بلوچستان ’سلو موشن‘ خانہ جنگی کا شکار؟

صوبہ اس وقت سلو موشن خانہ جنگی کا شکار ہے لیکن کوئی اس کا اعتراف نہیں کرے گا۔

31 اگست، 2021 کو سرحدی شہر چمن میں تاجر سڑک پر ٹائر جلا کر احتجاج کر رہے ہیں (اے ایف پی)

بلوچستان اس وقت سلو موشن خانہ جنگی کا شکار ہے لیکن حکومت اس بات کا اعتراف کرے گی اور نہ ہی حکومت مخالف جمہوری یا مسلح قوتیں۔

اگر حکومت یہ تسلیم کر لیتی ہے کہ صوبہ خانہ جنگی کا شکار ہے تو اس کی بدنامی ہو گی کیونکہ اس سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ صوبے میں حکومت کی رٹ نہیں اور یہاں بسنے والی اقوام ایک دوسرے سے خوش نہیں۔ 

دوسری طرف اگر حکومت مخالف قوتیں یہ تسلیم کرتی ہیں کہ ایسا مسئلہ موجود ہے تو اس سے تاثر ملے گا کہ لوگ اپنے سیاسی و مذہبی خیالات کے حوالے سے اتنے انتہا پسند ہو گئے ہیں کہ ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے کے درپے ہیں۔

آخر کار ہر کوئی یہی دعویٰ کرتا ہے کہ ان کی سیاست صاف اور بامقصد ہے اور وہ ذاتیات کو سیاست سے دور رکھتے ہیں۔

جو بھی ہو بلوچستان ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس نور محمد مسکان زئی کے کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے ہاتھوں پچھلے ہفتے قتل اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ صوبہ خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں بلوچ حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کے دعویٰ دار ہیں۔

ایک تنظیم نے گذشتہ دنوں ایک بزرگ بلوچ کو مسجد کے باہر حملہ کر کے مار دیا۔ مساجد یا بزرگوں پر حملہ بلوچ روایت نہیں رہی لیکن جب ایک معاشرہ خانہ جنگی کی طرف بڑھتا ہے تو ایسے مناظر دیکھنے میں آتے ہیں۔

ایک زمانہ تھا جب بلوچ قوم پرست اپنے ساتھ ہونے والے مظالم اور حکومتی وعدہ خلافی کا حوالہ دیتے تو سب سے پہلے نواب نوروز خان کی مثال دیتے کہ کس طرح ان کے ساتھیوں کو ایوب خان کے زمانے میں قرآن پر ہاتھ رکھ کر غیر مسلح کیا گیا لیکن پھر انہیں مار دیا گیا۔

پھر ایک زمانہ وہ آیا جب بلوچ قوم پرست تنظیمیں نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے حوالے سے جنرل مشرف کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کرتیں تو وہ اپنے بیانات میں ان کے ’بزرگ‘ ہونے کا بالخصوص حوالہ دیتے تاکہ زور اس بات پر رہے کہ کسی کے ساتھ جنگ کتنی بھی بری کیوں نہ ہو، اس کی حدود بزرگوں تک نہ پھیلائی جائیں۔

جسٹس مسکان زئی کا قتل بھی ایک ایسا ہی دل خراش واقعہ ہے جس میں ان کی عمر کا لحاظ کیا گیا اور نہ ہی مسجد کا احترام۔

ویسے بھی بلوچستان میں بہت کم بلوچ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہے ہیں اور جو گنے چُنے جج اس مقام تک پہنچے وہ بلاشبہ بلوچ نوجوانوں، بالخصوص قانون کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے تھے۔

جسٹس مسکان زئی کا شمار انہی میں ہوتا تھا۔

بلوچستان کا عام بلوچ اور پشتون اس لیے بھی ان میں اپنا جھلک دیکھتا تھا کہ وہ ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔

انہوں نے پرائمری سکول سے لے کر ایل ایل بی تک اپنی پوری تعلیم بلوچستان سے حاصل کی۔ انہوں نے اس تاثر کی نفی کی کہ چیف جسٹس بننے کے لیے بلوچستان سے باہر کی تعلیم لازمی ہے۔

انہوں نے سرکاری درس گاہوں کے ناقدوں کو غلط ثابت کیا کہ جو بچے سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہیں وہ پیشہ وارانہ زندگی میں بہت آگے نہیں بڑھ سکتے۔

انہوں نے ثابت کیا کہ اگر کوئی شخص محنت کرے اور ہمت نہ ہارے تو وہ اعلیٰ ترین عہدوں پر پہنچ سکتا ہے۔

وزارت تعلیم نے حال ہی میں پاکستان کے ایک سو ایک شہروں میں شرح خواندگی کی رینکنگ جاری کی جس میں ضلع خاران 93 ویں نمبر پر ہے۔

آپ خود سوچیں کہ جہاں 21ویں صدی میں معیارِ تعلیم کا یہ حال ہے وہاں 1960 میں معیار تعلیم کا کیا حال رہا ہو گا جب جسٹس مسکانی زئی نے پرائمری سکول میں پڑھائی شروع کی تھی۔

بی ایل اے نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ انہوں نے جسٹس مسکانی زئی کو کیوں قتل کیا۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ بی ایل اے نے اس واقعے سے بلوچستان کا بہت بڑا نقصان کیا ہے۔

صوبے میں ایسے افسوس ناک واقعات کیوں وقتافوقتاً پیش آتے رہتے ہیں؟

اس کی وجہ یہی ہے کہ بلوچستان خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے، جہاں بلوچ بلوچ کو محض سیاسی اختلافات  کی وجہ سے قتل کر رہا ہے۔

جسٹس مسکان زئی بی ایل اے کے ہاتھوں قتل ہونے والے سب سے اعلیٰ سرکاری عہدے دار ہیں اور ان کے قتل کو محض ایک واقعہ سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ بی ایل اے کو شاید عدلیہ سے شکایت ہو کہ صوبے میں لاپتہ افراد کے حوالے سے عدالتیں موثر نہیں رہیں اور بلوچوں کو انصاف فراہم نہیں کر سکیں۔

دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جسٹس مسکان زئی کو حکومتِ پاکستان کے لیے کام کرنے کی پاداش میں قتل کیا گیا ہو اور باقی بلوچ افسران و ملازمین کو یہ پیغام دینا مقصود ہو کہ اگر وہ ’بلوچ دشمن‘ کارروائیوں میں حکومت کا آلہ کار بنتے ہیں تو انھیں بھی ایسی ’سزا‘ دی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بہرحال، کسی بھی جج کے عدالتی فیصلے پر اختلاف یا اعتراض ہونا ہر کسی کا حق ہے لیکن کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس جج کی جان لے۔

کسی بھی شہری کو جان سے مارنا ایک سنگین جرم ہے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے۔

اسی طرح کسی جج یا سیاست دان سے سیاسی یا فکری اختلاف تو ہو سکتا ہے لیکن آپ کے سیاسی نظریات کتنے ہی سنہرے اور منطقی کیوں نہ ہوں، وہ کسی اور کی زندگی سے زیادہ قیمی اور اہم تر نہیں۔

ملک کے بڑے اخبارات نے جسٹس مسکانی زئی کی ہلاکت پر اداریے لکھے ہیں اور نہ ہی ملکی اور صوبائی سیاسی جماعتوں نے صوبے کے سابق چیف جسٹس کے قتل پر اتنا پرزور احتجاج کیا ہے جس سے مستقبل میں مزید ایسی کارروائیوں کی حوصلہ شکنی ہو۔

اس سے بلوچ مسلح تنظیموں کو یہ پیغام ملتا کہ اپنے ہی بلوچ بھائیوں، ہمسایوں اور (محض سیاسی) مخالفین کو نشانہ بنا کر وہ بلوچ حققوق کی جنگ نہیں لڑ رہے بلکہ بلوچستان میں خانہ جنگی کی ایک ایسی فضا پیدا کر رہے ہیں جس کا نقصان صوبے اور اس کے لوگوں ہی کو ہو گا۔

اپنے پڑھے لکھے لوگوں کو سیاسی و فکری اختلاف کی بنیاد پر جان سے مار کر بلوچ علیحدگی پسند قوتیں دراصل صوبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہیں۔

اس جنونیت کو فوری طور پر رک جانا چاہیے کیونکہ اس سے صوبے کا مستقبل مزید تاریک ہو گا اور آنے والی نسلیں صرف نفرت اور تشدد کی سیاست کریں گی۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی رائے پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ