نیا بل گھر یا گھریلو تشدد کے خاتمے کے لیے؟

تحریک انصاف کی حکومت کو گھریلو تشدد سے متعلق بل پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مذہبی حلقے اسے اسلام اور معاشرتی اقدار کے خلاف جبکہ حقوق انسانی کے کارکن گھر کے ہر فرد کی تحفظ کا ضامن مانتے ہیں۔ بل میں ایسا کیا ہے؟

وفاقی حکومت کا ڈومیسٹیک وائلنس (پریوینشن اینڈ پروٹیکشن) بل اپریل میں قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد سینیٹ میں پیش ہوا تھا (اے ایف پی/ فائل)

تحریک انصاف کی حکومت کو گھریلو تشدد سے متعلق پارلیمان سے منظور شدہ بل کو نطرثانی کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل بھیجنے کے فیصلے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اس فیصلے کے حوالے سے تحریک انصاف کی کی حکومت کو سوشل میڈیا صارفین اور خاص طور پر خواتین کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہے اور کہا جا رہا ہے کہ حکومت نے ایک مرتبہ پھر مذہبی عناصر کے مبینہ ’دباؤ‘ کی وجہ سے ایسا فیصلہ کیا ہے۔

اس تنقید کی ایک بڑی وجہ اس بل کے قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد ہی معاشرے کے مختلف طبقات خصوصاً مذہبی جماعتوں اور علما کی جانب سے نئے قانون سے متعلق تحفظات کے اظہار کا سلسلہ تھا۔

بل میں ہر قسم کے گھریلو تشدد کے خلاف سخت تعزیری اقدامات کی تجویز ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ گھریلو تشدد کے کسی بھی عمل کو زیادہ سے زیادہ تین سال قید کی سزا ہوگی اور چھ ماہ سے کم نہیں۔ مزید مجرم پر 20 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔

عدالت میں درخواست آنے کے سات روز کے اندر سماعت ہوگی اور فیصلہ نو روز میں ہوگا۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے نام ایک مراسلے میں لکھا کہ ’آئین پاکستان کی دفعات اور معاشرے کے مختلف طبقات کے خدشات کے پیش نظر مذکورہ بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔‘

وفاقی حکومت کا ڈومیسٹیک وائلنس (پریوینشن اینڈ پروٹیکشن) بل اپریل میں قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد سینیٹ میں پیش ہوا تھا۔ ایوان بالا نے چند ترامیم کے ساتھ اسے منظور کرتے ہوئے گذشتہ ماہ ایوان زیریں کو واپس بھیج دیا گیا۔

تاہم یہ بل سینیٹ کی تجویز کردہ ترامیم پر بحث کے لیے قومی اسمبلی میں پیش ابھی نہیں ہو پایا تھا کہ وفاقی حکومت نے اسلامی نظریاتی کونسل سے رہنمائی حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

اعتراضات کیا ہیں؟

گھریلو تشدد قانون پر مذہبی قدامت پسندوں کا سب سے بڑا اعتراض اس کا مبینہ طور پر شریعت اور پاکستان میں رائج معاشرتی و خاندانی روایات کے خلاف ہونا ہے۔

۔ مجوزہ قانون کی شق تین کے مطابق: ’گھریلو تشدد سے مراد کوئی بھی جسمانی، جذباتی، نفسیاتی، جنسی اور معاشی زیادتی ہے، جو جواب دہندہ خواتین، بچوں، کمزور شخص یا کسی بھی دوسرے شخص، جس کے ساتھ جواب دہندہ کا گھریلو تعلق ہو، کے خلاف کرے اور جو متاثرہ شخص کے لیے خوف یا جسمانی یا نفسیاتی تکلیف کا باعث بنے۔

جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد خان نے بل کی اس شق پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون میں ہر چیز کا سپیکٹرم بہت وسیع رکھا گیا ہے، جیسا کہ اس شق تین میں گھر میں رہنے والے تمام لوگوں بشمول والدین، بچوں، میاں بیوی اور حتی کہ کام کرنے والے نوکروں کو بھی ہاوس ہولڈ کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ بل دستور کے بھی خلاف ہے، اسلام کے بھی خلاف ہے، اور حقیقت میں ہمارے خاندانی نظام کے لیے ایک ٹائم بم ہے۔

دوسری جانب گھریلو تشدد سے متعلق مجوزہ قانون کے حق میں بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں، جن میں سب سے بڑی مثال دوسرے صوبوں میں اسی قسم کے قوانین کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

صحافی ریما عمر کا کہنا تھا کہ ’پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھی ایسے ہی قوانین نافذ ہو چکے ہیں۔ کیا ان صوبوں میں خاندانی نظام بکھر گیا ہے؟ کیا وہاں بچوں نے والدین کے خلاف مقدمے کیے ہیں؟

ڈومیسٹک وائلنس (پریوینشن اینڈ پروٹیکشن) بل کا اطلاق صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پر ہو گا جبکہ صوبے اس قسم کے قوانین پہلے ہی بنا چکے ہیں۔

قانون کی ماہر اوروبا ستار احمد نے ایک ٹویٹ میں اسلامی نظریاتی کونسل کی ساخت پر ہی اعتراض اٹھتے ہوئے کہا کہ جس میں کوئی خاتون موجود نہ ہو تو وہ کیسے خواتین کے حقوق کا دفاع کرسکے گی۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز، چیرمین اسلامی نظریاتی کونسل، نے نجی ٹی وی جیو کو بتایا کہ وہ مردوں اور عورتوں دونوں کی اس مسئلہ پر رائے لیں گے۔

’جماعت اسلامی پاکستان کے سینیٹر مشتاق احمد خان کا کہنا تھا کہ مشرقی معاشرے میں پائے جانے والے مسائل کا حل مغربی روایات اور قوانین کے ذریعے ڈھونڈنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت کا ’گھریلو تشدد سے متعلق پیش کردہ بل آئین کی کئی شقوں کے مخالف ہے اور اس مرحلے پر اسلامی نظریاتی کونسل سے رہنمائی حاصل کرنا ہی اس کا واحد حل ہے۔‘

مشتاق احمد خان ان سینیٹرز میں شامل ہیں جنہوں نے ایوان بالا میں اس بل کی مخالفت کی تھی جبکہ دوسری سیاسی جماعتوں بشمول مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے اس کی حمایت میں رائے کا استعمال کیا تھا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جسمانی، جذباتی، نفسیاتی، جنسی اور معاشی زیادتیوں کا ذکر بھی ایک ہی شق میں مبہم انداز میں کیا گیا ہے، جس کے باعث اس کے غلط استعمال کا اندیشہ ہمیشہ موجود رہے گا۔ ’قانون  کو ہمیشہ بہت واضح اور دوٹوک ہونا چاہیے تاکہ اس کا غلط استعمال کم سے کم ہو سکے۔‘

قانون کی شق تین کی وضاحت (ایکسپلینیشن) میں بیوی کو دوسری شادی یا طلاق کی دھمکی یا بانجھ پن کا طعنہ دینا یا کسی خاتون کے کردار پر شک کرنا، یا ڈنڈے کے ساتھ گھر میں کسی کو مارنا، یا اس کی دھمکی دینا، ہراسانی، یا بیوی کو شوہر کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ رہنے پر مجبور کرنے وغیرہ کو زیادتی قرار دیا گیا ہے۔

جماعت اسلامی کے رہنما نے زیادتی کی ان وضاحتوں پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی خاندانی نظام میں والدین اور بڑوں کا مخصوص مقام ہوتا ہے جس کے باعث ان کا ادب کیا جاتا ہے اور ان کی بات کو اہمیت دی جاتی ہے۔

لیکن انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی اسی معاشرے میں ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جہاں بچوں نے والدین پر تشدد کیا یا نہیں گھر سے نکال دیا۔

معروف عالم دین مفتی طارق مسعود نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے قانون کے نافذ ہونے کی صورت میں آنے والی نسلوں کو نقصان کا اندیشہ رہے گا۔

مشتاق احمد خان نے بل پر اعتراضات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ قانون کا سپیکٹرم بہت وسیع ہے، جس کے غلط استعمال کا اندیشہ ہمیشہ موجود رہے گا۔

’قانون کو ہمیشہ بہت واضح ہونا چاہیے تاکہ اس کا غلط استعمال کم سے کم ہو سکے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ بل میں گھر میں رہنے والے تمام افراد کو ڈال دیا گیا ہے، جن میں والدین، میاں، بیوی، بہن، بھائی، بیٹے، بیٹیاں اور حتیٰ کہ گھریلوں ملازم بھی شامل ہیں۔

جماعت اسلامی کے رہنما کو تاہم خدشہ تھا کہ ’یہ بل اس ادب و آداب کو بالکل ختم کر کے رکھ دے گا، کیونکہ اس قانون کے آنے کے بعد والدین بچوں کو تنبیہہ بھی نہیں کر سکیں گے۔‘

انہوں نے میاں یا بیوی کی اصلاح کے لیے خلع یا طلاق کی دھمکی کو بظاہر جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ عام طور پر کارگر ثابت ہوتی ہے، جبکہ اس قانون میں اسے بھی جرم بنا دیا گیا ہے۔

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ایک خاتون اپنے شوہر کو سدھارنے کے لیے خلع لینے کی دھمکی دیتی ہے تو اس میں کیا برائی ہے۔ ’بلکہ خلع کی دھمکی کی وجہ سے مرد کی اصلاح بھی ہو سکتی ہے اور اسی طرح ایک مرد دوسری شادی یا طلاق کی دھمکی دے کر بیوی کو اصلاح کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔‘

- نئے قانون کی شق آٹھ میں تشدد یا تشدد کا امکان ثابت ہونے کی صورت میں عدالت جواب دہندہ کی کلائی یا پیر میں جی پی ایس ٹریکر ڈالنے کا حکم دے سکتی ہے۔

مشتاق احمد خان نے کہا کہ تشدد کے امکانات کو روکنے کے لیے گھر کے کسی فرد کو جی پی ایس بریسلٹ پہنایا جائے گا یا گھر سے بھی بےدخل کیا جا سکتا ہے۔ ’یہ ہماری روایات اور معاشرتی اقدار کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔‘

ٹوئٹر پر ماریہ عامر نے لکھا کہ جو عناصر اس بل کی اس وجہ سے مخالفت کر رہے ہیں کہ یہ ’گھریلو ڈھانچے‘ کی خلاف ورزی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ موجودھ گھریلو ڈھانچہ متشدد ہے اور آپ اسے اسی طرح رکھنا چاہتے ہیں۔

وفاقی وزیر برائے حقوق انسانی شیریں مزاری نے بھی اس سلسلے میں کہا کہ اس قانون میں کوئی شق بھی اسلامی شریعت اور آئین کے خلاف نہیں ہے، اور نہ ہی یہ قانون صرف خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر بنایا جا رہا ہے۔ ’اس میں گھر میں رہنے والے کمزور افراد کے تحفظ کا ذکر ہے نہ کہ صرف خواتین کا۔‘

وفاقی وزیر نے بعض حلقوں کی طرف سے بل کی جلدی میں منظوری سے متعلق اعتراض کا جواب دیتے ہوے کہا کہ اس بل کو صرف قومی اسمبلی میں نو ماہ کا عرصہ لگا جبکہ مجموعی طور پر یہ ایک سال میں پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوا۔

کیا گھریلو تشدد سے متعلق بل ختم ہوگیا؟

آئین پاکستان کے مطابق قانون سازی کا حق صرف پارلیمان کو حاصل ہے، جس میں عام طور پر بل قومی اسمبلی میں پیش ہوتا ہے اور وہاں سے منظوری کے بعد سینیٹ کو بھیجا جاتا ہے۔ سینیٹ سے منظوری کے بعد بل صدر پاکستان کے دستخط کے بعد قانون کی حیثیت حاصل کر لیتا ہے۔

تاہم اگر سینیٹ کسی بل میں ترامیم تجویز کرتا ہے تو وہ بل دوبارہ قومی اسمبلی کے سامنے آئے گا اور وہاں مزید ترامیم کی صورت میں واپس سینیٹ کو جائے گا۔

قومی اسمبلی سے منظور ہونے والا بل من و عن سینیٹ سے منظور ہو جائے تو وہی صدر پاکستان کو حتمی منظوری کے لیے بھیجا جاتا ہے۔

رکن پارلیمان مشتاق احمد خان نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے بعد یہ بل دوبارہ قومی اسمبلی کے سامنے پیش ہو گا اور منظوری کے بعد اسے سینیٹ بھیجا جائے گا۔

بل میں ہے کیا؟

وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ گھریلو تشدد سے متعلق مذکورہ قانون کا مقصد ان خواتین، بچوں اور کمزور افراد جن میں ضعیف اور کمزور افراد بھی شامل ہیں کے تحفظ کا موثر نظام بنانا ہے تاکہ وہ ایک گھر میں رہتے ہوئے کسی قسم کے تشدد کا نشانہ نہ بن سکیں۔

یہ قانون ایک گھر میں رہنے والے کسی بھی بچے، خاتون یا کمزور فرد کے ساتھ ہونے والے جسمانی، نفسیاتی، جذباتی، جنسی اور معاشی استحصال جو متاثرہ شخص کے لیے خوف، جسمانی یا نفسیاتی نقصان کا باعث بنتا ہو کو قابل سزا جرم قرار دیتا ہے۔

قانون کے مطابق جسمانی تشدد میں ہر وہ جسمانی نقصان شامل کیا گیا ہے جن کی سزائیں پہلے ہی تعزیرات پاکستان (پاکستان پینل کوڈ) کی مختلف دفعات میں درج ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی گھر