پاکستان میں گھریلو تشدد سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے؟

پاکستانی اداکار محسن عباس پر ان کی اہلیہ کی جانب سے تشدد کے الزام کے بعد ایک ٹی وی شو کی میزبان کا اس سنگین مسئلے کا مذاق اڑانا واضح کرتا ہے کہ ایسے رویے ختم کرنے کے لیے بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔

عام طور پر جن باتوں کو گھریلو تشدد کی وجوہات خیال کیا جاتا ہے وہ صورت حال کو الجھا دیتی ہیں (یوٹیوب/جی این این)

کئی سال پہلے، میرے چچا کی تدفین کے موقعے پر میری ایک دور کی رشتہ دار نے میرے کان میں سرگوشی کی: ’جان چھٹی۔ بیچاری ان کی بیوی کو بالآخر آزادی مل گئی۔‘

تازہ تازہ غم کی وجہ سے میرے منہ سے کوئی بات نہ نکل سکی۔ کوئی اتنا بے حس کیسے ہو سکتا ہے کہ فوت ہونے والے کسی ایسے شخص کو لعنت ملامت کرے جسے ابھی دفن بھی نہیں کیا گیا؟

میرے چچا، جیسے کے بعد میں سامنے آیا، بیوی کو تشدد کا نشانہ بنانے کے عادی تھے اور میری چچی ایک بہادر لیکن روایات میں جکڑی خاتون ہیں۔

10 برس سے زیادہ عرصے کے بعد پاکستان میں گھریلو تشدد کے خلاف مہم نے زور پکڑا تو مجھے اپنی رشتہ دار خاتون کے الفاظ یاد آئے۔ کیا میرے چچی نے اپنے اوپر تشدد کے بارے میں کبھی کسی کو بتایا؟ کوئی ایسی بات جو ہم نہیں جانتے؟ گھریلو تشدد اصل میں ہوتا کیا ہے؟ کیا ’دیکھو تم نے مجھے کیا کرنے پر مجبور کر دیا‘جیسے الفاظ تشدد کو جائز بنا سکتے ہیں؟

الزام اور جوابی الزام سے ہٹ کر ہم ایسے معاملات کو کیسے نمٹاتے ہیں؟ یہ سوالات پیچیدہ اور حل نہ ہو سکنے والے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ انہیں نظرانداز کرتا ہے۔

اصل بات پر واپس آتے ہیں۔ چچا کی تدفین کے موقعے پر ادا کیے گئے الفاظ سے سکون ملا۔ پتہ چلا کہ میری چچی کے بدترین دن بالآخر ختم ہو گئے۔ آج مجھے احساس ہوتا ہے کہ ہمارے پھیلے ہوئے خاندان کے ایک معتبر رکن نے جو اپنی شریک حیات کو دھمکاتے تھے، ایک زیادہ سنگین صورت حال کی طرف اشارہ کیا ہے جو یہ ہے کہ گھریلو تشدد ایک معمول کی بات ہے۔ اس صورت حال سے پردہ اٹھانے کی قیمت اکثر اتنے زیادہ کینے کی شکل میں ہوتی ہے کہ متاثرہ خواتین بات نہیں کر پاتیں۔

میں نے یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کی اور عملی زندگی میں داخل ہو گئی۔ دفتر میں ساتھ کام کرنے والوں، گھریلو ملازمین حتیٰ کہ ایک بار ایک پرواز میں کسی اجنبی کی کہانی سامنے آئی جس سے پتہ چلا کہ گھریلو تشدد کا مسئلہ کس انداز سے معاشرے میں سرایت کر گیا ہے کہ نسل، طبقے اور مذہب کی سطح پر کسی کا دھیان اس طرف جاتا ہی نہیں۔

میری والدہ کے گھر میں کھانا بنانے والی معمر خاتون ہوں یا کوئی فیشن کی دنیا کی مشہور شخصیت جو بھاری تنخواہ لیتی ہوں، دونوں کو گھریلو تشدد کا خطرہ لاحق ہے۔ ایسے واقعات میں واضح دکھائی دینے والے دباؤ سے لے کر نظر نہ آنے والے زخم شامل ہیں اور دونوں طرح کی صورت حال بے حد تکلیف دہ ہے۔

2018 میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ ایک خاتون کے لیے سب سے زیادہ خطرناک جگہ اس کا گھر ہے۔ عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں شادی شدہ خواتین میں کم ازکم ایک خاتون جسمانی تشدد کی شکایت کرتی ہے۔ ہر بار متاثرہ خاتون کو شرم دلائی جاتی ہے اور بات نہیں کرتی جس کے بعد عدالت تشدد میں ملوث کسی فرد کو سزا سنانے سے انکار کر دیتی ہے۔ ہم علمی طور مسئلے کو نظرانداز کرکے گھریلو ’دہشت گردی‘ کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔

عام طور پر جن باتوں کو گھریلو تشدد کی وجوہات خیال کیا جاتا ہے وہ صورت حال کو الجھا دیتی ہیں: بدقسمتی، غلط جگہ، غلط وقت، کسی صورت حال کا غلط فائدہ، مالی دباؤ، قابل تعریف کھلے خیالات، غلط نتیجے پر ختم ہونے والا کوئی جنسی عمل، مرد کی پرتشدد ذہنیت اور جھوٹی ضمانت کہ وقت گزرنے کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ وہ وجوہات ہیں جس سے صورت حال الجھ جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان روایتی خیالات کا خاتمہ ضروری ہے۔ پورے جنوبی ایشیا میں مردوں کو تربیت کے دوران دلایا جانے والا احساس برتری، گھریلو تشدد کو معمولی قرار دیے جانے کا بڑا ذمہ دار ہے۔ مرد اور عورت کے درمیان اختیارات کا عدم توازن بھی گھریلو تشدد کا بڑا سبب ہے۔

مرد فطری طور پر جارحانہ مزاج کا مالک ہے اور صورت حال پر حاوی رہنا چاہتا ہے۔ گھریلو تشدد سے انا کی تسکین ہوتی ہے جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ بالآخر یہ دنیا مرد کی ہے۔ جب یہ خیال معاشرے کی طرف سے آنکھیں بند کر لینے سے مضبوط ہوتا ہے تو اس کا غلط استعمال بھی بڑھتا ہے۔ اس معاملے میں زبان بند رکھنے سے ہم سب اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں۔

تاہم متاثرہ خواتین کی تکالیف کے حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے ہمیں اس معاملے پر بات کرنے کی قیمت بھی ذہن میں رکھنی ہوگی۔ خارجی سطح پر خاموشی کا مطلب بزدلی ہے لیکن اس معاملے میں حقیقت سے دور جانا بھی درست نہیں ہوگا۔

تشدد کا شکار خواتین کو اکثر بدنامی کا خدشہ ہوتا ہے، اس کے ساتھ ہی وہ خوف کا شکار بھی ہوتی ہیں اس کے باوجود وہ کسی کے بارے میں سوچتی ہیں۔ وہ صورت حال سے نکلنے کے لیے محتاط منصوبہ بندی کرتی ہیں۔

وہ خطرات کا اندازہ لگاتے ہوئے ایسی حکمت عملی وضع کرتی ہیں جن سے بچوں کو خطرات لاحق نہ ہوں۔ ان باتوں میں کچھ بھی سیدھا سادہ نہیں، خاص طور پر پاکستان میں، جہاں مالی طور پر مستحکم خواتین کو مردوں کے خلاف قدم اٹھانے پر برا سمجھا جاتا ہے۔

ایک سال پہلے میرے ساتھ ماضی میں کام کرنے والی ایک خاتون ہمارے ساتھ میز پر کھانا کھانے کے دوران رو پڑیں۔ ان کا خاوند چھ سالہ بیٹی کے سامنے انہیں کرسی دے مارتا ہے جبکہ حال ہی میں انھوں نے بیوی کا جھوٹ موٹ میں گلا بھی دبایا۔ اس صورت حال سے مجھے شدید بیزاری ہوئی لیکن میں نے غصے کو تلخی میں تبدیل ہونے سے روکا۔ یہ موقع تھا یہ سوچنے کا کہ غصے کو عمل میں کیسے بدلا جائے؟

مجھے احساس ہے پاکستان میں معاملات کو سدھارنے کے لیے مخصوص انقلاب کی ضرورت ہے لیکن ایسی کوئی تحریک کیسے شروع کی جائے؟ اس مسئلے کا حل دو نکات میں تلاش کیا جاتا ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ عالمی، قومی، سیاسی اور ذاتی سطح ہر ایجنڈے میں گھریلو تشدد کے مسئلے کو ترجیح دی جائے۔ محض لفظوں سے بات نہیں بن سکتی، اس لیے بجائے اس کے جس کی ہمیں عادت ہے، اپنے شراکت داروں سے لے کر ملک کے صدر تک جان بچانے کے عملی اقدامات ہونے چاہییں جن میں ملکی پالیسیاں، ہیلپ لائنیں، احتساب بیورو، عدالتوں میں مقدمات کی تیزی سے سماعت، علاج معالجے کے یونٹ اور پناہ گاہوں کے لیے فنڈ کی فراہمی شامل ہے۔ صرف ایسا کرکے زبان کھولنے کی قیمت کو کم کیا جا سکتا ہے۔

سب سے اہم بات یہ کہ گھریلو تشدد کا مسئلہ حل کرنے کے لیے بات چیت کو بھی اقدامات کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ تہذیبی تبدیلی سے کام لے کر گھریلو تشدد کے مسئلے کو غیر معمولی بنایا جا سکتا ہے۔ ماؤں کو چاہیے کہ بیٹوں کی بیویوں پر تشدد کی حوصلہ افزائی نہ کریں کیونکہ انہیں خود بھی ایسے سلوک کا سامنا رہا ہوگا۔

ہمیں گھریلو تشدد روکنے کے لیے پہلے سے ناکامی سے دوچار طریقے اپنانے سے اجتناب کرنا ہوگا اور اس کے بجائے فعال معاونت سے کام لینا ہوگا جو تشدد میں ملوث افراد کو پرتشدد واقعات کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے رویے پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

جب میں مڑ کر دیکھتی ہوں ایک مثالی دنیا کی جانب تو ایسی صورت میں اپنی چچی اور ساتھ کام کرنے والی خاتون کو میرا مشورہ یہ ہوتا: ’چلو مت بلکہ دوڑو‘۔ ہماری دنیا میں کچھ بھی مثالی نہیں اس لیے میں نے ان کی کہانیوں میں جان ڈالی ہے تاکہ دکھایا جا سکے کہ گھریلو تشدد پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔

تشدد کے معاملے میں کچھ بھی پرمزاح نہیں۔ ہم سب کو اس حوالے سے کردار ادا کرنا ہوگا۔ صرف اجتماعی سطح پر کوششوں سے ہم امید کر سکتے ہیں کہ تبدیلی کی گھنٹیاں بج سکتی ہیں، ایک ایسی دنیا میں جہاں کسی خاتون کو اپنی آزادی کے لیے خاوند کی موت کا انتظار نہ کرنا پڑے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ