خود پر ہونے والے تشدد کے ثبوت کیسے اکٹھے کیے جائیں؟ 

اگر آپ اپنے شریک حیات کی جانب سے کسی بھی قسم کے تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں تو اسے کیسے ریکارڈ کیا جائے تاکہ آپ محفوظ رہ سکیں؟

(اینواتو) تشدد کا شکار ہونے والے فرد کو خود ثبوت اکٹھے کرنا ہوں گے

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی رہنما اور وکیل نگہت داد نے گذشتہ روز اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک تھریڈ ٹویٹ کیا جس تھریڈ میں انہوں نے گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کو یہ بتایا کہ انہیں خود پر ہونے والے تشدد کے ثبوت کیسے اکٹھے کرنے ہیں اور انہیں کس طرح محفوظ رکھنا ہے۔

ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ تشدد کے بعد وہ کس طرح اپنی شکایت درج کروا سکتی ہیں۔ 

نگہت نے اپنی اس ٹویٹ میں معروف پاکستانی اداکار فیروز خان کی سابقہ اہلیہ علیزہ سلطان کی خود پر شوہر کی جانب سے مبینہ طور پر ہوئے تشدد کی تصاویر کو مثال کے طور پر لگایا۔

نگہت داد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’فیروز خان کی اہلیہ نے جو ثبوت پیش کیے ہیں میں ان سے بہت متاثر ہوئی اور جب میں نے ان ثبوتوں کو غور سے دیکھا تو اس پر باقاعدہ ٹائم لائن تھی جو 2020 سے 2022 تک کی تھی یعنی کہ وہ تصاویر کب کب کھینچی گئیں۔‘

اس سے یہ ثابت ہوا کہ وہ یہ ثبوت اکٹھی کرتی رہی ہیں۔ پھر میں نے میڈیکولیگل بھی دیکھا جو انہوں نے کروایا۔ یہ سب دیکھنے کے بعد میں نے سوچا کہ بہت مرتبہ جب ڈی آر ایف کی سائبر کرائم ہیلپ لائن پر بھی کالز آتی ہیں، اور اس طرح تشدد کے حوالے سے کوئی خاتون شکایت کرتی ہے تو وہ بوکھلائی ہوئی ہوتی ہیں کہ انہیں پہلے جا کر شکایت درج کروانی ہے یا سیدھا ہسپتال چلے جانا ہے، آپ نے کرنا کیا ہے؟

دوسری جانب نگہت کا کہنا ہے کہ ’اکثر طلاق کے بعد بچوں کی حوالگی، نان نفقہ یا طلاق اور اس کے موثر ہونے تک نان نفقے کے واقعات میں دوسری جانب کے وکیل خاتون پر مختلف اقسام کے الزامات لگا دیتے ہیں۔ مجھے علیزہ کے کیس سے یہ سمجھ آئی ہے کہ علیزہ نے خود پر ہونے والے تشدد کے ثبوت عدالت میں جمع کروائے ہیں۔‘

نگہت نے بتایا کہ علیزہ کے ابتدائی بیانات میں بھی یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ ان کے بچوں کے لیے گھر کا پرتشدد ماحول سازگار نہیں اس لیے انہوں نے الگ ہونے کا فیصلہ لیا۔

اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے نگہت داد نے ہر قسم کے جسمانی، جنسی اور بدزبانی جیسے تشدد کے حوالے سے خواتین کو کچھ مشورے دیے۔ 

نگہت نے اپنے ٹویٹ میں لکھا:

1: ’اگر آپ کو گھریلو تشدد، جنسی ہراسانی، جنسی حملے وغیرہ کا سامنا ہے، تو براہ کرم ثبوت تیار کرتے رہیں، اسے قابل اعتماد لوگوں کے ساتھ شیئر کریں اور انہیں اس فون/ڈیوائس سے کہیں محفوظ رکھیں جو آپ عام طور پر استعمال کرتے ہیں۔‘ 

نگہت نے اس ٹویٹ کی وضاحت کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’جب خواتین اس طرح کے حالات میں ہوتی ہیں تو یقیناً ان کے لیے بہت مشکل ہے کہ وہ تصاویر کھینچیں یا ویڈیوز بنائیں یا آوازیں ریکارڈ کریں۔ اور بعض اوقات ان کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا لیکن اگر آپ کر سکیں تو ضرور تصویریں لے لیں یا ویڈیوز بنا لیں۔‘

2: گھر میں یا قریبی جگہوں پر آپ پر تشدد کرنے والے کا آپ کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کا رجحان ہوتا ہے اور اب تو سوشل میڈیا پر بھی وہ آپ کے فون کے ذریعے آپ کی سرگرمی پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ آپ کی ڈیوائس کی نگرانی کا مطلب ہے کوئی بھی کارروائی کرنے یا کوئی فیصلہ کرنے کی آپ کی صلاحیت کو کنٹرول کرنا۔ لہٰذا اپنے فون یا ڈیوائس سے چیزیں ڈیلیٹ کرتے رہیں۔

اس حوالے سے نگہت نے ہمیں مزید بتایا: ’آپ جو تصاویر یا ویڈیوز بنائیں انہیں اپنے کسی بھروسے والے دوست کے ساتھ یا گھر والوں کے ساتھ شیئر کر لیں۔ اور انہیں تاکید کریں کہ انہوں نے بھیجے گئے ثبوت ڈیلیٹ نہیں کرنے ہیں۔ لیکن اپنے فون سے وہ ثبوت مٹاتے رہیں۔‘ 

نگہت کہتی ہیں اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کسی کے بھی ساتھ وہ شیئر نہیں کر سکتے ہیں تو پھر اگر ممکن ہو تو ایک ایسا فون آپ کے پاس ہونا چاہیے جو شاید آپ کہیں چھپا کر رکھ سکیں۔ اگر گھر میں نہیں تو اپنے والدین یا دوست کے پاس رکھوا دیں اور اس میں یہ ثبوت اکٹھے کرتے رہیں۔ نگہت کہتی ہیں کہ جب خواتین ایک پر تشدد ماحول میں رہ رہی ہوتی ہیں تو ان کے فون چیک ہوتے ہیں اور بعض اوقات وہ ثبوت فون سے ڈیلیٹ نہیں کر پاتی۔ اس لیے بہتر ہے کہ آپ اپنا فون صاف کرتے رہیں اور ثبوت کسی محفوظ ڈیوائس میں اکٹھا کرتی رہیں۔ 

3: پاکستان میں مجرم کے خلاف پولیس میں شکایت کرنا اور اسی گھر واپس جانا بہت خطرناک ہے، اس سے آپ کی جان یا کم از کم دیگر آزادی سلب ہو سکتی ہے۔ تاہم اگر آپ کے حالات اجازت دیں تو اپنے مقامی پولیس اسٹیشن میں شکایت کریں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

4: اگر آپ گھریلو یا کسی بھی صنف پر مبنی تشدد سے بچ گئے ہیں، تو آپ ایک سادہ کاغذ پر تحریری شکایت لکھ سکتے ہیں اور اسے اپنے مقامی تھانے (پولیس اسٹیشن) میں جمع کروا سکتے ہیں۔ اس شکایت کو جمع کرانے پر، آپ کو پولیس سٹیشن میں ہیلپ ڈیسک کی طرف سے جاری کردہ کمپیوٹرائزڈ سلپ ملے گی۔ 

5: زخمی ہونے کی صورت میں، براہ کرم نوٹ کریں کہ آپ کو متعلقہ میڈیکل آفیسرز کے ذریعے طبی معائنہ کروانے کا حق ہے، اور اس کی تصدیق پولیس رولز 1934 کے قاعدہ 25.19 کے مطابق بھی ہوتی ہے۔ 

نگہت نے بتایا کہ جب تششدد کا شکار ہونے والی خاتون پولیس سٹیشن جاتی ہے تو پاکستان کے ہر صوبے میں جہاں ڈومیسٹک وائلنس کا قانون بنا ہوا ہے یا نہیں بھی بنا ہوا، وہاں کے ہر پولیس سٹیشن میں پولیس آفیسر کی یہ ڈیوٹی ہے کہ کوئی بھی عورت، شخص یا خواجہ سرا تشدد کا کوئی واقعہ لے کر ان کے پاس جاتا ہے تو وہ اس کی شکایت کو درج کریں۔  

نگہت نے وضاحت کی کہ جب شکایت درج ہو جاتی ہے تو یہ پولیس والوں کا فرض ہے کہ وہ شکایت کنندہ جن پر تشدد ہوا ہے ان کے ساتھ پولیس کے ایک اہلکار یا لیڈی پولیس افسر کو ان کے ساتھ سرکاری ہسپتال بھیجیں اور وہاں جا کر تشدد کا شکار ہونے والے متاثرہ خاتون یا شخص کا پورا میڈیکولیگل کروائیں۔ 

6:اگر متعلقہ پولیس افسر ضابطہ 25.19 کے ذیلی اصول 5 کے تحت اپنی صواب دید استعمال کرتا ہے اور آپ کو طبی معائنے کے لیے نہ بھیجنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو آپ کو درخواست کرنی چاہیے اور آپ کو اپنا مقدمہ قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ 

نگہت کہتی ہیں کہ جب آپ شکایت درج کرواتے ہیں تو اس وقت جو آپ کو کمپیوٹرائزڈ سلپ دی جاتی ہے اسے اپنے ساتھ ضرور رکھیں۔ اس سلپ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی شکایت سسٹم میں آگئی ہے اور اس پر پولیس والے کاروائی کرنے کے مجاز ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو آپ اس حوالے سے قانونی مددلے سکتے ہیں۔ 

7: پولیس رولز 1934 کے قاعدہ 25.39 کے مطابق تشدد سے زخمی شخص کے ساتھ جانے کا ایک فارم تیار کیا گیا ہے۔ طبی تشخیص کے لیے ایک پولیس افسر کو آپ کے ساتھ تفویض کیا جائے گا۔ حوالہ کے لیے، فارم 25.39 ایسا لگتا ہے۔ 

8: آپ کو لگنے والی چوٹ/زخموں کی تشخیص کے بعد ایک طبی قانونی رپورٹ کو حتمی شکل دی جائے گی۔ اس تشخیص میں ایکسرے رپورٹس، ڈی این اے ٹیسٹ، جسمانی تشخیص وغیرہ شامل ہیں۔ یہ ہمیشہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ مناسب طبی نتائج کے لیے غسل نہ کریں یا کپڑے تبدیل نہ کریں۔ 

نگہت کے مطابق یہ بہت اہم ہے کہ آپ تشدد یا کسی بھی قسم کی زیادتی کے بعد خود کو صاف نہ کریں کیونکہ اس سے ثبوت مٹنے کا خدشہ ہوتا ہے اس لیے بے شک آپ جس بھی حالت میں ہیں، کپڑے پھٹ چکے ہیں یا کچھ بھی آپ اسی طرح چادر لپیٹیں اور پولیس سٹیشن پہنچ جائیں اور اسی حالت میں اپنا میڈیکولیگل کروائیں۔

9: اس کے بعد متعلقہ میڈیکل آفیسر پولیس رولز کا فارم نمبر 25.39 پُر کرے گا اور اسے میڈیکو لیگل رپورٹ کے ساتھ پولیس اسٹیشن بھیجے گا۔ اس سے پولیس افسران کو یہ فیصلہ کرنے میں مدد ملے گی کہ آپ کے بدسلوکی کرنے والے کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے میں کن سیکشنز کا استعمال کیا جائے گا۔ 

10: آپ کو جس نوعیت کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہو گا اب اسے پاکستان پینل کوڈ 1860 کے متعلقہ سیکشنز کے مطابق ریکارڈ کیا جائے گا، اور یہ سیکشن 332، 337 یا یہاں تک کہ سیکشن 376 (جنسی تشدد کی صورت میں) تک ہو سکتا ہے۔ 

11: طریقہ کار کے حوالے سے اوپر دی گئی قانونی معلومات بھی مختلف ہو سکتی ہیں جس کے مطابق آپ کس صوبے میں ہیں مثال کے طور پر سندھ اور بلوچستان میں گھریلو تشدد کو جرم قرار دیا جاتا ہے جبکہ پنجاب میں یہ تشدد کے خلاف خواتین کے تحفظ کے قانون (PPWVA) کے تحت شہری جرم ہے۔ 

نگہت کہتی ہیں کہ ’یہ سارے ثبوت کسی فون پر آواز کی شکل میں بھی ریکارڈ کیے جا سکتے ہیں لیکن ان کو ثابت کرنے کا لمبا چکر ہو گا۔ لیکن وہ کر یقیناً آوازیں بھی ریکارڈ کر سکتی ہیں۔ اس حوالے سے ہم عدالتوں میں اس حوالے سے ایڈوکیسی کر سکتے ہیں کہ جن حالات سے خواتین گزر رہی ہیں وہ کتنے محدود ہوتے ہیں۔‘

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین