پاکستان میں چائے صرف ایک مشروب نہیں بلکہ روزمرہ زندگی کا جزوِ لازم بن چکی ہے، مگر تحقیقات اور ماہرین کی رپورٹس کے مطابق یہی چائے ملاوٹ کی وجہ سے اب ’خاموش زہر‘ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔
خاص طور پر ڈھابوں پر فروخت ہونے والی چائے میں کی جانے والی ملاوٹ صحت کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہو رہی ہے، جو طویل مدتی بیماریوں کا سبب بھی بن رہی ہے۔
تحقیقات اور ماہرین کی رپورٹس کے مطابق ڈھابوں پر استعمال ہونے والے دودھ میں خالص دودھ کی جگہ ایک کیمیکل آمیز محلول استعمال کیا جاتا ہے، جس میں واشنگ پاؤڈر اور دیگر مصنوعی اجزا شامل کیے جاتے ہیں تاکہ دودھ کا رنگ اور گاڑھا پن برقرار رہے۔ یہ اجزا انسانی جسم پر انتہائی مضر اثرات ڈال سکتے ہیں۔
سندھ فوڈ اتھارٹی نے گذشتہ ماہ مئی میں کراچی کے مختلف علاقوں میں 127 چائے خانوں اور ڈھابوں کا معائنہ کیا۔ نتائج کے مطابق، ان میں سے بیشتر جگہوں پر آلودہ اور ملاوٹ شدہ چائے کی پتی استعمال کی جا رہی تھی جبکہ صرف 10 فیصد مقامات پر خالص دودھ استعمال کیا جا رہا تھا۔
لیبارٹری ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ دودھ کے 80 فیصد نمونے مختلف کیمیکلز جیسے ڈٹرجنٹ، کاربونیٹس، نمک، چینی، خشک دودھ اور اضافی پانی سے آلودہ تھے۔ چائےکی پتی کے 110 نمونے بھی ملاوٹ شدہ پائے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈائریکٹر جنرل سندھ فوڈ اتھارٹی آصف جان صدیقی کے مطابق ان نمونوں کی جانچ جامعہ کراچی اور فوڈ اتھارٹی کی مشترکہ لیبارٹری میں کی گئی جبکہ حکام کے مطابق ملاوٹ کے خلاف جاری کارروائی میں مختلف اضلاع سے درجنوں افرادکو حراست میں لیا گیا۔
کراچی میں چائے فروش گل شیر کے ڈھابے پر روزانہ ہی اچھا خاصہ رش لگا رہتا ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مغرب کے بعد شہریوں کا رش لگتا ہے تو صبح تک جاری رہتا ہے اور اس دوران ڈھابے پر دن کے چار ہزار سے زائد کپ چائے بنائی جاتی ہے کیونکہ چائے کڑک اور کوئٹہ کی سپیشل پتی سے بنائی جاتی ہے۔‘
گل شیر کے مطابق ان کی چائے میں دودھ بھی اصلی ہے۔ ’چائے ملاوٹ شدہ ہوتی تو چائے خانے پر رش نہیں ہوتا کیونکہ ہم ذائقہ بیچ رہے ہیں۔‘
ایک دکاندار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ خالص دودھ کی قیمت زیادہ ہونے کے باعث وہ فارمولا دودھ استعمال کرنے پر مجبور ہیں، کیونکہ گاہک سستی چائے طلب کرتے ہیں۔
کراچی یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور فوڈ اتھارٹی کے تحقیقاتی افسر ڈاکٹر سید محمد غفران سعید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دودھ اور پتی سے لیے گئے نمونوں کا ٹیسٹ کیا گیا، جس میں یہ بات سامنے آئی کہ کھانے کا سوڈا اور اینٹی بائیوٹکس دودھ میں ملائی جا رہی ہیں جبکہ پتی میں سنتھیٹک کلر ملایا جا رہا ہے اور استعمال شدہ پتی کو سکھا کر بھی تازہ پتی ملا کر استعمال میں لایا جا رہا ہے، جو ایک نہایت سستا اور نقصان دہ طریقہ ہے۔‘
بقول محمد غفران سعید: ’ڈھابوں پر ملنے والی ملاوٹ شدہ دودھ اور پتی کی چائے سے ایک عرصے بعد صحت متاثر ہونے لگتی ہے، جس میں بدہضمی، تیزابیت، معدے میں زخم اور کینسر کا مرض لاحق ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
’کیونکہ پتی میں جو رنگ استعمال کیا جاتا ہے اس میں ایسو ڈائز شامل ہوتا ہے ، ایسوڈائز رنگ صنعتی کیمیکل ہیں جو کہ صرف ٹیکسٹائل اور پلاسٹک انڈسٹری میں استعمال ہونے کے لیے بنائے گئے تھے۔ یہ خون کے خلیوں کی افزائش کو متاثر کرتے ہیں اور طویل عرصے تک استعمال کرنے سے کینسر جیسی جان لیوا بیماریوں کا خطرہ بڑھا دیتے ہیں۔‘
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیسے پتہ لگے کہ چائے میں ملاوٹ ہے؟
اس کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر محمد غفران نے بتایا: ’ہمارے ہاں اصلی دودھ کی پہچان اس میں جھاگ کا بننا ہے اور یہی جھاگ لانے کے لیے دودھ میں ڈٹرجنٹ ملایا جاتا ہے۔ جب چائے تیار ہوتی ہے تو اس کو پھینٹنے کے بعد ایک خاص قسم کا موٹی تہہ والا جھاگ بن جاتا ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ چائے میں ملاوٹ ہے۔‘
آغا خان ہسپتال کی کلینیکل ڈائٹیشن اور نیوٹریشنسٹ ثنا اصفر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چائے میں شامل کیمیکلز نظامِ ہضم، جگر اور گردوں کو متاثر کرتے ہیں۔خصوصاً معدے کی دیواروں کو نقصان پہنچا کر السر اور دیگر پیچیدہ بیماریوں کا باعث بنتےہیں۔ مصنوعی اجزا جسم میں زہریلے مادوں کی مقدار بڑھا دیتے ہیں، جو کہ صحت کے لیے نہایت خطرناک ہے۔‘
ڈاکٹر ثنا اصفر کے مطابق: ’ہمارے ہاں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ سر کا درد اور تھکاوٹ چائے سے دور ہو جاتی ہے جبکہ یہ سب خود کو تسلی دینے کے بہانے ہیں، حقیقت میں پورے دن میں دو کپ چائے انسانی صحت کے لیے کافی ہے، وہ بھی گھر کی تیار شدہ چائے۔‘
جب شہریوں سے اس بارے میں دریافت کیا گیا تو بیشتر نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ نوجوانوں کا کہنا تھا کہ ڈھابے پر بیٹھے بیٹھے دن کے کئی کپ چائے پی جانا معمول کی بات ہے۔ اگرچہ کچھ افراد نے تیزابیت جیسے مسائل کا ذکر کیا، لیکن کچھ نے کہا کہ وہ عرصے سے ایسی چائے پی رہے ہیں اور انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے 35 سالہ بلال خان چائے کے انتہائی شوقین ہیں۔ وہ روزانہ سات سے زائد کپ چائے پیتے ہیں اور زیادہ تر چائے ڈھابے پر ہی پیتے ہیں، جہاں دوستوں کی محفلیں جمی رہتی ہیں، لیکن بقول ان کے انہیں ملاوٹ کا اندازہ نہیں ہوتا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بلال نے بتایا: ’چائے کی عادت ایک نشے کی طرح لگ گئی ہے۔ پورے دن میں سات سے زائد کپ چائے پی لیتے ہیں اور اکثر ہوٹل کی چائے ہی پیتے ہیں۔ چائے کی ملاوٹ کا اندازہ تو نہیں ہوتا، تاہم کبھی چائے کا ذائقہ عجیب لگے تو کسی دوسرے ڈھابے پر چائے پی لیتے ہیں، لیکن پیتے ضرور ہیں کیونکہ ڈھابے کی چائے کا ذائقہ منہ کو لگ گیا ہے۔‘