’متاثرہ شخص ایف آئی آر جو لکھوانا چاہے پولیس لکھنے کی پابند ہے‘

انڈپینڈںٹ اردو نے ماہرین سے گفتگو کر کے جاننے کی کوشش کی ہے کہ ایف آئی آر کیسے درج ہوتی ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان حملے کے ایک دن بعد چار نومبر 2022 کو لاہور کے ایک ہسپتال میں (اے ایف پی)

وزیر آباد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین پر جمعرات کو فائرنگ کے واقعے کا تاحال مقدمہ درج نہیں ہو سکا۔

عمران خان نے جمعے کو شوکت خانم ہسپتال سے پریس کانفرنس سے گفتگو میں دو حکومتی اور ایک سینیئر فوجی افسر پر حملے کی سازش کا الزام عائد کیا۔

ان کا دعویٰ تھا کہ ان تین افراد نے مبینہ طور پر ان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا، جس کا انہیں حملے سے ایک دن پہلے پتہ چل چکا تھا۔

عمران خان نے ایک گھنٹے سے زائد پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ ان تینوں عہدے داروں کے خوف سے واقعے کا مقدمہ درج نہیں کیا جا رہا۔

انہوں نے تینوں شخصیات پر مقدمہ درج ہونے تک اپنے کارکنوں کو ملک گیر احتجاج کرنے کو کہا ہے۔

پی ٹی آئی اپنے مقدمے میں تینوں شخصیات کے نام شامل کرنے پر بضد ہے۔

گجرات کے ضلعی پولیس آفیسر غضنفر علی شاہ نے جیو نیوز کو بتایا کہ مقدمہ درج کرانے کے لیے کسی متاثرہ شخص کی درخواست موصول نہیں ہوئی۔

انھوں نے بتایا، ’پولیس اپنی طرف سے مقدمہ درج نہیں کر سکتی کیونکہ اس واقعے میں کئی لوگ زخمی ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے جاننے کی کوشش کی ہے کہ مقدمے کے اندراج کا قانونی طریقہ کار کیا ہے اور کیا بغیر ثبوت کے اس طرح کے مقدمات میں ملزمان کو نامزد کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔

خیبر پختونخوا پولیس کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر( کیونکہ ان کو میڈیا کے ساتھ بات کرنے کی اجازت نہیں) بتایا کہ متاثرہ شخص ایف آئی آر میں کسی کو بھی ملزم نامزد کر سکتا ہے اور ایسے میں پولیس قانونی طور پر مقدمہ درج کرنے کی پابند ہے۔

انہوں نے بتایا، ’قانون کے مطابق متاثرہ شخص مقدمے میں جو کچھ لکھوانا چاہے پولیس اسے درج کرنے کی پابند ہے۔ یہ دوران تفتیش علم ہو گا کہ مقدمے میں درج کرائی گئی باتیں سچ یا جھوٹ ہیں۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ عمران خان پر حملے جیسے واقعات میں، جس میں دعویٰ کیا جائے کہ انہیں قتل کرنے کی سازش کی گئی، پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 109(کسی جرم میں سہولت کاری کرنا) یا دفعہ 120 (کسی جرم کرنے کی سازش کو حصہ ہونا)  کے تحت مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ان پر قتل کا الزام اسی نوعیت کا تھا کیونکہ جس شخص کو قتل کیا گیا، اس میں ذوالفقار علی بھٹو مرکزی ملزم نہیں تھے لیکن ان پر سازش کا الزام لگایا گیا تھا۔ گو بعد میں بھٹو کی پھانسی کو ’عدالتی قتل‘ کہا گیا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ عمران خان پر حملے کے واقعے میں ایک ملزم گرفتار ہے، جنھوں نے پولیس کے سامنے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے تو پھر مقدمے میں کسی اور کو نامزد کیا جا سکتا ہے؟

اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مقدمہ درج ہوگا چاہے متاثرہ شخص کچھ بھی کہے۔

کیا فوجی افسر پر مقدمہ درج ہو سکتا ہے؟

 عمران خان اصرار کر رہے ہیں کہ ان کی ایف آئی آر میں ایک سینیئر فوجی افسر کا نام شامل کیا جائے۔

اس حوالے سے پولیس کے اعلیٰ عہدے دار نے بتایا کہ فوجی افسر پر مقدمہ بالکل درج ہوسکتا ہے۔ اس طرح کے معاملات میں پولیس فوج سے رابطہ کر کے بتاتی ہے کہ ان کے ایک افسر پر کیس درج ہوا ہے اور اگر وہ خود تفتیش کرنا چاہتے ہیں تو کر سکتے ہیں۔

’ 95 فیصد کیسز میں ملٹری پولیس کی جانب سے سول پولیس کو کہا جاتا ہے کہ وہ ملزم کے خلاف کارروائی جاری رکھے لیکن اگر کوئی اعلیٰ عہدے دار ہو تو پھر سول پولیس ملزم کو کارروائی کے لیے ملٹری پولیس کے حوالے کر دیتی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ کیس مزید آگے بڑھے تو ملزم کو ملٹری پولیس کے حوالے کیا جاتا ہے اور باقاعدہ عدالتی کارروائی کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کی طرح ملٹری پولیس پابند ہوتی ہے کہ وہ مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچائے۔

’ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر متاثرہ شخص الزام ثابت نہ کر سکے تو ملزم ہتک عزت کا دعویٰ کر سکتا ہے۔‘

اسی نوعیت کا ایک مقدمہ 2014 میں سپریم کورٹ میں زیر سماعت رہا جو ملاکنڈ ڈویژن میں بعض افراد کے انٹرنمنٹ سینٹر سے لاپتہ ہونے کے حوالے سے تھا۔

متاثرین نے آرمی کے ایک حوالدار پر الزام لگایا تھا جس پر مقدمہ درج کیا گیا لیکن مقدمہ درج کرنے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا گیا۔

اس مقدمے میں اس وقت کے اٹارنی جنرل اسلم بٹ نے عدالت کو بتایا تھا کہ ملٹری قوانین کے مطابق آرمی کے اہلکاروں پر قانون کے مطابق کیس درج ہو سکتا ہے۔

مقدمے کے بینچ میں شامل جسٹس جواد خواجہ نے ریمارکس دیے تھے اس میں کوئی شک نہیں کہ فوج کے اہلکاروں پر مقدمہ درج ہوسکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ مقدمہ فوجی عدالت میں سنا جائے گا یا سول عدالت میں۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے تھے کہ کسی بھی فوجی، جس پر مقدمہ درج کیا گیا ہو، کو سول پولیس سے ملٹری پولیس کو حوالے کرنا کا باقاعدہ قانون بنانا چاہیے۔

عدالت نے کہا تھا ’سول پولیس سے آرمی سے تعلق رکھنے والے کسی بھی ملزم کو حوالے کرنے کا ایک ٹھوس ثبوت بھی ہونا چاہیے۔‘

 قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں؟

پشاور ہائی کورٹ کے وکیل بیرسٹر علی گوہر درانی مختلف کریمنل مقدمات کی پیروی کرتے ہیں۔

انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایف آئی آر یا فرسٹ انفارمیشن رپورٹ کسی بھی واقعے میں پولیس کو متاثرہ شخص کی جانب سے ابتدائی معلومات پر مبنی ایک کاغذ ہوتا ہے اور اس کی بنیاد پر پولیس تفتیش کو آگے بڑھاتی ہے۔

علی گوہر درانی کے مطابق ان کو سمجھ نہیں آ رہا کہ اتنے ہائی پروفائل کیس میں ابھی تک مقدمہ کیوں نہیں درج کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’جتنا مقدمے کے اندراج میں طوالت آئی گی، اتنا کیس کمزور ہوجائے گا۔‘

انہوں نے مزید کہا قانونی طور پر پولیس متاثرہ شخص یا اس کی فیملی یا کوئی بھی شخص، جس کا مقدمے کا کسی طرح تعلق ہو ایف آئی آر درج کر سکتا ہے اور پولیس جتنا جلدی ہو سکے مقدمہ درج کرنے کی پابند ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ اگر کسی وجہ سے پولیس مقدمہ درج نہیں کرتی تو متاثرہ شخص کریمنل پرسیجر ایکٹ کی  دفعہ 22)A( کی تحت عدالت میں درخواست جمع کرا سکتا ہے کہ پولیس مقدمہ درج نہیں کر رہی۔

’عمران خان کے کیس میں دیکھنا ہوگا کہ کیا پی ٹی آئی یا کسی متاثرہ شخص نے پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست دی؟ اگر درخواست نہیں دی تو اس پر سوالیہ نشان اٹھ سکتا ہے اور اگر دی ہے لیکن پولیس مقدمہ درج نہیں کر رہی تو پھر پی ٹی آئی ابھی تک عدالت کیوں نہیں گئی؟‘

انھوں نے کہا ’جب مقدمہ درج نہیں ہوا تو تفتیش کیسے ہوگی کیونکہ تفتیش شروع کرنے کی پہلی سیڑھی ایف آئی آر ہے۔

’اس کے بعد متاثرہ شخص اور دیگر لوگوں کی عدالت کے روبرو بیان ریکارڈ کیا جاتا ہے اور کیس کے آگے لے جایا جاتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان