پاکستان نے ’جوائے لینڈ‘ کو آسکرز کے لیے نامزد کر دیا

پاکستان کی آسکرز سلیکشن کمیٹی کی سربراہ شرمین عبید چنائے کے مطابق فلم جوائے لینڈ امید دلاتی ہے کہ پاکستانی فلم بھی اب دنیا کے پردے پر اپنا نشان بنائے گی۔

پاکستان میں جوائے لینڈ کی نمائش 18 نومبر کو ہو گی (آئی ایم ڈی بی)

پاکستان کی آسکرز سلیکشن کمیٹی نے 2023 میں منعقد ہونے والے 95ویں اکیڈمی ایوارڈز کی ’عالمی فیچر فلم ایوارڈ‘ کی کیٹیگری میں پاکستان کی جانب سے نامزدگی کے لیے فلم ’جوائے لینڈ‘ کو منتخب کیا ہے۔

آسکرز ایوارڈز کی کمیٹی رواں برس 21 دسمبر کو تمام ممالک سے بھیجی گئی فلموں کو دیکھنے کے بعد 15 فلموں کو نامزد کرے گی جبکہ حتمی پانچ نامزدگیوں کا اعلان 24 جنوری کو ہوگا۔ 

آسکرز ایوارڈز کا میلہ آئندہ سال 12 مارچ کو سجے گا۔ پاکستان کی سلیکشن کمیٹی کی سربراہ دومرتبہ کی آسکر ایوارڈ یافتہ ہدایت کارہ شرمین عبید چنائے ہیں۔

ان کے ساتھ کمیٹی میں ملک کے نام ور اداکار، ہدایت کار اور مصنف سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد تھے جن میں علی سیٹھی، عمر شاہد حامد، رافع محمود، ثمینہ احمد، جرجیس سیجا، بی گُل، رضوان بیگ، مو عاذمی اور زیبا بختیار شامل ہیں۔

جوائے لینڈ کے ہدایت کار صائم صادق ہیں اور اسے سرمد کھوسٹ نے پروڈیوس کیا ہے۔

’جوائے لینڈ‘ کی کہانی لاہور کے ایک ایسے گھرانے کی ہے جہاں گھر کا چھوٹا بیٹا، جس سے توقع تھی کہ وہ بیٹا پیدا کرکے نسل آگے بڑھائے گا، ایک ڈانس تھیٹر میں شامل ہوجاتا ہے اور وہاں ایک ٹرانس جینڈر لڑکی کے عشق میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

آسکر ایوارڈز کی حتمی نامزدگی کے لیے کسی فلم کی سفارش بھیجنے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ مذکورہ فلم کی یکم جنوری سے 30 نومبر 2022 کے دوران اُس کے اپنے ملک میں کسی کمرشل سینما میں کم از کم ایک ہفتے تک نمائش ہو چکی ہو۔

 اس کمیٹی کا فیصلہ رائے شماری سے ہوتا ہے۔

شرمین عبید چنائے کا کہنا تھا کہ فلم جوائے لینڈ امید دلاتی ہے کہ پاکستانی فلم بھی اب دنیا کے پردے پر اپنا نشان بنائے گی۔ ’خوشی ہے کہ ہم اپنی بہترین فلم کو آسکرز میں مقابلے کے لیے بھیج رہے ہیں۔ شاید یہی وہ سال ہو جب ہمیں وہاں نوٹس کرلیا جائے۔‘

یاد رہے جوائے لینڈ کی تاحال پاکستان میں نمائش نہیں ہوئی اس کی نمائش 18 نومبر کو متوقع ہے۔

اس سے پہلے جوائے لینڈ فرانس میں منعقد ہونے والے عالمی فلمی میلے کین میں جیوری ایوارڈ جیت چکی ہے۔

کین میں اس کیٹیگری میں ایوارڈ جیتنے والی یہ پہلی فلم ہے۔

رواں برس ستمبر میں پاکستان کے مرکزی اور صوبائی سنسر بورڈز نے اس کی نمائش کی اجازت دیتے ہوئے سرٹیفکیٹ جاری کردیا تھا۔

فلم کے ہدایت کار صائم صادق نے نامزدگی پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ اب ایک ذمےداری بن گئی ہے کیونکہ یہ بہت بڑا اعزاز ہے جو اس فلم کو حاصل ہوا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صائم کا کہنا تھا کہ وہ بہت زیادہ شکر گزار ہیں کہ ان کی فلم آسکرز میں پاکستان کی نمائندگی کرے گی اور امید ہے کہ وہ ملک کی خاطر کچھ کرسکیں۔

جوائے لینڈ کے مرکزی اداکار علی جونیجو نے کہا کہ یہ ان کے لیے بہت ہی بڑا موقع ہے، یہ ان کے لیے اعزاز کی بات ہے اور وہ اس پذیرائی پر تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔

پاکستانی سینیما کے ازسر نو احیا کے بعد سے پاکستان ہر سال ایک فلم کو آسکرز میں نامزدگی کے لیے بھیجتا ہے۔ تاہم اب تک کوئی بھی فلم آسکرز ایوارڈز کی حتمی نامزدگیوں میں جگہ نہیں بنا سکی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اب تک بھارت کی صرف دو فلمیں یعنی 1989 میں بننے والی ’سلام بومبے‘ اور 2001 میں ’لگان‘ حتمی نامزدگیوں میں جگہ بنا سکی ہیں۔

پاکستانی سینیما کے احیا کا یہ سفر 2013 میں پاکستانی فلم ’زندہ بھاگ‘ سے شروع ہوا تھا جس کے بعد 2014 میں فلم ’دختر‘، 2015 میں فلم ’مور‘، 2016 میں فلم ’ماہِ میر‘، 2017 میں فلم ’ساون‘، 2018 میں فلم ’کیک‘، 2019 میں ’لال کبوتر‘، 2020 میں فلم ’زندگی تماشہ‘ کو آسکرز میں پاکستان کی جانب سے باقاعدہ طور پر نامزد کیا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم