کوئٹہ ٹی پوائنٹ: خاتون کے ہاتھ کی کوئٹہ چائے میں منفرد کیا؟

کوئٹہ سے ایک سال پہلے اسلام آباد منتقل ہو کر صبیحہ نے اپنے اثاثے استعمال کر کے اپنا پرانا خواب پورا کیا اور ’کوئٹہ ٹی پوائنٹ‘ کے نام سے ایک چائے ڈھابہ کھولا ہے۔

کہتے ہیں عورت ’صنف نازک‘ ہے لیکن جب آپ اسلام آباد کے ایک کوئٹہ ٹی ہوٹل کی مالکن صبیحہ سے ملیں تو آپ کو محسوس ہو گا کہ عورتوں کو بلا وجہ کمزور سمجھا جاتا ہے۔ 

صبیحہ کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے جو پاکستان میں ایک اقلیت ہی نہیں بلکہ روایتوں پر قائم ایک برادری ہے لیکن حالات اور نہ ہی لوگوں کی کڑی نظروں سے صبیحہ کے عظم پر کوئی اثر پڑا۔

چار بچوں کی والدہ صبیحہ نے کوئٹہ سے ایک سال پہلے اسلام آباد منتقل ہو کر اپنے اثاثے استعمال کر کے اپنا پرانا خواب پورا کیا اور دارالحکومت میں جہاں کوئٹہ چائے کے ہوٹلوں کی دھوم ہے وہاں اپنا چائے کا ڈھابہ کھولا جس کا نام ہے ’کوئٹہ ٹی پوائنٹ۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے صبیحہ کا کہنا تھا: ’میں نے کسی ضرورت کے تحت یہ ہوٹل نہیں کھولا نہ ہی میں لاچار، ضرورت مند عورتوں میں سے ہوں۔ بس مجھے ہمیشہ سے کچھ الگ کرنے کا شوق تھا۔‘

 انہوں نے کہا کہ وہ اپنے خاندان کی پہلی خاتون ہیں جنہوں نے چائے کا ڈھابہ کھولا ہے اور یہ ڈھابہ انہوں نے صرف اپنے خواب کو پورا کرنے کے لیے شروع کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’میں ہمیشہ سے ہی خود مختار ہوں۔ پڑھی لکھی بھی ہوں۔ ماسٹرز کے ساتھ ساتھ بی ایڈ بھی کیا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ  نجی سکولوں میں پڑھایا بھی اور کوئٹہ میں بیوٹیشن کا کام بھی کر چکی ہوں لیکن مجھے ہمیشہ سے شوق تھا کہ میں اپنا کوئی کاروبار شروع کروں۔‘

وہ کہتی ہیں: ’میں چائے لور ہوں اور ہوں بھی کوئٹہ سے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں شیعہ برادری سے ہوں۔  ہمارے ہاں جب بھی مجلس ہوتی تھی تو میں دو سو سے تین سو لوگوں کے لیے چائے خود اپنے ہاتھوں سے بناتی تھی۔ مجھے ہمیشہ سے چائے بنانے کا شوق تھا۔ جب میں اسلام آباد آئی اور یہاں کوئٹہ ٹی کے ایک برینڈ کے بارے میں جانا تو میں نے سوچا کیوں نہ یہی کام شروع کیا جائے۔‘

صبیحہ بتاتی ہیں کہ جب انہوں نے دیکھا کہ اسلام آباد میں کوئی بھی چائے کا ڈھابہ خاتون نہیں چلاتی تو انہوں نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔

کاروبار چلانے کے بارے میں صبیحہ نے بتایا کہ انہیں بزنس کا کوئی تجربہ نہیں تھا، بس لگن تھی۔ اپنے کوئٹہ چائے کے خواب کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے خوب محنت کی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستانی معاشرے کی ہر عورت کی طرح انہیں بھی اپنے رشتہ داروں کی تنقید سے ڈر لگا کہ پتہ نہیں ان کے قبیلے کے لوگ ان کے چائے پراٹھے بنانے کے بزنس کو کیا سمجھیں۔ لیکن ان کے تمام ڈر دور ہو گئے جب ان کی فیملی نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔

’جب سب کو میرے بارے میں پتہ چلا تو مجھے کوئٹہ سے لوگوں نے فون کر کے سراہا اور مبارک باد دی۔ میرے بچے میری سب سے بڑی ڈھال ہیں۔ وہ مجھ پر فخر کرتے ہیں اور انہیں اچھا لگتا ہے کہ ان کی ماں اپنے کرئیر میں آگے بڑھ رہی ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین