جوائے لینڈ: ’ہماری چھ سال کی محنت ضائع ہو رہی ہے‘

فلم کی شریک پروڈیوسر ثنا جعفری نے کہا ہے کہ جوائے لینڈ پاکستان میں بنی اور پاکستانیوں کے لیے بنی لہٰذا اگر وہی نہیں دیکھ پائیں گے تو کیا فائدہ؟

یہ فلم 18 نومبر کو پاکستان بھر کے سینیما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی جانی تھی (کھوسٹ فلمز)

پاکستان کی جانب سے آسکرز ایوارڈ کے لیے نامزد فلم ’جوائے لینڈ‘ کی شریک پروڈیوسر اور کاسٹنگ ڈائریکٹر ثنا جعفری نے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں بتایا جائے کہ فلم کا سینسر شپ سرٹیفیکیٹ کس بنیاد پر واپس لیا گیا۔

’سننے میں آیا ہے کہ وزارت اطلاعات و نشریات کو مختلف دینی جماعتوں کا دباؤ آ رہا ہے۔ وزارت نے اس حوالے سے کوئی صفائی پیش نہیں کی۔ انہوں نے واضح نہیں کہا کہ فلم کو بین کیا ہے یا نہیں۔'  

وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات نے 11 نومبر کو ’جوائے لینڈ‘ کو سینیما میں نمائش کے لیے اگست میں دیا جانے والا سینسرشپ سرٹیفکیٹ واپس لے لیا تھا۔

نوٹیفکیشن کے مطابق فلم کے لیے جاری کردہ سینسر سرٹیفکیٹ 17 اگست، 2022 میں جاری کیا گیا لیکن فلم ریلیز ہونے سے ایک ہفتہ قبل ’تحریری شکایتیں موصول ہوئیں جن کے مطابق فلم میں انتہائی قابل اعتراض مواد موجود ہے جو ہمارے معاشرے کی سماجی و اخلاقی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتا۔‘

نوٹیفکیشن کے مطابق ’فلم اخلاقیات اور شائستگی کے برعکس ہے، اس لیے اس کو موشن پکچرز آرڈینینس 1979 کے سیکشن نو کے تحت سینیما میں نمائش کے لیے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

تاہم ثنا کہتی ہیں کہ اگر یہ کہا جا رہا ہے کہ فلم کے حوالے سے انہیں کوئی شکایات موصول ہوئی ہیں تو شکایت تو کوئی بھی کر سکتا ہے۔

’کوئی بھی اٹھ کر شکایت کرے تو اس پر فلم کی نمائش روک دی جائے گی؟ اس میں کوئی منتق سمجھ نہیں آتی۔‘

انہوں نے زور دے کر کہا کہ وزارت اطلاعات و نشریات اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور جو بھی فیصلہ کرے اس سے انہیں کم از کم مطلع کیا جائے۔  

ثنا کے مطابق نوٹفیکیشن میں لکھا ہے کہ یہ لیٹر وفاق کے لیے ہے اور اسے باقی صوبوں میں بھی جاری کر دیا جائے۔ 

'اگر دیکھا جائے تو تکنیکی طور پر فلم کو بین نہیں کیا گیا۔‘

ثنا نے بتایا کہ انہوں نے ابھی تک تحریری طور پر وزارت اطلاعات و نشریات کو درخواست نہیں دی لیکن فلم کے دوسرے پروڈیوسر سرمد سلطان کھوسٹ ان سے رابطے میں ہیں۔

’وزارت اطلاعات و نشریات کا کوئی ٹھوس جواب نہیں آرہا، بس یہی بتایا جا رہا ہے کہ دباؤ ہے اور وہ دیکھیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ فلم آسکرز کے لیے جا رہی ہے جس کے لیے اس کا پاکستان میں ریلیز ہونا ضروری ہے۔

’اس فلم کو بنانے میں چھ سال لگے اور سینکڑوں لوگوں کی محنت لگی۔

’یہ فلم پاکستان میں بنی اور پاکستانیوں کے لیے بنی لہٰذا اگر وہی نہیں دیکھ پائیں گے تو کیا فائدہ۔‘

ان کا کہنا تھا کہ فلم کی نمائش رکنے سے ناصرف انہیں مالی نقصان ہوگا بلکہ ان کی چھ سال کی محنت رائیگاں چلی جائے گی۔‘

ثنا نے افسوس سے کہا: ’ایسی فلموں اور ڈراموں پر پابندی نہیں لگائی جاتی جن میں خواجہ سراؤں کی تضحیک کی جاتی ہے، بلکہ اس کمیونٹی کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور اسے انسان نہیں دیکھا جاتا۔ چند ایک خواجہ سرا لڑکی کو انسان دیکھ کر اس قدر ناراض کیوں ہیں؟' 

ٹرانسجینڈرز کے مسائل پر بنی اور سرمد سلطان کھوسٹ کی پروڈیوس کردہ یہ فلم 18 نومبر کو پاکستان بھر کے سینیما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی جانی تھی۔

اس سے پہلے یہ مئی 2022 میں کان فلم میلے میں نمائش کے لیے پیش کی گئی، جہاں اسے جیوری پرائز سے نوازا گیا جبکہ یہ فلم 95ویں اکیڈمی ایوارڈز کی بہترین عالمی فیچر فلم کی کیٹیگری میں دیگر ممالک کی فلموں کے ساتھ، پاکستانی فلم کی اینٹری کے طور پر شامل ہے۔

فلم کی نمائش پر پابندی کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب سے رابطے کی کوشش کی مگر ان کے ترجمان نے بتایا کہ وہ ملک سے باہر ہیں اس لیے ابھی ان سے رابطہ ممکن نہیں، ان کی واپسی پر کوئی بیان جاری کیا جسکتا ہے۔

تاہم انہوں نے نوٹفیکیشن کے اصل ہونے کی تصدیق کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ترجمان پنجاب حکومت مسرت جمشید چیمہ نے پابندی کے حوالے سے کہا کہ ’یہ سوال وفاقی حکومت سے بنتا ہے کہ پہلے فلم کو ریلیز کی اجازت کیوں دی اور اب ختم کیوں کی؟ کیا انہیں دیر سے احساس ہوا کہ یہ فلم ہماری اخلاقی اقدار کے خلاف ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے سرمد سلطان کھوسٹ سے ان کا ردعمل جاننے کے لیے متعدد بار رابطہ کیا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔

نوٹیفکیشن سامنے آنے کے بعد سے سوشل میڈیا پر مختلف ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔

مصنف، ہدایت کار اور پیش کار فصیح باری خان نے اپنے فیس بک پر لکھا: ’کچھ الگ اور مختلف مت بناؤ وہی بناؤ گھسے پٹے موضوعات کی الٹیاں۔

’زندگی تماشا کے بعد ایک اور فلم بین کر دی گئی، کسے وکیل کریں کسے منصفی چاہیں؟‘

ٹوئٹر پر جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے اپنے ٹویٹ میں لکھا:

’الحمداللہ حکومت پاکستان نے متنازع فلم جوائے لینڈ کو جاری کردہ نمائش کا لائسنس منسوخ کر دیا۔

’نوٹفیکیشن جاری، یہ حکومت کا احسن اقدام ہے کہ پاکستان اسلامی مملکت ہے یہاں کوئی قانون، کوئی اقدام، کوئی نظریہ خلاف اسلام نہیں چل سکتا۔‘

ٹوئٹر پر اس فلم کی نمائش کے حق میں بھی ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے۔

ایک صارف آن چیمہ نے لکھا: ’میں وہ فلم دیکھنا چاہتی ہوں جس کو دنیا کے ہر فلمی میلے میں کھڑے ہوکر داد ملی۔ ہم اچھی کہانیوں اور اچھے سینیما #ReleaseJoyland  کے مستحق ہیں۔‘

فلم جوائے لینڈ میں ’نچی‘ کا کردار ادا کرنے والی اداکارہ ثروت گیلانی نے لکھا: ’پاکستانی سینیما کے لیے تاریخ رقم کرنے والی فلم #Joyland کے خلاف ایک بامعاوضہ سمیئر مہم چل رہی ہے جسے تمام سینسر بورڈز سے پاس کر دیا گیا لیکن اب حکام کچھ بددیانت لوگوں کے دباؤ میں آ رہے ہیں جنہوں نے فلم دیکھی تک نہیں۔‘

’شرم ناک بات ہے کہ 200 پاکستانیوں کی چھ سال میں بنائی گئی ایک پاکستانی فلم جسے ٹورنٹو سے قاہرہ سے کان تک شائقین نے کھڑے ہو کر داد دی۔

’اپنے ہی ملک میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ ہم سے فخر اور خوشی کے اس لمحے کو نہ چھینیں۔‘

اس ٹویٹ کے تھریڈ میں ثروت نے مزید لکھا: ’کوئی کسی کو یہ فلم دیکھنے پر مجبور نہیں کر رہا اس لیے کسی کو مجبور نہ کریں کہ وہ یہ فلم نہ دیکھیں!

’پاکستانی ناظرین یہ جاننے کے لیے کافی سمجھ دار ہیں کہ وہ کیا دیکھنا چاہتے ہیں کیا نہیں۔ پاکستانی فیصلہ کریں! ان کی ذہانت اور ہماری محنت کی توہین نہ کریں۔‘

مصنف اور اداکار عثمان خالد بٹ نے بھی اپنے ٹوئٹر پر ایک تھریڈ لکھا جس میں سب سے پہلے تو انہوں نے وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات سے اس نوٹفیکیشن کے اصلی ہونے کا سوال کیا۔

’دی سینٹرل بورڈ آف سینسرشپ (CFBC) نے جوائے لینڈ کو اگست میں نمائش کے لیے کلیئر کر دیا تھا۔ تو بورڈ کے ممبران کو فلم کے تھیم/مواد سے کوئی مسئلہ نہیں تھا، ٹھیک ہے؟

یہ فلم 18 تاریخ کو ریلیز ہونے والی ہے، جو کہ پوائنٹ 2 کو نہ صرف شدید گمراہ کن بلکہ حقیقتاً غلط بناتی ہے۔‘

انہوں نے مزید لکھا: ’ایک ایسی قوم کے طور پر جس نے جوائے لینڈ کے بہت سے سنگ میلوں اور کامیابیوں کا جشن منایا ہے، آپ کو تحریری شکایات کے دباؤ میں دیکھ کر ناقابل یقین حد تک مایوسی ہو رہی ہے۔

عثمان کا یہ بھی کہنا تھا: ’یہ میرے لیے حیران کن ہے کہ جوائے لینڈ نے کانز میں تاریخ رقم کرنے کے بعد بھی، تمام بین الاقوامی تنقیدی پذیرائیوں کے بعد، پاکستان کی جانب سے آسکر میں بہترین بین الاقوامی فیچر کے لیے فلم پیش کرنے کے بعد، یہ فلم کسی طرح ریلیز سے ایک ہفتہ قبل ہمارے ناظرین کے لیے نا مناسب ہو گئی ہے؟‘

ان کا کہنا تھا کہ اگرجوائے لینڈ کا موضوع (اور یہ ایک مفروضہ ہے- میں نے فلم نہیں دیکھی) عام سامعین کے لیے بہت حساس ہیں تو اسے مناسب درجہ بندی دیں۔ اور اس کی مثالیں موجود ہیں۔ لیکن ہمیں فلم دیکھنے سے محروم نہ کریں۔‘

اس سے قبل سرمد سلطان کھوسٹ کی ہی ایک اور فلم زندگی نماشہ کو بھی پاکستان میں نمائش کے لیے بین کر دیا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم