جوائے لینڈ: خواہشات میں جھلستے افراد کی کہانی

اس فلم میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ ایک طرف آسکر کے لیے نامزد ہوئی تو دوسری طرف اس کے خلاف احتجاج بھی ہو رہا ہے؟

جوائے لینڈ دیکھنے کے بعد احساس ہوا کہ نہ اس فلم کا موضوع ہے اور نہ ہی اس میں کچھ ایسا ہے جس کے بارے میں بات کر کے کچھ لوگوں کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں (آل کیپس/کھوسٹ فلمز)

فلم ’جوائے لینڈ‘ کے ایک سین میں ایک کردار دوسرے سے کہتا ہے، ’ایک مچھر کو مرغی سے پیار ہو گیا، اس نے اس مرغی کا بوسہ لیا، مرغی ڈینگی سے مر گئی، مچھر برڈ فلو سے کیونکہ محبت کا انجام موت ہوتا ہے۔‘

یہ مکالمہ ’جوائے لینڈ‘ کا نچوڑ ہے کہ روایت سے ہٹنا موت کو دعوت دینا ہے چاہے آپ موت کو گلے لگائیں یا موت آپ کو۔

پاکستانی معاشرے میں ڈگر سے ہٹ کر سوچنا، یا مختلف ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن بنادیا جاتا ہے۔ جوائے لینڈ کی کہانی اسی دباؤ کے تحت جینے والوں پر مبنی ہے۔

جوائے لینڈ دیکھنے کے بعد احساس ہوا کہ اس سے منسلک جس قدر واویلا تھا، ایسا تو نہ اس فلم کا موضوع ہے اور نہ ہی اس میں کچھ ایسا ہے جس کے بارے میں بات کر کے کچھ لوگوں کی نیند اڑ چکی ہے۔

لاہور میں رہنے والے متوسط طبقے کے لیے جوائے لینڈ ایک اہم مقام ہے جہاں وہ برقی جھولوں کے مزے لے سکتے ہیں اور کھانے پینے کی درجنوں اشیا سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

لاہور کیںٹ میں واقع فورٹریس سٹیڈیم کے ساتھ ہی موجود جوائے لینڈ ان کی زندگی میں تفریح کے چند گھنٹے فراہم کرتا ہے۔

اس لیے اس فلم کے نام کو لاہور سے واقف افراد سمجھ سکتے ہیں۔ جوائے لینڈ کی کہانی ایک مشترکہ یا جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہنے والے افراد کی ہے جو معاشرے کے دباؤ میں دب کر زندگی جھیل رہے ہیں، جی نہیں رہے۔

ایسے حالات میں میں ان افراد نے اپنی اپنی مجبوری کی وجہ سے، مل کر، ایک دوسرے کی خوشیاں خود ہی چھین لی ہیں۔

اس فلم میں کوئی باضابطہ ولن نہیں ہے، کوئی جابر و ظالم کردار نہیں ہیں، بلکہ اس میں معاشرہ ہی سب سے بڑا ولن ہے۔

تکنیکی اعتبار سے فلم بہت ہی سادہ ہے۔ نہ تو بڑے بڑے سیٹ لگائے ہیں، نہ ہی پوسٹ پروڈکشن میں رنگ بھرے ہیں، لیکن روشنی سے بہت اچھے انداز میں کھیلا گیا ہے۔

یہ فلم ایک ڈش کی مانند ہے جو دیکھنے میں تو کچی معلوم ہوتی ہے، مگر کھائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں نمک اور دیگر مسالے پورے ہیں اور اسے کچھ ایسے پکایا ہے کہ کچاپن محسوس نہیں ہوتا۔

اس فلم کے بارے میں بہت زیادہ بات ہو رہی ہے علینہ خان کے کردار ’بیبا‘ کی جو ایک تھیئٹر میں رقاص ہے، اور علی جونیجو کے کردار حیدر کہ جو نوکری نہ ملنے کے سبب تنگ آ کر پیسے کمانے کے لیے بیبا کے ساتھ پس منظر میں رقاص بن جاتا ہے اور ان دونوں میں محبت ہو جاتی ہے۔

لیکن میں پہلے بات کرنا چاہوں گا ممتاز کے کردار کی جو راستی فاروق نے ادا کیا۔

یہ اس فلم کا سب سے اہم اور مضبوط کردار ہے، جو نہ صرف مختلف سوچتا تھا بلکہ عملی طور پر بھی متحرک ہے۔

فلم کی ابتدا ہی میں جب ممتاز کے شوہر حیدر کو اس کا باپ بکرا ذبح کرنے پر مجبور کرتا ہے تو حیدر اپنی فطرت کے سبب ایسا کرنے سے قاصر رہتا ہے، ایسے میں اس کی بیوی ممتاز اس کی مدد کرتی ہے بلکہ یہ کا کام خود کردیتی ہے۔

ممتاز کا کردار منفرد ہے۔ وہ معاشرتی جبر سے بغاوت کرنے کی بجائے اس میں رہ کر آسانیاں تلاش کرنے کی کوشش میں مصروف رہتی ہے مگر حالات کے تناظر میں پہلے ذمے داری کے نام پر آزادی سلب ہوتی ہے اور پھر دباؤ بڑھا کر سماجی زنجیریں پہنانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

ایسے میں حیدر (علی جونیجو) کا کردار اہم ہے جو بیوی سے محبت تو کرتا ہے، مگر جس وقت اس کی بیوی کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، اس وقت وہ اپنی دلچسپی کا سامان کہیں اور ڈھونڈ لیتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو وہ تھیئٹر کی ملازمت اس نے اپنی ضرورت کے تحت نہیں بلکہ اس وقت کی جب اسے معلوم ہوا کہ وہ بیبا کے ساتھ کام کرے گا۔

حیدر نے بیبا کو پہلی بار ہسپتال ہی میں دیکھا تھا جب وہ کسی اور کے خون میں تربتر وہاں پہنچی تھی۔ اسے بیبا کو دیکھتے ہی کشش محسوس ہوئی اور وہی کہانی کی بنیاد بنتی محسوس ہوئی۔

اگر اداکاری کی بات کریں تو حیدر کے کردار میں علی جونیجو نے غضب ہی ڈھا دیا۔ ایک ایک سین میں وہ کردار میں ایسے ڈھلے کہ حیدر ہی نظر آئے علی جونیجو نہیں۔ تھیئٹر میں رقص کے سین ہوں یا پھر رومانس یا پھر جبر میں کچھ نہ کر سکنے کی لاچاری۔ علی جونیجو نے حیدر کے کردار میں جان ڈال دی وہاں بھی جہاں مکالمہ تھا ہی نہیں۔

ٹرانسجینڈر علینہ خان نے بیبا کا کردار ویسے ہی ادا کیا جیسی وہ ہیں۔ اس میں ان کا انداز و طور طریقہ وہی تھا جو سماج سے دھتکارے ہوئے افراد کا ہوتا ہے، تلخ، ترش اور سخت۔ بیبا کا کردار تھا تو مشکل مگر علینا نے ایسے کیا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔

بیبا غربت دور کرنے اور پیسے جمع کر کے آپریشن کروانے کی تگ و دو میں ہے، اس کا لوگ مذاق اڑاتے ہیں، طنز کرتے ہیں، مدد کوئی نہیں کرتا۔

بیبا اور حیدر کی قربت کے مناظر تو سینسر کی ںذر ہو گئے مگر کہانی پھر بھی پراثر ہی رہی۔

اگرچہ یہ واضح نہیں ہوا کہ اپنی ایک محبت کرنے والی بیوی کے ہوتے ہوئے حیدر کو بیبا میں کیا نظر آیا کہ اسے دل دے بیٹھا۔

فلم میں ثروت گیلانی کا ذکر کرنا ضروری ہو گا جن کا کردار نسبتاً مختصر مگر طاقتور تھا۔ ایک ایسی عورت جو ایک روایتی گھر میں بیٹے کی خواہش میں چار بچیاں پیدا کر چکی ہو اب اس کردار میں بےچارگی ہے اور کہیں کہیں ہلکی سی بغاوت بھی ہے۔ وہ وہ دیورانی سے بات چیت کے دوران اور کبھی چھپ کر سگریٹ پھونک کر خوشی کے پل حاصل کرتی ہے۔

اس فلم میں بہت سی کہانیاں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ گھر میں ایک معذور بزرگ رانا امان اللہ (سلمان پیرزادہ)، جس کی وجہ سے جوانوں کی زندگی میں رکاوٹیں آ رہی تھیں، پھر انہیں بزرگ کا ایک خاتون فیاض (ثانیہ سعید) سے تعلق ہونا مگر اپنانا نہیں، کیونکہ معاشرتی جبر کا سامنا ہے۔ ایسے میں سلمان پیرزادہ اپنے کردار میں عمدگی سے جمے رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب مختصر مگر پردرد کردار میں ثانیہ سعید نے بےچارگی اور لاچاری کی جو عملی تصویر پیش کی وہ کمال رہی، وہ اپنائیت تو دکھاتی ہیں مگر چھت پر بیبا کا پوسٹر دیکھ کر ان کا ردِ عمل اسی معاشرے کے کردار والا ہوتا ہے۔

فلم میں کئی سین کاٹے گئی ہیں اور ایک میاں بیوی کے گلے لگنے کا سین دھندلا کر دیا گیا ہے۔ یہ بات واضح نہیں کہ ایسا کیوں کیا گیا جبکہ فلم میں بغلگیر ہونے کے سین تو عام سی بات ہے۔

جوائے لینڈ میں کہانی کی بنت بہت اعلیٰ ہے، ہر سین یا مکالمہ اہم ہے اور آنے والے حالات سے جڑا ہوا ہے۔ معاشرتی استبداد کی ایسی پائیدار عکاسی کرنا واقعی ہمت اور حوصلے کا کام ہے۔

فلم کی عکاسی میں بھی روشنی کا استعمال اہمیت کا حاصل ہے، جہاں رات کی تاریکی میں چھپ کر کرنے والے کام دوربین سے نمایاں ہو جاتے ہیں۔

صائم نے بہت ایمانداری سے بتا دیا کہ اس معاشرے میں لوگ مرنے والے کو بھی نہیں بخشتے بلکہ کہتے ہیں اس نے یہ کیوں کیا تھا۔

31 سالہ صائم صادق نے اپنی بہترین ہدایت کاری سے اس سادہ سے کہانی میں رنگ بھر دیے اور اقبال کے مصرعے کی عملی تصویر بنے۔ پاکستان میں کنہہ مشق ہدایت کار فلم بنانے میں مشکل کا شکار ہیں وہیں اس نوجوان نے وہ کردکھایا جو کئی دیگر آج تک نہیں کر سکے۔

جوائے لینڈ کو کانز میں جو پذیرائی ملی، اس کے بعد آسکر میں اس کا پاکستان کی جانب سے نامزد ہونا بڑی کامیابیاں ہیں۔

اقبال نے کہا تھا کہ ’جوانوں کو پیروں کا استاد کر۔‘ اب صائم اس وقت پیروں کے استاد مانے جائیں گے اگر آسکر لے آئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم