پنجاب: گھریلو تشدد، ہراسانی پر خواتین کے لیے سرکاری ایپ

کیا آپ کو پنجاب سیف سٹی اتھارٹی اور پنجاب پولیس کی متعارف کرائی گئی ایپ ’پنجاب ویمن سیفٹی ایپ‘ کے بارے میں معلوم ہے؟

ایک  رپورٹ کے مطابق پاکستان کی صرف 20 فیصد خواتین کے پاس سمارٹ فون ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی)

کیا آپ کو ’پنجاب ویمن سیفٹی ایپ‘ کے بارے میں معلوم ہے؟ اگر نہیں تو ہم بتاتے چلیں کہ یہ دراصل پنجاب سیف سٹی اتھارٹی اور پنجاب پولیس کی جانب سے متعارف کرائی گئی ایک ایپ ہے، جس کے ذریعے خواتین اپنے فون پر کسی بھی حادثے، ہراسانی یا ناگہانی صورت حال پر فوراً پولیس کو اطلاع دے سکتی ہیں۔

میرے گھر کے بالکل سامنے ایک نیا مکان تعمیر ہو رہا ہے۔ وہاں پر کام کرنے والے چوکیدار کی بیوی کا نام شمیم ہے، جن کے ہاتھ میں اکثر ایک بڑا سا ’میڈ ان چائنہ‘ موبائل ہوتا ہے۔ میں نے سوچا شمیم سے پوچھوں کہ کیا وہ اس ایپ یا کسی اور ایسی ملتی جلتی ایپ کے بارے میں جانتی ہیں؟

میں نے ان سے رابطہ کیا تو وہ اس وقت یوٹیوب پر ایک پاکستانی ڈراما دیکھ رہی تھیں۔ معلوم ہوا کہ وہ وٹس ایپ بھی استعمال کرتی ہیں۔ شمیم نے میرے سوال پر مسکراتے ہوئے کہا: ’نہیں باجی مینوں نئیں پتہ تسی کی کہہ رہے ہو (باجی مجھے نہیں معلوم کہ آپ کیا کہہ رہی ہیں)۔‘ میں نے آسان لفظوں میں پوچھا: ’شمیم اگر خدانخواستہ آپ کے ساتھ کوئی حادثہ ہوجائے یا راہ چلتے آپ کو کوئی تنگ کرے تو آپ کیا کریں گی؟‘ اس پر انہوں نے جھٹ سے کہا: ’باجی رولا پاواں گی (باجی شور مچاؤں گی)۔‘ مجھے اپنا جواب مل گیا تھا کہ وہ اس ایپ کے بارے میں کچھ نہیں جانتیں۔

پاکستان میں کتنی خواتین سمارٹ فون اور موبائل انٹرنیٹ استعمال کرتی ہیں؟

دی موبائل جینڈر گیپ رپورٹ 2020  کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی 38 فیصد خواتین مردوں کے مقابلے میں موبائل فون استعمال نہیں کرتیں جبکہ 49 فیصد خواتین موبائل پر انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کی صرف 20 فیصد خواتین کے پاس سمارٹ فون ہیں، چھ فیصد خواتین فیچر فون جبکہ 23 فیصد عام موبائل یا بٹنوں والا فون استعمال کرتی ہیں۔ 

کیا سمارٹ فون رکھنے والی خواتین کے پاس یہ ایپ ہے؟

پنجاب سیف ویمن ایپ کے بارے میں اور کتنی خواتین جانتی ہیں؟ یہی جاننے کے لیے ہم نے فیس بک پر موجود کچھ خواتین کے گروپس جیسے ویمنز سرکل (women’s circle) اور آسک دا ولیج (ask the village) میں اس ایپ کے متعلق پنجاب سے تعلق رکھنے والی خواتین سے سوال پوچھا تو اس پر ہمیں درجنوں جوابات موصول ہوئے۔

بیشتر خواتین کا کہنا تھا کہ انہیں ہمارے پوچھنے پر ہی اس ایپ کاعلم ہوا۔ کچھ خواتین کا کہنا تھا کہ وہ اس ایپ سے واقف ہیں، اسے انسٹال بھی کیا مگر پھر فون کی سٹوریج کم ہونے پر اسے فون سے نکال دیا۔

سدرہ رمضان نے لکھا: ’میرے پاس یہ ایپ ہے، مجھے یہ بہت سادہ اور آسان لگی لیکن شکر ہے کہ ابھی تک مجھے اسے استعمال کرنے کا موقع نہیں ملا۔‘ عائشہ زمان نے لکھا: ’میرے فون میں یہ ایپ ہے، بہت بنیادی سی ایپ ہے لیکن کم از کم اتنی تسلی ہے کہ احساس تحفظ کے لیے کچھ تو ہے۔‘

ایک اور صارف آمنہ عثمانی لکھتی ہیں: ’میں نے اسے تین روز قبل ڈاؤن لوڈ کیا تھا۔ ایپ نے پہلے تو ڈاؤن لوڈ ہونے میں بہت وقت لیا، لیکن یہ ایک اچھی کاوش ہے۔ اس ایپ کو چلانے کے لیے آپ کے پاس بہترین انٹرنیٹ اور سمارٹ فون ہونا چاہیے۔ بہت سی خواتین کو تو اس تک رسائی نہیں ہوگی مگر پھر بھی خواتین کی ہراسانی کے خلاف یہ اچھی ایپ ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’جب آپ ایپ پر کلک کرتے ہیں تو یہ فوراً آپ کو اس بٹن پر لے جاتی ہے، جسے دبا کر آپ کسی ناگہانی صورتحال میں پولیس کی مدد مانگ سکتے ہیں لیکن اس ایپ میں کچھ تکنیکی مسائل ہیں، جیسے وہاں موجود چیٹ باکس میں میں اپنا کوئی سوال لکھ کر نہیں بھیج نہیں سکتی کیونکہ وہ جاتا ہی نہیں، مگر امید ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بہتری آتی جائے گی۔‘

پنجاب ویمن سیفٹی ایپ میں ہے کیا؟

پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کے چیف آپریٹنگ آفیسر محمد کامران خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’یہ ایپ نئی نہیں بلکہ اس کا آئیڈیا 2018 کی ابتدا میں سامنے آیا۔ اس وقت یہ پبلک سیفٹی ایپ کے نام سے تھی۔ یہ بہت بڑی ایپ تھی جسے لوگ ڈاؤن لوڈ نہیں کر پاتے تھے، اگر کرتے تھے تو کچھ دن بعد فون میں سٹوریج کم ہونے کے سبب انسٹال کر دیتے تھے۔ اس پر ہم نے اس ایپ میں سے خواتین کا حصہ الگ کر کے ان کے لیے ایک الگ ایپ متعارف کروانے کا سوچا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ یہ ایپ نومبر2020 میں لانچ ہوئی۔’اس ایپ کی ضرورت اس لیے پڑی کہ ہمیں جب 15 پر کال آتی ہے تو ہمارے پاس کال کرنے والے کی لوکیشن نہیں آتی، جس پر ہم نے سوچا کہ اس ایپ کے ذریعے جب کوئی 15 پرکال کرے گا تو ہمارے پاس کال کرنے والے کی بالکل درست لوکیشن آ جائے گی۔‘

’لیکن جب ایپ چلی تو ہمیں معلوم ہوا کہ اس کے ذریعے بھی ہمیں لوکیشن کا ٹھیک طرح معلوم نہیں ہوتا، جس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے لیے ہمیں گوگل کے ساتھ معاہدہ کرنا تھا جس کی فیس بہت زیادہ تھی۔ ہم لوگوں نے بھی نہیں دیکھا اور ایپ لانچ کر دی لیکن پھر گذشتہ برس یونائیٹڈ نیشن پاپولیشن فنڈ (UNFPA) اور یونائیٹڈ نیشن ویمن (UNWOMEN)  نے ہمیں کچھ فنڈنگ کی، جس کے بعد ہم نے پھر ایپ کو بہتر بنانے کی کوشش کی لیکن ہم اس میں کامیاب نہیں ہوئے کہ ہمیں کالر کی لوکیشن مل جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ اس مسئلے کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے ایپ میں چیٹ کا آپشن شامل کیا، جس کے ذریعے کالر اپنی لوکیشن بھیج سکتے ہیں۔

کامران نے بتایا کہ اس ایپ میں موٹر وے پولیس، ہائی وے پیٹرولنگ اور تمام ایمرجنسی نمبرز ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کو یہ سہولت بھی دی گئی ہے کہ وہ جہاں جاتی ہیں اس جگہ کے بارے میں فیڈ بیک دے سکیں مثلاً فلاں شاپنگ مال یا کوئی بھی جبگہ انہیں محفوظ نہیں لگی یا کوئی ایسی سڑک یا روٹ جو اکیلے سفر کے لیے ٹھیک نہیں، جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ دیگر صارفین کو بھی اپنا سفر پلان کرنے میں آسانی ہو گی۔

’ہم بھی ایسی جگہوں کو مارک کرلیں گے، جن کے حوالے سے ہمیں منفی یا مثبت فیڈ بیک آ رہا ہے۔ اس کے علاوہ تمام قانونی دستاویزات جیسے اگر خواتین کو کسی نے ہراساں کیا ہے، جائیداد، گھریلو تشدد، کام کرنے والی جگہوں پر کس حرکت کو ہراسانی سمجھا جائے گا، یہ تمام دستاویزات قانونی تعاون کے ساتھ اس ایپ میں موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے ان تمام مسائل سے متعلقہ شعبوں سے بھی انہیں لنک کر دیا ہے۔‘

کامران نے بتایا کہ اس ایپ کے حوالے سے خواتین کے مختلف تعلیمی اداروں اور دفاتر میں تربیتی پروگرام شروع کر دیے گئے ہیں لیکن کرونا وبا کی وجہ سے ان پروگراموں میں کچھ تاخیر ہوئی۔ اس کے علاوہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور دیگر میڈیا کے ذریعے بھی ایپ کے حوالے سے آگاہی پھیلائی جا رہی ہے۔

جب ہم نے کامران سے پوچھا کہ وہ خواتین جن کے پاس سمارٹ فون یا موبائل فون ہی نہیں وہ کیا کریں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ وہ 15 پر کال کریں۔ انہیں وہی سہولیات دیں جائیں گی جو اس ایپ کے ذریعے دی جاتی ہیں۔

ان کے مطابق اب تک 10 ہزار سے زیادہ خواتین اس ایپ کو انسٹال کر چکی ہیں۔ کامران خان کے خیال میں ’یہ ایپ ہر مسئلے کا حل نہیں۔ 15 پر جب کال آتی ہے تو پولیس وہاں تب پہنچتی ہے جب کوئی حادثہ ہوا ہو مگر اس ایپ میں اگر آپ کے ساتھ کوئی حادثہ نہیں ہوا، آپ صرف خوف زدہ ہوئے اور آپ نے کال کر دی تو پولیس والے موقعے پر پہنچیں گے لیکن اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ جو پولیس والے وہاں جا رہے ہیں وہ کس حد تک حساس ہیں اور وہ اس نئی صورتحال میں کس طرح ردعمل دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں پولیس کا ایک مخصوص ذہن ہے اور اسے تبدیل کرنے پر کام کی ضرورت ہے اور یقیناً اس کے لیے وقت درکار ہے، ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین