پی ٹی آئی امن و امان برقرار رکھنے کی یقین دہائی کروائے: جسٹس عامر فاروق

اسلام آباد ہائی کورٹ کے نامزد چیف جسٹس عامر فاروق نے جمعرات کو پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد میں جلسے اور دھرنے کی اجازت دینے سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

28 اکتوبر 2022 کی اس تصویر میں  پشاور میں پاکستان تحریک انصاف کے سپورٹر ایک حکومت مخالف ریلی میں شریک ہیں (اے ایف پی)

اسلام آباد ہائی کورٹ کے نامزد چیف جسٹس عامر فاروق نے جمعرات کو پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد میں جلسے اور دھرنے کی اجازت دینے سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

دوران سماعت معزز جج نے پی ٹی آئی کے وکیل کو مخاطب کرکے ریمارکس دیے کہ لانگ مارچ کے اسلام آباد پہنچنے والے شرکا کو جلسے اور دھرنے کے لیے جو بھی مقام دیا جاتا ہے، یقین دہانی کروائیں کہ امن و امان برقرار رکھیں گے۔

پی ٹی آئی کی جلسے اور دھرنے کی اجازت نہ ملنے کے خلاف درخواست کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق کر رہے ہیں۔

جمعرات کو ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بیرسٹر جہانگیر جدون اور ڈی سی اسلام آباد عدالت کے سامنے پیش ہوئے جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے 25 مئی کا سپریم کورٹ کا فیصلہ اور پھر عمران خان کا جمع کروایا گیا جواب عدالت کو پڑھ کر سنایا۔

جہانگیر جدون نے کہا کہ ’پچھلی بار جلسے اور دھرنے کی جگہ دینے کے باوجود تجاوز کیا گیا تھا۔ یہ بھی ان سے پوچھ لیں کہ یہ لوگ اسلام آباد کب آئیں گے؟‘

اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم ڈاکٹر بابر اعوان سے پوچھ لیتے ہیں کہ وہ کب اسلام آباد آرہے ہیں۔ وکیل تو جو بھی بات کرتا ہے وہ موکل کی طرف سے ہی کرتا ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے ایڈوکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ عمومی طور پر جلسوں کی اجازت سے متعلق کیا طریقہ کار ہے؟

جس پر ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون نے جواب دیا کہ ’ہوتا تو یہی ہے کہ پارٹی کی اجازت سے ہی یقین دہانی کروائی جاتی ہے۔ انہوں نے جو ریلی کی تھی اس سے نقصان ہوا تھا اور پولیس والے زخمی ہوئے تھے۔‘

جسٹس عامر فاروق نے مزید استفسار کیا کہ پہلے انہوں نے جس جگہ کی اجازت مانگی تھی کیا یہ وہی جگہ ہے؟

بیرسٹر جہانگیر جدون نے جواب دیا کہ بالکل اسی جگہ کی اجازت مانگ رہے ہیں لیکن انہوں نے ہمیشہ ٹرمز اینڈ کنڈیشن کی خلاف ورزی کی ہے۔  ’ہم ان پر اعتماد نہیں کر رہے کیونکہ دو سینیئر وکلا کی یقین دہانی کو خود پی ٹی آئی کی لیڈرشپ نے ماننے سے انکار کر دیا۔‘

بیرسٹر جہانگیر جدون نے مزید کہا کہ ’ان کے لیے ہم نے ٹی چوک کی جگہ رکھ دی ہے۔ یہ جلسہ کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’چیئرمین پی ٹی آئی سے جب تک رابطہ نہیں ہو جائے گا تب تک ہم ان پر اعتماد نہیں کر سکتے۔ بیان حلفی پر چیئرمین پی ٹی آئی کے دستخط ہونے چاہییں، ہمارا بندہ ان کے پاس چلا جائے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس موقعے پر تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ پورا شہر انہوں نے کنٹینرز لگا کر بند کردیا ہے اور آدھا شہر انہوں نے ریڈ زون میں تبدیل کر دیا ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے تحریک انصاف کے وکیل سے استفسار کیا کہ ’آپ دیکھ لیں جہاں بھی جگہ ہو، اگر خلاف ورزی ہوئی تو ذمہ دار کون ہو گا؟ سپریم کورٹ کا ایک آرڈر بھی ہے اور وہاں توہین عدالت کیس بھی چل رہا ہے۔‘

عدالت نے پی ٹی آئی وکیل کو مخاطب کرکے مزید کہا کہ ’آپ کو جو بھی مقام دیا جاتا ہے، یقین دہانی کروائیں کہ امن و امان برقرار رکھیں گے۔ کسی کو اس کی ذمہ داری لینی ہوگی۔ احتجاج آپ کا حق ہے لیکن شہریوں کے حقوق کو بھی خیال رکھنا ہو گا۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت اور این او سی جاری کرنے کی درخواست پر فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔

پی ٹی آئی نے پہلے چار نومبر کو جلسے کی جگہ مختص کروانے کے لیے 26 اکتوبر کو ایک خط لکھا تھا لیکن ڈی سی آفس نے پی ٹی آئی سے 25 مئی کو کی گئی خلاف ورزیوں پر جواب طلب کر لیا تھا،  جس کے بعد تحریک انصاف نے اسلام آباد پہنچنے کے لیے نئی تاریخ 11 نومبر دے دی۔

پی ٹی آئی رہنما علی اعوان نے ایچ نائن گراؤنڈ مختص کرنے کے لیے اسلام آباد انتظامیہ سے رجوع کر رکھا ہے لیکن این او سی نہ ملنے پر انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔

’دھرنے کی جگہ صرف ٹی چوک پر دی جا سکتی ہے‘

اسلام آباد انتظامیہ نے ایڈووکیٹ جنرل کے ذریعے تحریری جواب بھی ہائی کورٹ میں جمع کروا دیا ہے جس میں انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو جلسے کے لیے سری نگر ہائی وے کے بجائے ٹی چوک کی متبادل جگہ پر جلسے کی پیشکش کی ہے۔

ٹی چوک روات کے قریب وہ مقام ہے جہاں جی ٹی روڈ اسلام آباد ایکسپریس ہائی وے سے ملتی ہے۔

جواب میں کہا گیا کہ سری نگر ہائی وے پر جلسے کی اجازت مانگی جا رہی ہے جس پر لاکھوں شہری سفر کرتے ہیں۔ سری نگر پائی وے بلاک ہونے سے پاکستان کے مشرقی علاقے اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے رابطہ منقطع ہو جائے گا لہٰذا عوام کے مفاد، بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے پی ٹی آئی کو ان کی مرضی کی جگہ پر جلسے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی سے پوچھا کہ دھرنا کب ختم کریں گے جس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ یہ واضح ہے کہ وہ وفاقی دارالحکومت میں شہریوں کی نقل و حرکت روکنا چاہتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ کو مختص مقام پر پر امن احتجاج کی یقین دہانی کرائی لیکن پی ٹی آئی کے احتجاجی مظاہرین یقین دہانی کے خلاف ریڈ زون میں داخل ہوئے اور پراپرٹی کو بھی نقصان پہنچایا، پی ٹی آئی مظاہرین نے درختوں کو جلایا، پولیس اہلکاروں کو زخمی کیا۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ سابقہ کنڈکٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ پی ٹی آئی مظاہرین پھر جلسے کی شرائط نہ مان کر ریڈ زون داخل ہوں گے۔

اسلام آباد انتظامیہ کی تحریک انصاف جلسے کی اجازت کے لیے شرائط 
 
اسلام آباد انتظامیہ نے لانگ مارچ کے شرکا کو جلسے اور دھرنے کی اجازت دینے کے معاملے پر پی ٹی آئی سے 39 شرائط کا بیان حلفی طلب کر لیا ہے۔ 

  • بیان حلفی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے دستخط سے ہونا چاہیے۔
  • پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں جلسے کی اجازت صرف ایک دن کے لیے ہو گی۔
  • پی ٹی آئی کے سٹیج پر موجود 12 افراد کے ناموں کی انتظامیہ سے اجازت لینا ہو گی۔
  • جلسے میں لاؤڈ سپیکر کا استعمال ممنوع ہو گا۔
  • مذہب سے متعلق بیانات بازی سے گریز کرنا ہو گا۔
  • جلسے میں کسی قسم کا اسلحہ لانے کی اجازت نہیں ہو گی۔
  • منتظمین یقینی بنائیں کہ جلسے میں کسی قومی یا پارٹی پرچم نذر آتش نہیں ہو گا۔
whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان