برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں ہزاروں خواتین گھریلو تشدد کا شکار کیوں بنتی ہیں؟

ویمن ایڈ نامی ادارے کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سال 2017-18 کے دوران 2،531 خواتین نے گھریلو تشدد سے متعلقہ ادارے کا دروازہ کھٹکھٹایا، ماہرین کے مطابق ایسی خواتین کی اصل تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

فوٹو، ریکس

برطانیہ میں ہزاروں ایسی خواتین کو حکام کی جانب سے قانونی مدد فراہم نہیں کی جاتی جو شوہروں کے تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ انہیں برطانیہ کی رہائشی نہ ہونے کی وجہ سے اس امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 

ایسی خواتین میں سے اکثر باقاعدہ یورپی یونین ممالک کی شہری ہونے کے باوجود پناہ گاہوں میں داخل ہونے سے روکی جاتی ہیں۔ 
وہ اس بات پر مجبور ہو جاتی ہیں کہ یا تو خانہ بدوش اور بے گھر ہو کے رہیں، یا پھر اسی ظلم و تشدد کے ماحول میں واپس جا کے رہنا ان کے لیے موجود واحد راستہ ہوتا ہے۔

ویمن ایڈ نامی ادارے کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سال 2017-18 کے دوران 2،531 خواتین نے گھریلو تشدد سے متعلقہ ادارے کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن ان میں سے ایک تہائی کو کسی بھی قسم کی مدد میسر نہ آ سکی، یعنی وہ تمام خواتین انہی حالات کی طرف واپس جانے پر مجبور کر دی گئیں۔ 

ماہرین کے مطابق یہ تعداد بھی صرف اعدادوشمار کے محتاط ہونے کی وجہ سے ہے ورنہ ایسی گھریلو تشدد کی شکار ایسی لاچار خواتین کی اصل تعداد برطانیہ میں اس سے کہیں زیادہ ہے۔ 

ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایسی خواتین ہزاروں میں ہیں اور ان میں ایک بڑی تعداد پناہ گزین خواتین کی بھی ہے۔

مزید پڑھیے: خواتین کو ظلم و ستم کے خلاف بولنے کا موقع ملے گا

ویمن ایڈ کی مشیر برائے سرکاری امور کارلا میک لارن کے مطابق وہ خواتین جن کی امیگریشن ابھی مشکوک صورتحال میں ہے یا ایسی جو گیر قانونی طور پہ برطانیہ میں مقیم ہیں ان کی صورت حال اس سے بھی کہیں زیادہ خراب ہے۔ 

لاطینی امریکہ کی خواتین کے لیے کام کرنے والے ادارے کی مشیر الاری ویلن زوئلا کہتی ہیں کہ ساتھ میں چھوٹے بچے ہونے کے باوجود ایسی خواتین دربدر بھٹکنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ اگر انہیں کسی قسم کے انٹرویو کے لیے بلایا بھی جائے تو بچے اس کمرے میں بھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ برطانوی آئین کے مطابق سرکاری اہلکاروں کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسی پناہ گزین خواتین کو ان کا جائز قانونی حق دیں لیکن اس کی بجائے ان کے پاس صرف یہ اختیار ہوتا ہے کہ یا ملک چھوڑ جائیں اور یا ایسے ہی حالات کو برداشت کرتی رہیں۔ ان کے مطابق ہسپانیہ، اٹلی اور پرتگال کی بہت سی خواتین کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے۔ 

ایک خاتون جن  کے پاس اب یو کے فیملی پرمٹ بھی ہے انہوں نے بتایا کہ 'میں اپنے شوہر کے ہاتھوں کئی برس جذباتی استحصال کا شکار رہی لیکن اسے معلوم تھا کہ میں کہیں بھاگ نہیں سکتی، میرے ساتھ بچہ بھی ہے۔ وہ ہمیشہ مجھے پھنسوا دینے کی دھمکی دیتا تھا، جب تک مجھے قانونی چور پہ رہائش کا پرمٹ نہیں ملا میں انہی حالات کا شکار رہی۔'

ویمن ایڈ کی 'کو چیف ایگزیکیٹو' نکی نارمن کے مطابق، 'ہم چاہتے ہیں  کہ گھریلو تشدد کے بل میں ہر متاثرہ خاتون کو مدد دی جا سکے۔  کوئی بھی ایسی خاتون جو گھریلو تشدد کا شکار ہوں انہیں اپنے امیگریشن سٹیٹس کی وجہ سے کوئی خوف نہ ہو۔ وہ اپنی زندگیاں بغیر خوف اور تشدد کے گزار سکیں۔'

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی گھر