نصیر الدین شاہ بھی پاکستانی بنا دیے گئے

بھارت میں یہ چلن عام ہے کہ جو ہندوتوا کے خلاف بات کرے اس پر پاکستانی کا لیبل لگا دیا جائے۔ نصیرالدین شاہ بھی اس سے نہیں بچ سکے۔

مکالمے کے بادشاہ نصیر الدین تشدد کا نشانہ بننے والے کے گھر تعزیت کے لیے کیا پہنچے کہ ان کے خلاف محاذ کھڑا ہو گیا (اے ایف پی)

بہترین اور پرُاثر مکالموں کی ادائیگی اور اپنی اداکاری سے کسی بھی کردار میں جان ڈالنے والے نصیر الدین شاہ بھی نفرت کے سوداگروں کے نشانے پر آ گئے ہیں اور انہیں ملک کا غدار تک کہا جا رہا ہے۔

ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ مشتعل ہجوم کے تشدد کا نشانہ بننے والے تبریز کے اہل خانہ کے آنسو پونچھنے ان کے گھر چلے گئے اور تشدد کے خلاف بول اٹھے۔

بس پھر کیا تھا۔ انہیں بھی ملک کا غدار کہا گیا اور ’پاکستانی‘ کے لقب سے نوازا گیا۔ خود پرعائد الزامات کے جواب میں نصیرالدین شاہ نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: ’ہماری مشکلیں ان لوگوں سے بہت چھوٹی ہیں جنہیں بلا وجہ پیٹ پیٹ کر مار دیا جاتا ہے۔ ہمیں تو صرف کوسنے ملتے ہیں، انہیں تو جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘

واضح رہے اس سے قبل شبانہ اعظمی کو بھی اسی طرح کے القابات سے نوازا گیا تھا۔

آج کل بھارت کے سیاسی ماحول میں مسلمانوں کو نشانے پر لینا ایک طرح کا فیشن بن گیا ہے۔ نشانے پر لیتے ہوئے لوگ یہ بھی نہیں سوچتے کہ جنہیں وہ غدار یا پاکستانی ہونے کا فرمان جاری کر رہے ہیں، انہوں نے اپنی پوری زندگی فن کی خدمت کی اور دنیا میں ہندوستانی سنیما کو فروغ دیا۔

یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی فلموں کے ذریعے ملک میں ہو رہے ظلم وجبر کے خلاف صحت مند سماج کی باگ ڈور رکھنے کا پیغام دیا۔ نصیر الدین شاہ ایسے اداکار رہے ہیں جن پر فلمی دنیا کو ہمیشہ ناز ہے اور وہ بالی وڈ کی تاریخ کا اہم حصہ رہیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فلم ’بٹلہ ہاؤس‘ کا مقصد کیا ہے؟

بھارت میں یوم آزادی پر بالی وڈ کی کئی فلمیں ریلیز کے لیے تیار ہیں۔ اکشے کمار کی ’مشن منگل،‘ جنوبی بھارت کے سپر سٹار پربھاس کی ’ساہو‘، راج کمار راؤ کی ’میڈ ان چائنا‘، رنبیر کپور کی ’برہماستر‘ اور جان ابراہم کی ’بٹلہ ہاؤس۔‘

اتنی ساری فلموں میں ناظرین کسے پسند کرتے ہیں اور کسے باکس آفس پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا؟ اس کا فیصلہ تو فلموں کی ریلیز پر ہی ہو گا، لیکن اپنی فلموں کو ہٹ کرانے کے لیے اداکار اور ہدایت کار اس کی تشہیر کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

اکشے کمار کی ’مشن منگل‘ ریلیز کے بعد ہی انٹرنیشنل فلمی میلے کے لیے روانہ ہو جائے گی۔ فلم کی مزید تشہیر کا ایک موقع اکشے کو تب ہاتھ لگا جب بھارت نے اپنا خلائی جہاز ’چندریان2‘ چاند پر بھیجا۔ ایسے میں اکشے نے جھٹ انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) کی پوری ٹیم کو مبارک باد دے ڈالی۔

یو پی پولیس نے اپنی ویب سائٹس پر اکشے کمار کو مبارک باد دیتے ہوئے لکھا: ’اکشے کو سلام جنہوں نے خلا میں بھی ٹریفک کا خیال رکھا۔‘

نکھل اڈوانی کی ہدایت میں بنی فلم ’بٹلہ ہاؤس‘ میں اہم رول نبھا رہے جان ابراہم نے بھی اپنے انسٹا گرام اکاؤنٹ پر فلم کی میکنگ اور شوٹنگ کی کچھ تصاویر شیئر کی ہیں۔

ان کا کہنا ہے یہ فلم بہت حساس ہے اور اسے بنانے سے قبل بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کیس پر کافی ریسرچ کی گئی، اس لیے یہ فلم ناظرین کو ضرور پسند آئے گی۔

انہوں نے اکشے کمار سے اپنی گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’مشن منگل‘ اور ’بٹلہ ہاؤس کے ایک ہی دن ریلیز ہونے سے فلم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا یہ فلم تفریح کے لیے بنائی گئی ہے؟ کیا اس فلم کا مقصد ناظرین کو کوئی ایسا پیغام دینا ہے جس سے سماج میں اصلاح یا بھائی چارگی میں اضافہ ہو یا یہ فلم بنانے کے پیچھے کوئی سیاسی مقصد ہے؟ اور 11 سال قبل یعنی 19 ستمبر 2008 میں رونما ہونے والے اس واقعے کو پردۂ سیمیں پر ازسرنو پیش کرنے کا جواز کیا ہے؟

جن لوگوں کو یاد نہیں، ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے 11 سال قبل جامع نگر دہلی میں ایک پولیس کارروائی کے دوران عاطف امین اور محمد ساجد نامی دو عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا جس کے بعد انسانی حقوق کے اداروں اور بعض سیاست دانوں نے اس مقابلے کو جعلی قرار دیا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے۔

فلم کے بارے میں اب تک ایسی کوئی خبر نہیں آئی کہ یہ بٹلہ ہاؤس پولیس مقابلے کو درست قرار دیتی ہے یا پھر اسے ایک فرضی انکاؤنٹر کی شکل ملی ہے، لیکن قرین قیاس ہے کہ فلم میں پولیس مقابلے کو درست قرار دیا گیا ہے ورنہ ایسا نہیں ہوتا تو اب تک یہ فلم تنازعے کا شکار ہو چکی ہوتی۔

ٹھیک اسی طرح جیسے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر تنازع کا شکار ہوا تھا، بھارتی لیڈر دگ وجے سنگھ سمیت سماجی خدمت گاروں نے اس انکاؤنٹر کی شدید مخالفت کی تھی لیکن تفتیشی ایجنسیوں نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ مقابلہ اصلی تھا۔

اس بات کو گزرے آج 11 سال ہو گئے ہیں، اب اس متنازع یا پھر حقائق پر مبنی واقع کو پھر سے زندہ کر کے نکھل اڈوانی اور ان کی ٹیم آخر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ یہ سوال آج نہیں تو پھر ریلیز کے بعد ضرور اٹھے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی فلم