا۔ ہماری ملاقات کے چند ماہ بعد ففٹی کو قیدِ تنہائی سے پیرول پر رہا کر دیا گیا اور وہ تنگ کوٹھڑی سے امریکہ کے بڑے شہر کی کھلی سڑکوں پر تھا۔

ایسا نظام جس میں کسی کی جیت نہیں ہوتی

انٹرویوز سے جو تصویر سامنے آئی وہ ایک ایسے نظام کی ہے جو جیل کے قیدیوں یا ان کی حفاظت پر مامور عملے کے حق میں اچھا ثابت نہیں ہوتا۔ 

جو لوگ قید تنہائی میں وقت گزارتے ہیں، ان کی رہائی کے فوراً بعد مرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ جہاں تک افسران کا تعلق ہے تو ان میں طلاق کی شرح انتہائی زیادہ ہے۔ اس بات کے بھی شواہد نہیں ہیں کہ قید تنہائی ایک رکاوٹ کے طور پر کام کرتی ہے یا کسی بھی طرح سے بحالی کا کام کرتی ہے۔

قید تنہائی میں گزرا معمولی وقت بھی ذہنی صحت کے زوال کا سبب بن سکتا ہے۔ قید تنہائی میں رکھے گئے بہت سے لوگ رہا ہونے کے بعد واپس جیل میں چلے جاتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کام کرنے سے قاصر ہیں یا اس وجہ سے کہ انہوں نے ایسے طریقے نہیں سیکھے، جو انہیں مشکلات سے دور رکھنے میں معاون ثابت ہوں۔

قیدیوں کے لیے رکھے گئے عملے کے تناسب اور انفرادی رہائشی بندوبست کی وجہ سے کسی کو قید تنہائی میں رکھنے کی قیمت جیل کی عام نفری سے تین گنا زیادہ ہے۔

ہمارے انٹرویوز سے جو سب سے اہم بات سامنے آئی، وہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں کسی کی جیت نہیں، ہر کوئی شکست خوردہ ہوتا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر دا کنورسیشن پر شائع ہوئی تھی اور اس کا ترجمہ ان کی اجازت سے پیش کیا جا رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت